پچھلی حکومت کے دوران اعلیٰ سطح پر کی گئی بدترین بدعنوانی کے نتیجے میں قومی قرضے دگنے سے بھی زیادہ ہوگئے اور مہنگائی آسمانوں سے باتیں کرنے لگی۔ اب سوال یہ ہے کہ مو جو دہ حکومت کو ان مسائل سے نمٹنے کے لئے کیا اقدام اٹھانے ہوں گے؟ اہم ترین مسائل میں توانائی، امن و امان کی صور تحال، سماجی واقتصادی ترقی شامل ہیں جن کو حل کرنے کے لئے نہایت باریک بینی سے تیار کردہ سنگِ میل بنانے کی ضرورت ہے جو کہ علم پر مبنی معیشت کو فروغ دے۔
پاکستان اکیڈمی آف سائنسز ،ملک کے سب سے اعلیٰ سطحی سائنسی ادارے نے توانائی کے سلسلے میں ایک جامع اور ٹھوس مسودہ تیار کیا ہے جس میں حکومت کے لئے مکمل رہنمائی بھی موجود ہے کہ آگے کیا کرنا ہے۔اس مسودے میں سطحی طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ توانائی سے متعلق اب تک کیا غلط ہواہے اور جلد ازجلد کیا تدارک کیا جائے۔ اس میں پانی سے حاصل کردہ توانائی کو کس طرح پن بجلی میں منتقل کیا جائے، کوئلے سے منسلک ٹیکنالوجی، ہوائی توانائی، ساتھ ہی سلیٹی تیل (shale oil ) اور سلیٹی گیس (shale gas ) کی کھوج بھی شامل ہے جس کے وسیع ذخائر ملک میں موجود ہیں۔ جن کے بارے میں، میں گزشتہ پانچ مقالوں میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔
البتہ اصل ترقی کا تخم صرف اسی وقت پنپ سکتا ہے جب ہمارے لیڈر تعلیم کو اس راستے کا سب سے اہم ذریعہ سمجھیں۔ اس کے لئے ہمیں اپنے بچوں خصوصاً نوجوان نسل پر وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی کیونکہ یہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے بل بوتے پر پاکستان جہالت، کسمپرسی، بدامنی وبدعنوانی، معاشی و اقتصادی بدحالی اور بے تحاشہ قرضوں کی گہرائیوں سے ابھر کر پُروقار اقوام کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔
اوّل تو قومی تعلیمی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا جائے اور ہر کسی کے لئے تعلیم کا حصول قانونی طور پر لازمی قرار دے دیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے تمام شعبوں بشمول دفاع بجٹ کی کٹوتی کر کے تعلیم کے لئے مختص کیا جائے تاکہ تعلیم کے لئے مختص GDP کا % 1.9 بجٹ بڑھ کر فوری طور پر GDP کا 7% بجٹ ہوجائے۔ یہی جناب مہاتیر محمد نے ملائیشیا میں کیا تھا جس کی بدولت آج ملائیشیا25% سے30% سالانہ بجٹ تعلیم کے لئے مختص ہے۔ صوبوں اور مرکز کے تعلیمی بجٹ کا کم از کم چوتھائی حصہ اعلیٰ تعلیم کے لئے محتص کیا جائے تاکہ ہم واقعی اپنے ملک کو علم پر مبنی معیشت میں تبدیل کرسکیں۔ یہ تعلیمی بجٹ کی تقسیم بین الاقوامی قاعدے کے عین مطابق ہے جبکہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لئے تعلیمی بجٹ کا صرف 12% حصہ ہے جو کہ نہایت کم ہے۔
تعلیم کے شعبے میں سب سے زیادہ ترجیح انجینئرنگ کے شعبے کو دی جانی چاہئے کیونکہ اس کا براہِ راست تعلق صنعتی ترقی اور دفاع سے ہوتا ہے۔ جرمنی، فرانس، اٹلی، سوئیڈن، آسٹریا، کوریا، چین اور جاپان کی شراکت سے بین الاقوامی سطح کی انجینئرنگ جامعات کے قیام کا پروگرام جو میں نے شروع کیا تھا جو پچھلی حکومت نے آنے کے ساتھ ہی ختم کردیا تھا اس کو فوری طور پر بحال کرنا چاہئے۔ اس اہم پروگرام کے تحت ہم نے 30 اعلیٰ ترین غیر ملکی جامعات سے معاہدے پر دستخط کرائے تھے تاکہ وہ پاکستان میں پاکستانی طلبہ کے لئے انجینئرنگ کے ڈگری کورسز کرائیں اور پاکستانی طلبہ اپنے ہی ملک میں بیٹھے بیٹھے نہ صرف معیاری تعلیم سے مستفید ہوں گے بلکہ بیرونِ ملک گئے بغیر ان اعلیٰ ترین جامعات کی ڈگریاں بھی حاصل کریں گے۔ ہر جامعہ میں ایک ’ٹیکنالوجی پارک‘ قائم کئے جانے کا منصوبہ تھا جہاں پر بہت سی غیر ملکی کمپنیوں نے اپنے تحقیق و ترقی کے مراکز قائم کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ اگر ان سب پر عمل ہو جاتا تو آج پاکستان ایک ایشیائی ٹائیگر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتا۔جس کے نئے اور جدید انجینئرنگ آلات، گھریلو مصنوعات ، موبائل ٹیلیفون اور دیگر اشیاء ہماری درآمدات کاحصہ ہوتے۔ ان پاکستان میں قائم شدہ غیر ملکی جامعات میں 60 سے زائد تحقیق و ترقی کے مراکز دنیا کی اعلیٰ کمپنیوں کے زیرِ سایہ مصروفِ عمل ہوتے۔ اکتوبر 2008ء میں کلاسوں کا آغاز ہونے والا تھا لیکن مئی 2008ء میں ان پروگراموں کو گزشتہ حکومت کی جانب سے یکایک روک دیا گیا۔ میاں شہباز شریف صاحب اس وقت ان پروگراموں میں کافی دلچسپی لے رہے تھے اور لاہور میں جرمن اور آسٹرین جامعات اور سیالکوٹ میں سوئیڈش جامعہ کے قیام کے خواہشمند تھے اس کے لئے انہوں نے غیر ملکی سفیروں اور جامعات کے نمائندوں سے بذاتِ خود ملاقاتیں بھی کیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ صاحب ان پروگراموں کو دوبارہ شروع کریں کیونکہ اب بھی دیر نہیں ہوئی۔
اگر پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بننا ہے تو اسے بہت سے اہم مسئلوں کی جانب توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ پہلے تو ایچ ای سی کے رتبے کو بحال کرنا ہوگا جسے پچھلی حکومت کے وفاقی وزیر برائے تعلیم نے اپنی جعلی ڈگری کو بچانے کے لئے واپس لے لیا تھا۔ ان کے ساتھ دیگر 200 جعلی ڈگریوں کے حامل پارلیمانی اراکین نے بار ہا اس کی خود مختاری کو چھیننے کی کوششیں کیں۔ حکومت کو فوری طور پر ایچ ای سی کے لئے مندرجہ ذیل اقدام کرنے چاہئیں)1) مستقل چیئرمین کی تقرری اہلیت کی بنیادوں پر فوراً کی جائے جس کے لئے دانشوروں کی تفتیشی کمیٹی کی سفارشات حاصل کی جائیں (2) اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے وفاقی سیکریٹری کے اختیارات کو بحال کیا جائے جسے گزشتہ حکومت نے محض غصے میں چھین لئے تھے۔ (3) ڈیپارٹمنٹل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کی میٹنگوں کے اختیارات کو بحال کیا جائے (یہ بھی اس غصے میں چھین لئے گئے تھے)۔ (4) سندھ ایچ ای سی کے قیام کو غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ عدالتِ عظمیٰ اپریل 2011ء میں یہ قانون منظور کر چکی ہے کہ آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے تحت اعلیٰ تعلیمی کمیشن وفاق کا حصہ ہے اور صوبوں میں اس کی تحلیل قطعاً غیر قانونی ہے۔
دوسرا اہم ادارہ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی ہے اس کا ترقیاتی بجٹ تقریباً 100ارب ہونا چاہئے جبکہ اس مقصد کے لئے صرف 3 ارب کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس کو نظر انداز کر کے ہمارا ملک تنزلی کی کن گہرائیوں میں ڈوبتا جارہا ہے۔اس سائنس اور جدت طرازی کے دور میں علم پر مبنی معیشت کے حصول میں وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی بہت اہم اور مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے۔ہمیں اس وزارت کو خصوصی طور پر مضبوط بنانا ہوگا تاکہ زرعی پیداوار کو بڑھایا جا سکے، صنعتی صلاحیتوں کو بہتر کیا جا سکے، دفاعی آلات کی تیاری میں خود انحصاری حاصل کی جا سکے اور معیاری صنعتی ساز و سامان کو درآمد کیا جاسکے جس سے اگلی دہائی تک ہماری صلاحیتوں میں سو گنا اضافہ ہو گا۔
ایک300 صفحاتی مسودہ بعنوان، ’پاکستان کی معاشرتی و اقتصادی ترقی کے لئے تکنیکی بنیادوں پر صنعتی نظریہ اور حکمتِ عملی‘جو کہ میری سرپرستی مین تیار کیا گیا اور 2007ء میں کابینہ سے منظور بھی ہوا۔ اس مسودے میں بڑے واضح انداز میں متعین وقت میں مخصوص پروجیکٹوں کی حکمِت عملی بیان کی گئی ہیں جنہیں پاکستان کو لازمی ہر شعبے میں جلد از جلد شروع کرنا چاہئے تاکہ غربت کا خاتمہ کیا جا سکے اور سماجی واقتصادی ترقی حاصل کی جا سکے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ مسودہ حکومتی فائلوں میں محض گردکی نظر ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ اب وقت آگیاہے کہ ہم عمل درآمد کرنے کی طرف توجہ دیں بجائے اس کے کہ طویل المدتی نظریوں کی منصوبہ بندی کریں ۔ہمیں سب معلوم ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے یہ وقت ہے آگے بڑھنے کا! کام اسی وقت ہوتے ہیں جب انہیں کیا جائے ۔نہ کہ ان کے بارے میں صرف باتیں کی جائیں۔ ہمیں وقت کے تعیّن کے ساتھ پروگرام بنانا چاہئے اور نئے سال کی شروعات ہی سے اس پر تیزی سے عملدرآمد شروع کر دینا چاہئے۔ یہ ضروری ہے کہ واحد ایک نکتہ ہمارے سامنے ہو کہ ’علم پر مبنی معیشت میں منتقلی‘۔صرف منصوبوں سے اور محض باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔