کالی کالی گھٹائیں بارش کا باعث بنتی ہیں اور زمین پر ساون کے پہلے قطرے کے پڑتےہی کئی غیرمرئی (جو دِکھائی نہ دے) عمل کے سلسلوںکا آغاز ہو جاتا ہے۔ سائنسی شعور اور متجسّس ذہن میں ان پوشیدہ مرحلوں سے پردہ اُٹھانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور کافی حد تک دُرست بھی ثابت کر دیا کہ ایک ادنیٰ سے بارش کے قطرہ میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ جب پہلا قطرہ زمین کی سطح پر پڑتا ہے تو زمین پر موجود ترابی اجزاء (مٹی) کے پرخچے اُڑ جاتے ہیں۔ ہر طرف ریت، مٹی اور سنگ ریزوں کے چھینٹے ہی چھینٹے نظر آتے ہیں۔
چناں چہ بارش کے اَن گنت قطرے متحد ہو کر طاقت کا وہ مظاہرہ کرتے ہیں کہ ٹھوس زمین پر موجود ترابی اجزاء کٹتی اور بہتی چلی جاتی ہیں۔ کہیں پر نشیب اور کہیں پر فراز پیدا کرتے ہوئے اپنے متواتر عمل سے خطّۂ زمین پر مختلف حیران کن خدّوخال نقش کر دیتے ہیں۔ یہ بارش کے قطروں سے کٹائو یا تسرف کا پہلا قدم ہوتا ہے جو مجموعی طور پر پورے کائناتی نظام کو کنٹرول کرتا ہے ،کیوںکہ اس عمل کٹائو کے ذریعہ ان دھاتی اور معدنی اجزاء کا امتزاج بھی عمل میں آتا ہے جسے فیلڈ سروے کے دوران براہ راست رسائی ناممکن ہوتی ہے۔
بارش کے قطروں کے ساتھ ترابی اجزاء کو حتمی مقدار کی موجودگی کا انحصار بارش کی شدّت، تراب کی کمزور گرفت اور کوئی بھی نباتاتی حفاظتی تہہ کی موجودگی پر ہوتا ہے جب کہ تحقیق و ترویج سے یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ پانی ایک انچ ایک ایکڑ وزن (جو تقریباً 110 ٹن سے زیادہ ہوتا ہے) پر محیط ہوتا ہے۔
اس حوالے سے گرتےہوئے اَن گنت بارش کے قطرے زمین کی سطح پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگاتے ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو انچ بارش جو ایک ایکڑ پر ایک گھنٹے میں گرتے ہیں تو اتنی توانائی پیدا ہوتی ہے جو سات انچ کے ایک مثالی ترابی اجزاء کو 258 فٹ اُوپر اُٹھاتی ہے۔
بلاشبہ یہ توانائی تراب کو اُوپر اُٹھانے سے زیادہ ترابی اجزاء کی صفائی کرنے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ بارش کے قطروں کے ساتھ موجود ترابی اجزاء جب پانی کے قطروں سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں تو زمینی کٹائو کا دُوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جسے پانی کے قطروں کے ساتھ اجزاء کی منتقلی یعنی نقل و حمل کہلاتا ہے۔
تراب کی یہ حرکت بارش کے قطروں کے چھینٹے اُڑانے کے عمل (Splashing Action) سے بھی وابستہ ہوتی ہے لیکن یہ معمولی نوعیت کی ہوتی ہے۔ سب سے اہم قطروں کا یکجا ہو کر بہتے ہوئے پانی سے منسلک ہونا قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ترابی اجزاء کی منتقلی ایک مقام سے دُوسرے مقام تک سرانجام پاتی ہے۔ بے نقاب (Exposed) چٹانی اجزاء پر بارش کے قطروں کی قوت سطح کے حفاظتی اجزاء کو بند (Seal off) کر دیتی ہے۔ بارش کے قطروں کا ایسا کرنے سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ترابی سنگ ریزے سطح زمین کے اطراف منتقل ہو کر پھیل جاتے ہیں۔
باریک ترابی اجزاء بڑے اور موٹے اجزاء کے درمیان پیوست ہو کر ضم ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں مسام اور گزرگاہ میں ڈاٹ لگ جاتی ہے ،جس سے پانی تراب میں داخل ہو سکتا تھا۔ اس طرح تراب پر بارش کے اَن گنت قطروں کی توانائی سے ٹھونکنے (Rammed) کا عمل ہوتا ہے ،جس سے اجزاء کے درمیان موجود گزرگاہ تقریباً بند ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل ترابی سطح پر ’’واٹر پروف‘‘ کا کام سرانجام دیتا ہے اور تقریباً 98 فی صد بارش کے قطرے متحد ہو کر بہتے ہوئے پانی یعنی آب رواں اور پھر دریا کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
آبِ رواں اَتھلے پانی کی تہہ کی صورت میں سطح زمین پر چینل کے ساتھ کم و بیش یکسانیت کے ساتھ رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ یہ ’’شیٹ واش‘‘ کہلاتے ہیں۔ اس کا اثر بتدریج تیز اور سُست ہوتا ہے۔ ’’شیٹ واش‘‘ ہلکے ترابی اجزاء اور حل پذیر اجزاء کو علیحدہ کرنے میں کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ جب آبِ رواں کسی غیرہموار سطح میں داخل ہوتا ہے تو کافی حد تک مرتکز ہو جاتا ہے اور اس کی ولاسیٹی میں بھی تیزی آ جاتی ہے۔
جیسے ہی معمولی نشیب بڑے نشیب کی تشکیل کے لئے آپس میں ملاتے ہیں تو آبِ رواں مسلسل زیادہ مرکوز ہونے لگتا ہے۔ اسی وجہ سے زمینی کٹائو کی قوت چھوٹے علاقوں کے مقابلے میں براہ راست ہو جاتی ہے لیکن سب سے اہم نتائج یہ حاصل ہوتے ہیں کہ ہموار چینل پر اس کے بہنے کے رُجحان میں بنیادی تبدیلی آ جاتی ہے۔ جب آبِ رواں ہموار سطح سے گزرتا ہے تو یہ اپنے سفر کے لئے سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے جو اس کے حرکت کے متوازی ہوتا ہے۔
یہ آبِ رواں کا طبقی بہائو (Lamminer Flow) بعض اوقات کچھ مقام کے دُوسری طرف بہائو کی رفتار تیز ہو جاتی ہے یا چینل ناہموار ہو جاتا ہے تو پانی جو چینل کے غیرہموار حصوں کی طرف حرکت کرتا ہے تو اس کی رفتار سُست ہو جاتی ہے اور ’’طبقی بہاو‘‘ کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ یہاں پر آبِ رواں چکر کھانے لگتا ہے یہ آبِ رواں کی ایک اور طرح کی حرکت ہوتی ہے جسے متلاطم بہائو (Turbulent Flow) کہتے ہیں۔
آبِ رواں کا متلاطم بہائو اس کے کٹائو کرنے کی صلاحیت میں خاطرخواہ اضافہ کر دیتا ہے۔ پانی کے حرکت کے غیرمساوی قوتیں متاثرہ اجزاء کو اُوپر اُٹھاتی ہیں اور انہیں دوبارہ گرنے سے (تہہ نشین) روکتے ہیں۔ معلق اجزاء بہائو کے ساتھ ہی حرکت کرتے چلے جاتے ہیں۔ تلاطم بہائو آسانی کے ساتھ بھاری اجزاء کو بھی مختلف صورتوں میں بہا کر لے جاتے ہیں۔ بہائو چکر (Swirling Motion) بھاری اجزاء کو مختصراً اُوپر اُٹھاتے ہیں اور دوبارہ پانی کے بہائو کے ساتھ شامل کر دیتے ہیں۔ اس طرح اجزاء مسلسل قلابازیاں کھاتے ہوئے آبِ رواں کے ساتھ رواں دواں رہتے ہیں۔
پانی کا یہ عمل ’’شالٹیشن‘‘ (Saltation) کہلاتا ہے۔ بھاری چٹانی ٹکڑے گھستے ہوئے پانی کے چینل کے ساتھ ساتھ یا پھر قلابازیاں کھاتے ہوئے آگے بہتے جاتے ہیں۔ ان میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ یہ جس بھی چٹان سے ٹکڑاتے ہیں۔ اس کے کھرچ اور رگڑ کر چھیلن (Crips) یا باریک نرم ذرّوں میں تبدیل کر دیتے ہیں یہ توڑ پھوڑ زمینی کٹائو کے عمل کا بڑا اہم حصہ ہوتا ہے، کیوںکہ اس سے زمین پر نہ صرف اہم خدّوخال تخلیق پاتے ہیں بلکہ بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں پر وہ ترابی اجزاء جن میں سنگ ریزوں کے علاوہ قیمتی دھاتی اورمعدنی اجزاء بھی شامل ہوتے ہیں جن کا حصول ان سنگلاخ پہاڑی سلسلوں سے ناممکن ہوتا ہے لیکن بارش کے ایک قطرہ نے اسے فلک بوس پہاڑی بُلندی سے وادیٔ پستی تک ایک برساتی نالہ کے ذریعہ پہنچا دیا اور یہ حقیقت بھی ہے کہ موسلادھار بارش کے شروع ہونے کے فوراً بعد ایک چھوٹی سی نالی نظر آتی ہے۔
جیسے جیسے کٹاؤ کا عمل ہوتاہے زمین مٹی، ریت اور سنگ ریزوں سے الگ ہوتے چلے جاتے ہیں اور نالیاں بھی بڑی ہوتی چلی جاتی ہیں،پھر بہت ساری نالیاں آپس میں یکجا ہو کر آبِ رواں کے لئے ایک کشادہ گزرگاہ مہیا کرتے ہیں جو سیدھا بہنے کے بجائے پیچ و خم کھاتے ہوئے آگے کی جانب اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جہاں یہ ترکیبی کی بنیادپر نرم چٹان ہوتی ہیں پانی اس کو کاٹ کر راستہ بناتا ہے سخت چٹانیں اپنی جگہ پر برقرار رہتی ہیں۔ لہٰذا جب پانی کے راستے میں سخت چٹان آتی ہے تو وہ اپنا رُخ موڑ کر نرم چٹان کی طرف کر لیتا ہے۔
اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور پانی کا چینل پیچ و خم شکل اختیار کر لیتا ہے۔ آبِ رواں کے ساتھ بلندی اور راستے سے شامل ہونے والے بھاری اور ہلکے کثافت کے دھاتی اور معدنی اجزاء کی شمولیت ہوتی ہے۔ہلکی کثافت والی معدنی اجزاء تو آبِ رواں کے ساتھ بہت دُور تک سفر کرتے ہیں لیکن بھاری کثافت والے معدنی اجزاء چینل کی سطح یا کناروں پر چپک کر رُک جاتے ہیں۔
بعض اوقات پیچ خم والے چینل کا کچھ حصہ کٹ کر اپنے اصل گزرگاہ سے الگ ہو کر ’’کمانی دار جھیل‘‘ میں تبدیل ہو جاتا ہے جو بھاری کثافت والے معدنی اوردھاتی ذرّات کا مخزن ثابت ہوتا ہے، جس میں نمایاں نام ہیرا، سونا اور پلاٹینیم کا آتا ہے۔ بہت سارے ممالک جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کر کے اس کے حصول کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں، جس سےریاست کی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
فضائی آلودگی ذخیرہ کرنے والی زیر زمین کھمبی
اس جدید دور میں ماہرین مختلف چیزوں میں تحقیق کرکے نئے انکشافات کررہے ہیں۔ اس ضمن میں برطانوی محققین نے کھمبی (فنگس )کی ایک قسم کا مطالعہ کیا ہے جو دنیا کی سالانہ فضائی آلودگی کا تقریباً 36 فی صد حصہ زیر زمین ذخیرہ کرتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس فنگس کے مٹی، پودوں اور ہوا کے درمیان تعلق ممکنہ طور پر دنیا کی فضائی آلودگی کا نظرانداز حل ہو سکتا ہے۔
محققین کے مطابق مائیکورہیزل فنگئی ہر برِاعظم کے زیرِ زمین زندہ ہوتے ہیں اور پودوں کے ساتھ باہمی تعلق رکھتے ہیں، پودے فضائی آلودگی کو چینی میں بدلتے ہیں اور یہ چینی پودوں کی جڑوں سے لگی فنگئی کی غذا بن جاتی ہے، جس کے نتیجے میں یہ پودوں کو بقا کے لیے اجزاء فراہم کرتے ہیں۔
محققین یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ زیرِ زمین موجود یہ نیٹورک کتنا بڑا اور پرانا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست مشی گن کا یہ فنگئی نیٹ ورک 91 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور یہ فضائی آلودگی سے سالانہ 13 گِیگا ٹن کاربن جمع کرتا ہے۔انگلینڈ میںقائم شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کیٹ فیلڈ کا کہنا ہےکہ مائیکورہیزل فنگئی کاربن ماڈلنگ، تحفظ اور بحالی کا ایک پوشیدہ حل پیش کرتا ہے اور جب موسمیاتی بحران کے حل کے متعلق سوچا جاتا ہے تو ان کے متعلق سوچنا چاہیے جو پہلے سے موجود ہے۔