تسی اُچے تہاڈی ذات وی اُچی، تُسی اُچ شہر دے رہن والے
اَسی قصوری، ساڈی ذات قصوری، اَسی قصور شہر دے رہن والے
بلھّے شاہ کے اس مشہور پنجابی شعر کو مستعار لیتے ہوئے آج میری اُچ شہر سے مراد راولپنڈی شریف ہے اور آج کے مخاطب اس شہر کے پیرِباصفا استاذ الاساتذہ، کئی جرنیلوں کے تعلیمی مرشد ، سینیٹر، سابق وزیر باتدبیر اور آج کل نون لیگ کے پالیسی ساز، ترجمان اور منشور کمیٹی کے یک و تنہا چیئرمین جناب عرفان صدیقی ہیں جبکہ آج کے کالم کا قصوری، یہ قصور وار کالم نویس ہے، جو ان دنوں لڑائی کی بجائے مفاہمت اور’’ تُن دیو‘‘ کی بجائے معافی اور صبر کی بات کر رہا ہے۔ جناب عرفان صدیقی کے ملک بھر کے روزناموں میں شائع ہونے والے تازہ خیالات سے لگتا ہے کہ جیسے نون انقلاب فرانس یا انقلاب روس کے بعد برسراقتدار آنے والی ہے اس لئے رد انقلاب کے ولن کھلاڑی ،خان اور اس کے ساتھیوں کو معافی نہیں دے گی۔ ان کے خیال میں کھلاڑی خان کا جرم اس قدر ناقابل معافی ہے کہ فی الحال’’ مٹی پائو‘‘ کی بات کرنا ہی فضول ہے۔
یادش بخیر بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کو بہاولپور جیل میں قید شیخ رشید احمد نے اپنی رہائی کی کوشش کا پیغام بھجوایا۔گورنر چودھری الطاف، صدر فاروق لغاری اور محترمہ بے نظیر بھٹو اس حوالے سے کوئی بات بھی سننے پر آمادہ نہ تھے بقول نوابزادہ صاحب ایک روز انہوں نے صدر لغاری سے پوچھا کہ کیا آپ مسلح بغاوت کرکے اور مخالف فریق کو ہتھیاروں سے شکست دے کر برسراقتدار آئے ہیں یا آپ جمہوری راستے سے منتخب ہو کر آئے ہیں؟اگر تو آپ کا جتھہ جیتا ہے تو آپ کا جیسا جی چاہے شیخ رشید سے ویسا سلوک کریں لیکن اگر آپ جمہوریت کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں تو پھر آئین اور انصاف سے کام لے کر شیخ رشید کو رہا کرنا ہوگا چاہے اس کے قصور جو بھی ہوں۔ یہی دلیل آج بھی ہے کہ کھلاڑی خان نے نونیوں کو جیلوں میں بند رکھا ہے زیادتیاں کی ہیں لیکن کیا اس ردعمل میں وہی کچھ کرنا جائز ہے؟ایسا کرنا جمہوریت نہیں انتقام کا تسلسل ہوگا۔
مانا کہ کھلاڑیوں نے 9مئی کو پہاڑی غلطی کی۔ یہ قصور وارصحافی تو ساتھی صحافیوں کے ساتھ بار بار جا کر کھلاڑی خان کو کہتا رہا کہ سیاستدانوں کے ساتھ مذاکرات کرو مگر اس نے یہ بات نہ مانی۔ 9 مئی کا سانحہ ہوا۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی مگر کیا اس کے بدلے میں ساری پی ٹی آئی کو ماردیا جائے؟ کیا یوتھ اور مڈل کلاس کے جذبات پر مشتمل اس پارٹی کو دفن کردیا جائے؟
9مئی کھلاڑیوں کی بہت بڑی غلطی سہی مگر کیا کسی سیاسی جماعت نے اس سے پہلے کوئی غلطی نہیں کی، جیالوں نے پی آئی اے کا جہاز اغوا کرکے غلطی نہیں کی تھی، نونیوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کرکے غلطی نہیں کی تھی؟ کھلاڑی نے جنرل باجوہ کو میر جعفر کہا تھا تو نون خان نے بھی گوجرانوالہ جلسے میں جنرل باجوہ اور فیض حمید کے نام لئے تھے ، جیالے خان زرداری نے بھی تو اسلام آباد میں جنرل راحیل شریف کو کھلم کھلا انتباہ کیا تھا۔مانا کھلاڑی خان کی غلطی بڑی تھی اس سانحہ کے ذمہ داروں کو سزا ضرور دیں مگر ساری جماعت کو سزا دینا کہاں کا انصاف اور کہاں کی جمہوریت ہوگی؟
جناب استاذ الاساتذہ نے فرمایا ’’مٹی پائو‘‘ والا معاملہ نہیں ہوسکتا، سوال یہ ہے کہ کیا صدیوں سے انسان نے یہ نہیں سیکھا کہ جنگ سے امن بہتر ہے، فاشزم سے جمہوریت بہتر ہے، گالی سے دعا بہتر ہے، مخاصمت سے مفاہمت بہت بہتر ہے، انتقام لینے سے معاف کرنا کہیں بہتر ہے، ردعمل دینے کی بجائے اچھا عمل کرنا سب سے بہترہے۔ جناب والا! مٹی نہیں ڈالنی تو پھر مٹی اڑایئے کچھ مخالف کے سر میں پڑے گی اور کچھ آپ کے سر میں بھی تو آئے گی، لڑو گے تو لازماً مرو گے۔ آج آپ مارو گے کل پھر آپ کی باری ہوگی۔ کیا تاریخ کا یہ سبق بھول گئے ہیں۔
ہتھیار بکف صدیقی صاحب سے یہ گلہ بھی بنتا ہے کہ جب طالبان پاکستان کے معصوم بچوں کے گلے کاٹ رہے تھے، عورتوں کو سرعام کوڑے مار رہے تھے اور پاک فوج کے جوانوں کے سروں کے ساتھ فٹ بال کھیل رہے تھے تو آپ ان خونخواروں کے ساتھ صلح صفائی کی کمیٹی کے سربراہ بن کر ان سے مذاکرات کرنے ان کے دربار پر پہنچ گئے تھے وہ ایک دہشت گرد اور مسلح گروہ تھا جس کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے تھے مگر آپ ان سے مذاکرات کرنے میں فخر کرتے تھے اور آج دوسری طرف پاکستان کی ایک غیر مسلح سیاسی جماعت ہے جس کےساتھ بات کرنے کو آپ گناہ کبیرہ گردان رہے ہیں، یہ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے؟ پاکستان کے آئینی اور جمہوری ملک ہونے کے سبب ہم سب کا فرض ہے کہ سب کے لئے ایک جیسے اصول وضع کریں۔ جب قابل احترام صدیقی صاحب کو غلط طور پر ایک دو روز کے لئے گرفتار کیاگیا تو اہم اہل صحافت نے ہاہا کار مچادی آپ نے خود اپنی گرفتاری کے عمل کو ’’قلم کو ہتھکڑی‘‘ کا نام دیا اور اپنی وہ تصویر بھی عام کی جس میں ہتھکڑی لگے ہاتھوں میں قلم نظر آ رہا ہے، ہم آپ کے ساتھ اب بھی اس گرفتاری کی باقاعدہ سالانہ سالگرہ مناتے ہیں، اخبارات میں خبریں شائع ہوتی ہیں، کالم اور آرٹیکلز شامل اشاعت ہوتے ہیں، یہ واقعی ’’ظلم عظیم‘‘ تھا مگر کیا ارشد شریف کا قتل، عمران ریاض کی گمشدگی اور زبان بندی، چودھری فواد کے سر پر کالی ٹوپی پہنا کر ہتھکڑیوں میں عدالت لانا صحافت کو ہتھکڑی یا سیاست کو ہتھکڑی نہیں۔ یہ قصور وار صحافی آپ کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بھی ناروا سمجھتا تھا اور جو کچھ آج ہو رہا ہے اسے بھی ناروا سمجھتا ہے۔ نواز شریف کے خلاف ججوں نے تعصب اور بغض و عناد کی بنا پر فیصلہ سنایا تو میں نے ان می لارڈز کا نام لے کر ان کے فیصلوں کو مسترد کیا آج بھی اگر بغض و عناد اور نفرت و تعصب کی بنیاد پر فیصلے آئیں گے تو سب کو انہیں مسترد کرنا چاہیے یہ نہیں ہوسکتا کہ نونی جیل میں جائیں تو وہ ہیرو اور اگر انصافی جیل بھیجے جائیں تو وہ زیرو۔ ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہونے چاہئیں، یہ کہنا کہ میرا کتا ٹامی اور تمہارا کتا، کتا۔ یہ نہ انصاف ہوگا نہ جمہوریت۔ اور یاد رکھیں کہ اگر لڑنے سے نہ رکے تو پھر آپ کا مقدر بھی مرنا ہوگا۔ انصافیوں کو تو نہ مار سکو گے کل نونیوں کی باری بھی ضرور آئے گی، یہی قدرت کا اٹل فیصلہ ہے ...!