• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ڈیٹا چائلڈ فیوچرز‘ کی جانب سے 2019 کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ مطالعہ میں شامل 46فی صد اطالوی گھرانوں میں AI سے چلنے والے اسپیکر تھے، جب کہ 40فی صد کھلونے انٹرنیٹ سے منسلک تھے۔ مزید حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ2023کے اختتام تک275 ملین سے زائد انٹیلیجنٹ وائس اسسٹنٹ ، جیسے Amazon Echo یا Google Homeدنیا بھر کے گھروں میں نصب کیے جائیں گے۔

جیسے جیسے نوجوان نسل AI سے چلنے والے آلات کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے پروان چڑھ رہی ہے، اس ٹیکنالوجی کے بچوں، ان کے حقوق اور صحت پر اثرات پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔

AI کی صلاحیت

AI سے چلنے والے لرننگ ٹولز اور اپروچز کو اکثر تعلیم کے شعبے میں جدت طرازی کا اہم محرک سمجھا جاتا ہے۔ سیکھنے اور تدریس کے معیار کو بہتر بنانے کی اس کی صلاحیت کے لیے اکثر پہچانی جاتی ہے، مصنوعی ذہانت کا استعمال طلباء کے علم کی سطح اور سیکھنے کی عادات کی نگرانی کے لیے کیا جا رہا ہے، جیسے کہ دوبارہ پڑھنا اور ترجیحات کا تعین کرنا، اور اس کے نتیجے میں بالآخر ہر طالب علم کے لیے ایک ذاتی نقطہ نظر فراہم کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔

Knewtonمصنوعی ذہانت سے چلنے والے لرننگ سوفٹ ویئر کی ایک مثال ہے جو علم کے خلا کی نشاندہی کرتا ہے اور صارف کی ضروریات کے مطابق تعلیمی مواد کو درست کرتا ہے۔ مائیکروسافٹ کے پریزنٹیشن ٹرانسلیٹر کے پیچھے بھی الگورتھم ہے، جو 60مختلف زبانوں میں ریئل ٹائم ترجمہ فراہم کرتا ہے۔ 

یہ سافٹ ویئر سیکھنے تک رسائی بڑھانے میں مدد کرتا ہے، خاص طور پر ان طلبا کے لیے جو سماعت سے محروم ہیں۔ AI، فی الحال اگرچہ ہمیشہ کامیاب نتائج نہیں دیتالیکن طلبا کی صلاحیتوں کو جانچنے اور فیڈبیک سرگرمیوں کو خودکار کرنے کے لیے بھی تیزی سے استعمال ہورہا ہے۔ تعلیمی نظام میں استعمال کی اتنی وسیع صلاحیت کے ساتھ، گلوبل مارکیٹ انسائٹس کی پیش گوئیاں بتاتی ہیں کہ 2027 تک تعلیم میں AI کی مارکیٹ ویلیو 20ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

تعلیم کے علاوہ، AI بچوں کی صحت کو بھی آگے بڑھا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں، آٹزم کا ابتدائی پتہ لگانے میں AI کے کردار کے بارے میں تحقیق میں پیش رفت، بچوں کی تقریر سے ڈپریشن کی علامات اور نادر جینیاتی عوارض سرخیوں میں رہے ہیں۔ AIکو بچوں کی آن لائن حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

بچوں کی فلاح و بہبود میں حائل چیلنجز

AI کی مثبت ایپلی کیشنز کے باوجود، بعض خطوں میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے اب بھی کافی ہچکچاہٹ ہے۔ایک سروے کے مطابق 43فی صد امریکی اور 33فی صد برطانوی والدین اپنے بچوں کو ہسپتال میں داخل ہونے کے دوران AI سے چلنے والی نرس کی دیکھ بھال میں چھوڑنے میں اطمینان محسوس کریں گے۔ 

اس کے برعکس، چین، بھارت اور برازیل میں والدین مصنوعی ذہانت کو زیادہ قبول کرتے ہیں جہاں بالترتیب 88فی صد، 83فی صد اور 63فی صد والدین ہسپتال میں اپنے بچے کی دیکھ بھال کرنے والی ورچوئل نرس کے ساتھ اطمینان محسوس کریں گے۔ پیڈیاٹرک سرجری میں AI سے چلنے والے روبوٹس کے استعمال کے لیے بھی اسی طرح کے نتائج پائے گئے۔

بچوں کی پرائیویسی اور سیفٹی پر بات چیت میں AI کے وسیع پیمانے پر استعمال پر بھی شکوک و شبہات موجود ہیں۔ بچوں کی معلومات بشمول حساس اور بایومیٹرک ڈیٹا کو ذہین آلات بشمول ورچوئل اسسٹنٹ اور اسمارٹ کھلونے کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے اور اس پر کارروائی کی جاتی ہے۔

اس طرح کے ڈیٹا کا غلط ہاتھوں میں جانا بچوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، سیکورٹی کے خدشات کے پیشِ نظر 2017میں CloudPets کے ٹیڈی بیئرز کو شیلف سے ڈیٹا کی خلاف ورزی کے بعد واپس لے لیا گیا جس نے 20 لاکھ سے زیادہ بچوں کے صوتی پیغامات کی تصاویر اور ریکارڈنگ سمیت نجی معلومات کو افشاں کیا۔

بچوں کے ڈیٹا کے استعمال پر بھی سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا ہے، جیسے کہ AI سسٹمز میں کمسن بچوں کے ریکارڈ کو مستقبل میں مجرمانہ اور بدعنوانی کی رویوں کی پیش گوئی کرنے کے لیے استعمال کرنا۔ رازداری کے لیے خطرہ بننے کے علاوہ، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور کارکنوں نے ممکنہ امتیازی سلوک، تعصب اور غیر منصفانہ سلوک کے خلاف خبردار کیا ہے۔

AIمیں بچوں کی مرکزیت

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ AIمیں بچوں کو مرکزیت حاصل ہو، فیصلہ سازوں اور تکنیکی اختراع کرنے والوں کو AI سسٹمز کو ڈیزائن اور تیار کرتے وقت بچوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس سلسلے میں یونیسیف اور او ایچ سی ایچ آر نے خاص طور پر آواز اٹھائی ہے۔

اپنے’بچوں کے لیے AI‘ پروجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر، یونیسیف نے ورلڈ اکنامک فورم کے ساتھ مل کر کام کیا ہے تاکہ بچوں کے لیے مصنوعی ذہانت سے متعلق پالیسی رہنمااصول تیار کیے ہیں، جس میں AI پالیسیوں اور نظاموں کی تعمیر کے لیے سفارشات کا ایک مجموعہ جیسا کہ رازداری اور ڈیٹا کے تحفظ کے بچوں کے حقوق کو برقرار رکھنا شامل ہے۔

اندازہ ہے کہ 2065تک، آج پرائمری اسکول میں داخل 65فی صد بچے ایسے عہدوں پر کام کریں گے جو ابھی تک وجود میں ہی نہیں آئے۔ ایک عملی نقطہ نظر سے، AI کو اسکول کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو کوڈنگ کی مہارتوں سے آراستہ کیا جا سکے اور انہیں مناسب AI تربیت فراہم کی جا سکے۔ ایک ہی وقت میں، بچوں کو ٹیکنالوجی کے بارے میں تنقیدی سوچنا اور متعلقہ خطرات اور مواقع کے بارے میں اپنے فیصلوں سے آگاہ کرنا سکھایا جانا چاہیے۔

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مزید عالمی اقدامات کی ضرورت ہوگی کہ قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں، AI ٹیکنالوجیز کے ڈیزائن اور ترقی میں بچوں کے بہترین مفادات کی عکاسی اور ان پر عمل درآمد کیا جائے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت بچوں کے اپنے اردگرد کے ماحول بشمول ان کے سیکھنے، کھیل اور نشوونما کے ماحول کے ساتھ تعامل کے طریقے کو بدل دے گی۔ تاہم، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ تبدیلی اچھائی کی طاقت بن جائے۔