• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ کے ہسپتال میں ایک معصوم فلسطینی بیٹی جس کے سر پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شدید زخم آئے ہیں ،اس کے جسم پر خون آلود پٹیاں بندھی ہیں۔ وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اس کا کم عمر بھائی جس کے سرکے بالوں سے رستا خون خشک ہو چکا ہے اسٹریچر کے قریب ایک بازو کا سہارا لئے کھڑا اپنی بہن کو آواز دیتا ہے ہمت کرو۔ پڑھو! ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہ.... کیا تم میری آواز سن رہی ہو؟ بھائی پکارتا ہے۔ بہن اپنی آنکھیں ہلکی جنبش سے کھولتی ہے، بھائی کی طرف دیکھتی ہے پھر دوہراتی ہے"اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ ....اور خاموش ہو جاتی ہے۔ بھائی پھر پکارتا ہے کیا تم مجھے سن رہی ہو۔ پڑھوا’’اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ .... بہن ہمت سے کلمہ شہادت پڑھتی ہے اور یہ دہراتے ہوئے اپنے اللہ کے حضور پیش ہونے کی تیاری کرتی ہے۔ بھائی پھردوہراتا ہے اور بہن یہ کہتے ہوئے کہ ”میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں یہ گواہی دیتی ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔“ دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔ پس منظر میں ہسپتال میں موجود شدید زخمیوں کے پیاروں کی انہیں کلمہ شہادت پڑھانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ ایک فلسطینی بیٹی یا بیٹے کی کہانی نہیں سر زمین فلسطین پر جنم لینے والے ہر نومولود بچے سے لے کر بوڑھے تک کے دل میں جذبہ شہادت پوری طاقت سے ظالم دنیا کے سامنے پہاڑ بنا کھڑا ہے۔ ہسپتالوں میں زخمی ہو کرآنے والے فلسطینی بچے نہ چیختے ہیں،نہ روتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھی نظر نہیں آتے۔ یہ مناظر ہسپتالوں میں ہر طرف دیکھے جارہے ہیں۔ آٹھ نو ماہ کی ایک ننھی پری کے بازو پر زخم ہے۔ ننھی پری دائیں بائیں خاموش نظروں سے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کو تلاش کرتی نظر آتی ہے۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ وہ اب اس ظالم دنیا میں اکیلی رہ گئی ہے۔ لیکن وہ کسی سے کوئی شکوہ کرسکتی ہے نہ ہی اپنے دل پر لگے زخم دکھا سکتی ہے۔ وہ صرف آسمان کی طرف دیکھتی ہے کہ وہی اس کا واحد آسرا ہے۔ موجودہ انسانی تاریخ شاید پہلی بار یہ تکلیف دہ مناظر دیکھ رہی ہے کہ فلسطینی بچے اور نوجوان ہاتھ کی ہتھیلیوں پر اپنا نام اور ولدیت محض اس لئے لکھ رہے ہیں کہ اگر وہ اسرائیلی فوج کی جارحیت اوربربریت کا نشانہ بنتے ہوئے شہید ہو جائیں تو ان کے والدین ، لواحقین کو ان کے جسد خاکی کی شناخت میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے اور وہ اپنی قبروں کے کتبوں سے شہید کے طور پر پہچانے جائیں اور بے رحم، ظالم دنیا سے یہ سوال پوچھ سکیں کہ ان کی شہادت کا ذمہ دار کون تھا؟ ایسی بربریت کبھی دیکھنے کو نہیں ملی کہ ہسپتال پر بمباری کرکے آٹھ سو سے زائد زخمی خواتین، بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کو شہید کر دیا گیا اور اگلے ہی لمحے ایک پناہ گزین کیمپ کو بمباری کرکے چار سو سے زائد مظلوموں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور اسرائیل کے سرپرست اعلیٰ امریکی صدرجوبائیڈن انتظامیہ یہ کہے کہ ہسپتال پر حملہ اسرائیل نہیں بلکہ حماس کی غلط راکٹ باری کا نتیجہ ہے۔ پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یکے بعد دیگرے دو قرار دادوں کو ویٹو کر دیا جائے تواصل کھیل واضح نظر آرہا ہے کہ اس سازش کے پیچھے مقاصد کیا ہیں؟ اسرائیل حماس جنگ اس لحاظ سے بھی انوکھی اور نہایت پُر اسرار ہے کہ دنیا کو ابھی تک اس بات کا سراغ ہی نہیں مل رہا کہ آخر عرب اسرائیل بڑھتے سفارتی تعلقات، سعودی عرب، ایران کے درمیان عرصہ بعد دوستی اور سفارتی تعلقات کی تیز رفتاری سے بحالی ، چین سعودی عرب کے مابین مستقبل کے مضبوط تجارتی معاہدوں کے پس منظر میں سی پیک، ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں پاکستان، ایران، سعودیہ، روس ، چین کی شراکت داری اور جنگ سے صرف چند دن قبل ایران میں چھ امریکیوں کی عرصہ بعد رہائی میں قطر کی سہولت کاری کے نتیجے میں امریکی بینکوں میں ایران کے منجمد چھ ارب ڈالر کی ادائیگی کے بعد اچانک ایسا کیا ہوا کہ ہمیں غزہ میں ہر طرف فلسطینیوں کے لاشے بکھرے پڑے نظرآتے ہیں۔ 7اکتوبر کی صبح ’’اسرائیل سے تعلقات؟‘‘ کے عنوان سے جو کالم شائع ہوا اسی رات عالمی میڈیا پر بریکنگ نیوز چلنا شروع ہوئی کہ حماس کے موٹر سائیکل سوار اور پیرا شوٹر جنگجوؤں نے غزہ پٹی کے ساتھ اسرائیلی شہروں پر حملہ کرکے یہودی و غیر ملکی شہریوں بشمول اسرائیلی فوجیوں کو چن چن کر مار ڈالا ہے اور اسرائیلی فوجی کمانڈر سمیت بڑی تعداد میں فوجی و پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا کر اپنے ہمراہ لے گئے ہیں اور کچھ اسرائیلی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کی اطلاعات بھی دی گئیں تو کچھ دوستوں نے سوال کیا کہ آخر اس کالم کا پس منظر کیا تھا جس کے نتیجے میں چند گھنٹوں بعد ہی یہ جنگ چھڑ گئی؟ دراصل یہ عرب دنیا میں رونما ہونے والی تیز رفتار لیکن حیران کن تبدیلیوں،اسرائیلی فوج کے فلسطینیوں پر تسلسل کے ساتھ بڑھتے مظالم اور شہادتوں کے پس منظر میں ممکنہ امکانات کا بروقت تجزیہ تھا۔ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے دنیا کا امن مسئلہ کشمیر اور فلسطین سے جڑا ہے۔ جب آپ فریقین سے بالا بالا ہی مخصوص مفادات کیلئے سامراجی طاقتوں کے آلہ کار بن کر دباؤ یا خوف سے فیصلے کرنے پر مجبور ہوں گے اور اصل فریقین یعنی کشمیریوں اور فلسطینیوں کو آزاد فلسطینی ریاست اور خود ارادیت کا حق نہیں دینگے اور اپنی آنکھوں کے سامنے ان کی نسل کشی ہوتے دیکھیں گے تو نتائج یہی نکلیں گے۔ اسرائیل حماس جنگ کی پراسراریت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جنگ ایک ایسا آتش فشاں بن جائیگی جسے ٹھنڈا کرنا کسی فریق کے بس کی بات نہیں رہیگی۔ اس آتش فشاں کی تپش یورپ سے مقبوضہ کشمیر تک محسوس کی جائیگی۔ اسی لئے احتیاطی تدابیر کی جارہی ہیں، بس جاگتے رہئے۔

تازہ ترین