• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں نواز شریف حسب اعلان 21؍اکتوبر کو از خود جلا وطنی یا بیماری کے علاج کے بعد واپس وطن پہنچ گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مینار پاکستان پر (ن) لیگ نے بہت بڑے جلسے کا اہتمام کیا تھا جو کامیاب رہا اور بعض لوگوں کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ مسلم لیگ(ن) مینار پاکستان گرائونڈ کو نہیں بھر سکتی۔ نواز شریف کا اس موقع پر خطاب بھی انتہائی مثبت تھا۔ ان کا بیاینہ صرف ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی پر مبنی نظر آیا ان کے خطاب کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کو یہ احساس ہے کہ شہباز شریف کی ڈیڑھ سالہ وزارت ِعظمیٰ نے پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے اس لیے انہوں نے اپنے خطاب میں شہباز شریف کا ذکر صرف میٹرو تک ہی محدود رکھا اور شہباز دور حکومت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہو گا۔ شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم دو کام ہی تو کیے تھے جن میں ایک کامیاب اور دوسرے میں وہ فی الحال ناکام نظر آتے ہیں۔

مہنگائی میں ناقابل برداشت اضافہ کرنے میں وہ سابقہ تمام حکومتوں کو پیچھے چھوڑ گئےتاہم اپنے خلاف قائم مقدمات کو ختم کرنے کی کوشش میں وہ فی الحال مکمل کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ہو، پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی، ان کے مقدمات کے فیصلے تو عدالت نے کرنے ہیں لیکن ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کرنے کا فیصلہ عوام، وقت اور حالات کریں گے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو لایا گیا ہے اور ان کو ایک بار پھر وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ان کو لانے اور وزیر اعظم بنانے والا یا والے کون ہیں۔ اگر ان کے سیاسی مخالفین ہمت کر کے وہ نام بتا دیں تو عوام کے لئے آسانی ہو جائے۔ ان کی اس مشکل کو آسان کرنے کے لئے ان کا اشارہ جس طرف بھی ہے واضح الفاظ میں کیوں نہیں بتاتے۔ شائد یہ ان کا وہم اور گمان ہے اس کا ثبوت کوئی نہیں ۔ ان کو تین روزہ ضمانت تو عدالت نے دی ہے۔ اور اگر اس کا موازنہ چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانتوں اور ناقابل یقین ریلیف سے کیا جائے تو نواز شریف کا معاملہ آٹے میں نمک کے برابر لگے گا۔ نواز شریف کی نااہلی اور جرمانے کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ، ان کا فیصلہ بھی عدالت ہی نے کرنا ہے۔ جہاں تک الیکشن میں (ن) لیگ کی کامیابی کا تعلق ہے تو اگر لوگ اس جماعت کو ووٹ نہ دیں تو یقینی طور پر یہ جماعت ناکام ہو جائے گی۔ ویسے بھی ابھی الیکشن ملک کے حق میں نہیں ہیں۔ جن لوگوں کو الیکشن کی جلدی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کرسی کےطلب گار ہیں ملک اور ملکی حالات سے ان کو کوئی سروکار نہیں جو قابل افسوس ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں دنیا میں ہماری پہچان اسی کے نام سے ہے اگرخدانخواستہ یہ ملک نہ ہو تو سوچئے کہ پھر ہمیں کس نام سے پکارا جائے گا۔ آخر فوجی افسران و جوان اور دیگر اداروں کے اہلکار اس ملک ہی کے لئے تو اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں ۔ ہم سب ان سب شہداء کے مقروض ہیں۔

بعض لوگ اب یہ بھی کہتے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی بچی کچھی جماعت کو بھی الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔ معلوم نہیں وہ کس سے اجازت لینے کی بات کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کی سمجھ نہیں آتی جب عدالتوں سے ان کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو کہتے ہیں کہ عدالتیں آزاد ہیں اور انصاف کا بول بالا ہو گیا لیکن جب ان کے خلاف کوئی فیصلہ آجاتا ہے تووہی لوگ ان ہی عدالتوں کے خلاف بولنا شروع کردیتےہیں بلکہ مذکورہ جماعت تو عدالتوں کے خلاف باقاعدہ سوشل میڈیا مہم شروع کر دیتی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے جن حواریوں کے کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ان کے فیصلے ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا یا جلسے جلوسوں میں کبھی نہیں ہونگے۔ ان کے فیصلے عدالتوں نےکرنے ہیں جن کا انتظارکرنا چاہیے۔ بلکہ ایک صاحب، جو تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد منظر عام پر آئے ہیں ،نے کہا ہے کہ 9مئی کے واقعات میں جو لوگ ملوث ہیں اور زیر حراست یا جیلوں میں ہیں وہ ان کو عام معافی دلانے کی مہم شروع کرنے والے ہیں۔ معلوم نہیں اس اعلان اور مذکورہ عجیب و غریب مہم کا سوچنا تو درکنارقابل عمل ہونا بھی دور کی بات ہے۔ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ یہ اعلان اور مہم ان کی سیاسی بے روز گاری کے دوران ’’ویلی مصروفیت‘‘ اور شغل میلہ ہے۔ بلکہ یہ شہداء کی یاد گاروں کی بے حرمتی اور ریاستی اداروں کی تنصیبات پر حملوں اور نقصان پہنچانے والوں کی کھلی سہولت کاری ہے۔ ان کو تو آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ،کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہ ملک اور ریاست کا معاملہ ہے۔ کسی کا ذاتی جھگڑانہیں ہے۔ ان ہی کے دور حکومت میں بعض دہشت گردوں کو جو ’’معافی‘‘ ملی تھی آج اس کا خمیازہ ریاست بھگت رہی ہے۔ کیا 9اور 10مئی کو جو کچھ ہوا ہے یہ بڑی اور کھلی دہشت گردی نہیں تھی اگر ان واقعات میں ملوث افراد کو معافی مل جائے تو پھر سب دہشت گردوں کو معافی ملنے میں کیا امر مانع ہو گا۔

نواز شریف کو لانے یا بلانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار ہے نہ ان کو وزیر اعظم بنانے کی کسی کو خواہش یا ضرورت ہے۔ یہ ان کا اور ان کی جماعت کا فیصلہ ، خواہش اور ضرورت تھی۔ آگے کیا ہو گا یہ صرف خدا ہی جانتا ہے اس ملک پر رحم کیا جائے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ نواز شریف ہو یا کوئی اور اس ملک کو موجودہ حالات سے نکالنا سیاستدانوں کے بس کا کام نہیں ہے۔ کسی کے پاس الہ دین کا چراغ ہے تو دکھائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین