سپریم کورٹ آف پاکستان نے بالآخر 8فروری 2024 ء کو عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کا حکم دیدیا ہے ۔ اس حکم کے بعد ملک میں 90 روز میں انتخابات سے متعلق کیس کو سپریم کورٹ نے نمٹا دیا ہے کیونکہ صدر مملکت کی جانب سے 8فروری 2024 ء کو عام انتخابات سے متعلق دستاویز پر دستخط کر دیئے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ صدر اور الیکشن کمیشن کی اعلان کر دہ تاریخ پر بلاتعطل انتخابات کا انعقاد ہو ۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد ملک میں نہ صرف آئینی بحران کا خاتمہ کر دیا گیا ہے بلکہ ملک میں سیاسی بے یقینی کو ختم کرنے کی فضابھی پیدا ہو گئی ہے۔
انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے قبل ملک میں شدید سیاسی بے یقینی کی صورت حال تھی اور یہ خدشہ تھا کہ کہیں جمہوریت کے تسلسل میں تعطل پیدا نہ ہو جائے ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر میڈیا نے انتخابات سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کئے تو وہ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے ۔ میرے خیال میں اب کسی کو شک و شبہ نہیں رہنا چاہئے کہ انتخابات نہیں ہوں گے ۔ اگرچہ آئین کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات کا انعقاد نہیں ہوا لیکن کچھ تاخیر سے انتخابات ہورہے ہیں اور یہ پاکستان میں ایک تاریخی سنگ میل ہے کیونکہ اس سے قبل تین بار اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کر چکی ہیں اور اب چوتھی بار اسمبلیوں کے لیے انتخابی شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے۔
1947 ء کے بعد یہ پہلا جمہوری وقفہ ہے ، جو 2008 ء سے اب تک جاری ہے اور اس دوران کوئی غیر جمہوری یا فوجی آمرانہ حکومت نہیں بنی ہے۔ پہلا جمہوری وقفہ 1972سے 1977ء تک تھا، جو صرف 5سال پر محیط تھا ۔ اسکے بعد 1977ء سے 1988ء تک سال تک ضیاء الحق کی فوجی آمریت رہی ۔ اسکے بعد 1988ء سے 1999 ء تک 11 سال کا جمہوری وقفہ ملا ، جس میں اگرچہ 4 مرتبہ عام انتخابات منعقد ہوئے لیکن چاروں مرتبہ جمہوری حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکیں ۔ پھر اکتوبر 1999 ء سے فروری 2008ء تک تقریبا ساڑھے 10سال جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت رہی ۔ اس دوران اگرچہ 2002 ء میں عام انتخابات منعقد ہوئے لیکن ان انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت بنی ، وہ جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت کی جمہوری ملمع سازی کے سوا کچھ نہیں تھی اور ان 5سالوں کو جمہوری وقفہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد فروری 2008ء میں عام انتخابات کے انعقاد سے جو جمہوری وقفہ ملا ، وہ اب تک کا طویل ترین وقفہ ہے۔
2013ء اور پھر 2018ء میں انتخابات ہوئے ۔ ان تینوں انتخابات میں عوام کی بنائی گئی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ۔ اب امید کی جاتی ہے کہ فروری 2024ء میں جو انتخابات ہوں گے ، ان کے نتیجے میں بننے والی اسمبلیاں اور حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی ۔ یہ جمہوریت کے استحکام کی جانب ایک خوش آئند پیش رفت ہے ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب مفاہمت میں ایک جگہ لکھا ہے کہ عوام کی بے پناہ قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں جمہوریت تو بحال ہو جاتی ہے لیکن جمہوری عمل اور انتخابات میں مداخلت کے بغیر جمہوریت کے حصول کے لیے ابھی طویل جدوجہد کرنا ہو گی ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی یہ بات آج بھی درست ہے ۔ کیونکہ آج جب بھی عام انتخابات کے نتائج کے حوالے سے اندازے لگائے جاتے ہیں یا تجزیئے کئے جاتے ہیں ، ان میں اس بات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا کہ عوام کی منشا کیا ہے اور عوام کی منشاکے بعد کیا مینڈیٹ سامنے آ سکتا ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کیا ہے اور اس نے آگے کا کیا سیاسی پلان بنا رکھا ہے ۔
میں یہاں کسی کا نام نہیں لیتا لیکن بعض جماعتیں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے ہو چکے ہیں اور آئندہ حکومت ان کی ہو گی ۔ یہ تاثر نہ صرف انتخابات جیتنے کی اہلیت رکھنے والے امیدواروں کو متاثر کرتا ہے بلکہ رائے عامہ کو بھی متاثر کرتا ہے ۔ جب تک کسی مداخلت کے بغیر شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد نہیں ہو گا ، تب تک جمہوری وقفہ طویل ہونے کے باوجود سیاسی استحکام کو بھی خطرہ لاحق رہے گا ، سیاسی بے چینی بھی برقرار رہے گی اور سب سے بڑھ کر جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا خطرہ بھی رہے گا ۔ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے لیے مقتدر حلقوں کی طرف دیکھنے یا ان سے معاملات طے کرنے کی بجائے عوام پر انحصار کرنا ہو گا ۔ پاکستان ابھی تک حقیقی جمہوریت کے قیام سے کوسوں دور ہے ۔ اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہو گا ۔ اس کے لیے سب سے اہم اقدام تو یہ ہو گا کہ سیاسی جماعتیں سیاسی رویہ اختیار کریں ۔ انہیں ہر حال میں اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ سے نکل کر واپس عوام سے رجوع کرنا ہو گا ۔ سیاسی جماعتوں کو اختلاف برائے اختلاف ، گالم گلوچ اور انتقام کی سیاست سے الگ ہونا پڑے گا ۔ انہیں جمہوری ، سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے کسی ایجنڈے یا میثاق پر متفق ہونا پڑے گا ۔ انہیں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ جمہوری وقفہ طویل ہوا ہے اور چوتھی بار عام انتخابات بھی ہو رہے ہیں لیکن سیاسی اور جمہوری قوتیں پہلے سے زیادہ کمزور ہیں ۔
دنیا کی بہت ساری جمہوریتوں میں ، جہاں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت نہیں ہوتی ہے ، جمہوری استحکام کا تصور یہ نہیں ہے کہ کوئی ایک پارٹی قطعی اکثریت لے کر آئے اور اس کی ایک مضبوط حکومت بنے ۔ ان جمہوریتوں میں منقسم مینڈیٹ بھی آتے ہیں اور مخلوط حکومتیں بھی بنتی ہیں ۔ مخلوط یا کمزور حکومتیں کچھ عرصے کے بعد گر بھی جاتی ہیں لیکن سیاسی اور جمہوری عمل جاری رہتا ہے ۔ اس دوران یہ خطرہ نہیں ہوتا ہے کہ کوئی فوجی یا غیر جمہوری طاقتوں کی مداخلت ہو گی ۔ اگر وہاں مخلوط حکومتیں بنتی یا ٹوٹتی ہیں تو اس کی سیاسی وجوہ ہوتی ہیں ۔ ان مخلوط حکومتوں میں شامل جماعتیں یا آزاد ارکان پالیسیوں پر یا اصولی موقف کی بنیاد پر مخلوط حکومتوں میں شامل یا ان سے الگ ہو رہے ہوتے ہیں ۔ انہیں کوئی ڈکٹیٹ نہیں کرا رہا ہوتا ہے ۔ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے ہمارے سیاست دانوں کو اسی طرح اپنی آزادانہ حیثیت میں اور کسی دبائو کے بغیر فیصلے کرنا ہوں گے ۔ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونا خوش آئند ہے لیکن حقیقی جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو جو کردار ادا کرنا ہے ، وہ انہوں نے ادا نہیں کیا تو اس طویل جمہوری وقفے میں کبھی بھی خلل پڑ سکتا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)