• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی سی آئی اے اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی این ایس اے میں کام کرنے والے ایک نوجوان ’’ ایڈورڈ اسنوڈن ‘‘ نے 2013 ء میں امریکا کی بہت سی خفیہ اور حساس دستاویزات کا انکشاف کیا تھا ، جس سے دنیا کو پتہ چلا کہ امریکا دنیا بھر میں کیا کرتا رہا ہے ۔ کس طرح دنیا میں حکومتیں بناتا اور گراتا رہا ہے اور آئندہ اس کے منصوبے کیا ہیں ۔ دنیا کو یہ بھی معلوم ہوا کہ عالمی استعمار کس طرح کام کرتا ہے اور آئندہ عشروں اور صدیوں کیلئے اس کی منصوبہ بندی کیا ہے ۔ بعض دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ’’ گلوبل سرویلنس پروگرام ‘‘ یعنی عالمی نگرانی کے پروگرام پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔

یہ پروگرام کیا ہے؟ اس حوالے سے ایک اور امریکی دانشور ڈاکٹر کیون بیرٹ (Dr Kevin Barret ) نے وضاحت کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کا مقصد ’’ گلوبل سرویلنس اسٹیٹ ‘‘ یعنی نگرانی کرنے والی عالمی ریاست کا قیام ہے ۔ ایک ایسی ریاست جہاں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہر شخص کی نگرانی کی جائے گی ۔ اس کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کی جائیں گی اور ان معلومات کی بنیاد پر اسے استعمال یا بلیک میل کیا جا سکے گا تاکہ وہ اپنی سوچ کے مطابق کام نہ کر سکے اور عالمی استعماری منصوبوں کے خلاف نہ ہو سکے ۔ بیرٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب ہر ایک کی نگرانی کی بنیاد پر عالمی آمریت قائم ہو جائے گی تو پھر اعلان کر دیا جائے گا کہ ’’ اب مزاحمت بے کار ہے ۔ ‘‘

یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ گلوبل سرویلنس اسٹیٹ قائم ہو چکی ہے ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعہ انسانی ذہنوں کو کنٹرول اور اپنی مرضی سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ عالمی سطح پر عالمی استعمار کے خلاف کوئی بڑی سیاسی یا مزاحمتی تحریک نہیں رہی ۔ ملکوں کے اندر بھی ایسی حقیقی سیاسی اور مزاحمتی تحریکیں کمزور یا ختم ہو چکی ہیں ۔ حقیقی مقبول سیاسی قیادت کی جگہ مصنوعی طور پر مقبول سیاسی قیادت نے لے لی ہے ۔ میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا مہم جس کی زیادہ ہو گی وہ اس مہم کے ذریعہ لوگوں کے رحجانات کی بنیاد پر انہیں استعمال کر سکے گا ، وہ مقبول ہو جائے گا۔ ماضی کی مقبول قیادت بھی اب مقبولیت کیلئےسوشل میڈیا پر انحصار کر رہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر مقبولیت کی جنگ کے نتائج کسی اور کے ہاتھ میں ہیں ۔ مقامی حکمران اشرافیہ دہشت گرد اور پریشر گروپس ، سول اور ملٹری بیورو کریسی اور دیگر طاقتور گروہ طے کرتے ہیں کہ ملک میں سیاسی رحجانات کیا ہوں ۔ ان سب طاقتور گروہوں کو اوپر سے بتایا جاتا ہے کہ ان سیاسی رحجانات کو کس طرح استعمال کرنا ہے اور کون سی سیاسی جماعت اور کون سے سیاسی رہنما کو آگے لانا ہے ۔ اس گلوبل سرویلنس پروگرام کے تحت صرف ترقی پذیر ملکوں کی ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کی سیاسی قیادت بھی عالمی استعمار اور اس کے علاقائی اور ملکی نمائندوں میں ’’ لابنگ ‘‘ کرتی ہے یا وہ خود اسے ’’ پروان ‘‘ چڑھاتی ہے ۔ اس پروگرام کی وجہ سے طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں رہے بلکہ طاقت کا سرچشمہ ملکی ، علاقائی اور عالمی استعمار ہے ۔

اس نئے پروگرام پر عوامی سیاست کی ملمع کاری کی گئی ہے تاکہ عالمی استعماری آمریت بے نقاب نہ ہو ۔ اب بھی ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کو سیاسی اور احتجاجی اجتماعات میں جمع کیا جا تا ہے ۔ لیکن یہ عوامی طاقت مکمل کنٹرول میں ہوتی ہے اور مقتدر حلقوں کے مقاصد پورے کر رہی ہوتی ہے ۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں خاص طور پر سیاست دان اگر لابنگ کرتے ہیں،عالمی اور علاقائی طاقتور حکمرانوں کی ضمانتیں حاصل کرتے ہیں اور عوام بھی ان طاقتوں کے منصوبے کی ’’ حمایت کرتے ہیں یا مخالفت نہیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گلوبل سرویلنس پروگرام پر کامیابی سے عمل ہو رہا ہے ۔ اگر میاں محمد نواز شریف کوئی معاملات طے کرکے آئے ہیں تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ۔ ان سے پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے ۔ پاکستان میں تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) کے بعد کوئی حقیقی عوامی مزاحمت نہیں ہوئی ۔ کہیں اگر تھوڑی بہت حقیقی مزاحمت ہوتی ہے ، جو سسٹم کیلئے معمولی سا بھی چیلنج ہو ، اسے سختی اور بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہے ۔ خود سیاسی جماعتوں نے بھی عوامی سیاست کی بجائے لابنگ پر انحصار کیا ہے ۔ عوامی سیاست لابنگکیلئے دکھاوے کے طور پر ’’ بارگیننگ ‘‘ میں کام آتی ہے۔

اگرچہ پوری دنیا میں یہی نظام راج ہے لیکن پاکستان میں جتنا زیادہ خطرناک ہو گیا ہے ، اتنا کہیں نہیں ہے کیونکہ باقی دنیا میں مقتدر حلقے اس نظام کی بقا کیلئے اپنا احتساب بھی کرتے ہیں اور لوگوں کے غم و غصے کو نکالنے کیلئے سیفٹی والوز بھی رکھتے ہیں ۔ یعنی احتجاج اور اختلاف کا حق دیتے ہیں اور اس کو کنٹرول کرنے کے طریقے بھی وضع کر رکھے ہیں ۔ عالمی اشرافیہ استعماری حربوں کو بھی سسٹم کے تابع رکھتی ہے لیکن ہمارے ہاں اس امر کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ تاریخ میں آگے کیا ہو گا ، یہ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن اس وقت حقیقت یہ ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں ہیں ۔ اب کوئی حقیقی عوامی سیاست پر انحصار کرے گا تو وہ لابنگ کیلئے نااہل قرار پائے گا۔ عالمی استعماری طاقتیں اگرچہ یہ سمجھتی ہیں کہ دنیا میں منظم مزاحمتی تحریکیں ختم کر دی گئی ہیں لیکن وہ اب بھی انتشار سے خوف زہ رہتی ہیں ۔ یہ خوف پاکستان میں نہیں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین