پاکستان کے سابق وزیرا عظم ، نواز شریف کی فاتحانہ واپسی کی راہ میں نہ عدلیہ نے رکاوٹ ڈالی نہ انتظامیہ مزاحم ہوئی۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ کے اعتراف کا اظہار ہوتا ہے کہ 2017ءمیں عدالتی شب خون کے ذریعے اُنھیں عہدے سے ہٹانا ایک غلطی تھی ۔ ان کی جلاوطنی سے واپسی یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کے ذریعےپاکستان کے پیچیدہ مسائل حل کرناکارِ لا حاصل ہے ۔
جس دوران مجھے پاکستانی میڈیا میں رسائی حاصل نہیں تھی ، میں نے جولائی 2018ء کے انتخابات سے پہلے ایک غیر ملکی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں پیشین گوئی کی تھی کہ تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نوازشریف پاکستانی سیاست میں لوٹ آئیں گے ۔ اُس وقت اُنھیں سپریم کورٹ نے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے کے حق سے تاحیات نااہل کردیا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ اب وہ کسی جگہ بھی اپیل نہیں کرسکتے ۔ لیکن نہ تو ان کی نااہلی، نہ سزا اور نہ ہی قید مجھے قائل کرسکی۔ بلکہ میں ایک صفحے پر قائم سیاسی بندوبست کی تباہی اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والی افراتفری کو بھی بھانپ رہا تھا۔
میں نے لکھا :’’حتیٰ کہ اگر پچیس جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد اسٹیبلشمنٹ ایک سلیکٹڈ وزیر اعظم کو عہدے پر بٹھانے میں کامیاب ہوجائے تو بھی وہ ایک قابل اعتماد اور موثر سویلین بندوبست کا دکھاوا کرنے کے اپنے اصل مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ نواز شریف کی قید سے اُنکے یا ان کی بیٹی کے سیاسی کیرئیر کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ جنھوں نے اُنھیں عہدے سے ہٹانے کی سازش کی ہے، ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پھر سے سیاسی میدان میں ہونگے۔‘‘
اس مضمون میں،میںنےنتیجہ نکالا: ’’سیاست دشمنوں کو تلاش کرکے ختم کرنے سے کہیں زیادہ مشکل اور پیچیدہ کام ہے ۔ ‘‘یہ جملہ پاکستانی فوج کے ایک سابق کمانڈر، جنرل محمد موسیٰ کے حوالے سے ہے ، جن کا کہنا تھا کہ ایک فوجی کا کام دشمن کو ڈھونڈنااور ختم کرنا ہے ۔ جنرل موسیٰ کے مطابق اس کام کیلئے درکار تربیت سیاست کی دنیا کے پیچیدہ امور میں کام نہیں دیتی کیوں کہ سیاست میں کل کے حریف آج کسی مشترکہ مقصد کی خاطر اکٹھے ہوسکتے ہیں اورآج کے اتحادی آنے والے کل میں دشمن بھی بن سکتے ہیں۔
نواز شریف اور اُن کے خاندان نے گزشتہ چھ برسوں کے دوران بے پناہ مشکلات جھیلی ہیں، اور اسی طرح ملک بھی مصائب کے خار زاروں سے گزرا ہے ۔ ریاستی ادارے جنھوں نے نوازشریف کو نکال کر نیا سیاسی نظام قائم کرنے کی کوشش کی تھی ، اب وہی اُنھیں مرکزی اسٹیج پر واپس آنے کی سہولت فراہم کررہے ہیں ۔ بے شک اُن کے پاس ایسا کرنے کی ایک فوری وجہ حالیہ دنوں اپنی ایک مشکل کو سائیڈلائن کرنا ہے ۔ لیکن اگر وہ گزشتہ پینتیس برسوں کے سیاسی بھونچال سے کوئی وسیع تر سبق سیکھنا چاہیں تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ مقبول عام سیاست دانوں کو اس طرح من مرضی سے سیاسی منظرنامے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔
بے نظیر بھٹو کو1990 ء میں اقتدار سے ہٹا کر نواز شریف کو لایا گیا، لیکن پھر 1993ء میں انھیں ہٹا کر دوبارہ بے نظیر بھٹو کو لانا پڑا۔ اسکے بعد جب 1996 ء میں بے نظیر کو ہٹایا گیا تو 1997ء میں ایک بار پھر نواز شریف اقتدار میں آگئے۔اسٹیبلشمنٹ نے 1999 ء میں مشرف کی فوجی بغاوت کو اس مسئلے کے دیرپا حل کے طور پر دیکھا جو دونوں لیڈروں کو باری باری موقع دینے سے پیدا ہوا تھا ۔ لیکن 2007ء میں پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو کے ساتھ مفاہمت کرنا پڑی ، اور آخر کار وہ اور نواز شریف، دونوں سیاسی میدان میں واپس آگئے۔پھر بے نظیر بھٹو کے المناک قتل کے بعد آصف زرداری کا اقتدار میں آنا، اور ان کے اور نواز شریف کے درمیان اعتماد کا فقدان مفاہمتی عمل کی خرابی کا باعث بنا۔ اور یہ صورتحال اسٹیبلشمنٹ کیلئے سود مند تھی ۔ اس دوران ایک تیسری سیاسی قوت پیدا ہوئی جس سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ مقبول عام سیاست کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کو پورا کریگی۔ آج ایک بار پھر قومی مفاہمت کی کسی بھی کوشش کو سیاسی عمل پر یقین نہ رکھنے والے سبوتاژ کردیں گے۔ شریف، زرداری اور اسٹیبلشمنٹ، سب کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ جس مقبول لیڈر کو انھوں نے اس وقت گھیر رکھا ہے وہ ہمیشہ کیلئے گھرا نہیں رہے گا۔ کسی بھی حقیقی مفاہمت کے عمل کیلئےاُن افراد کو شامل کرنا ہوگا جو اس وقت قید میں ہیں، انھیں سیاسی عمل سے نکال دیا گیا ہے اور ان کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے ۔ طویل کیریئر رکھنے والے پاکستانی سیاست دانوں کی طرح نواز شریف کی سیاسی اننگز میں اتار چڑھاؤ، سمجھوتے اور تنازعات، اور غلطیاں اور کامیابیاں شامل ہیں۔ لیکن جب سے وہ 1990 میں پہلی بار وزیر اعظم بنے ، ان کے پیش نظر تین مستقل موضوعات رہے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان پر پالیسی کے مطابق کاربند نہ رہا جاسکا یا پھر ان اہداف کو عارضی عوامی مقبولیت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ سب سے پہلا، نواز شریف نے ہمیشہ اقتصادی ترقی کی ضرورت اور مارکیٹ اکنامکس کی اہمیت پر توجہ مرکوز کی ہے۔ دوسرا،پاکستان کے ہمسایوں، بشمول بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ تیسرا، انھوں نے پالیسی سازی میں بالادستی کے سویلین کے استحقاق پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کی ہے۔ یہ سب پاکستان کو موجودہ سنگین بحران سے نکلنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
پالیسی کے میدان میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے اور قطبی رویوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اکیس اکتوبر کو مینارِ پاکستان پر نواز شریف کی مفاہمتی تقریر اس سمت میں پہلا اہم قدم تھا۔ لیکن مفاہمت کیلئے تمام فریقوں کی رضامندی ضروری ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سخت موقف اختیار کرنا اور وار کرنے کیلئے مناسب وقت کا انتظار کرنا ایک بہتر حکمت عملی ہے تو ہم پاکستان کی حالیہ تاریخ کے باب کا ایک مرتبہ پھر اعادہ دیکھیں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ کہانی ذرا مختلف ہو اورکردار بدل جائیں۔