تحریک انصاف کے ایک وکیل صاحب نے ایک ٹاک شو میں بات کرتے ہوے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کا بیانیہ’ سویلین بالادستی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ‘ ہوگا۔ گویا تحریک انصاف آئندہ الیکشن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑے گی۔
تحریک انصاف کے وکیل صاحب (جو آج کل مختلف ٹی وی چینلز میں تحریک انصاف کا دفاع کرتے نظر آتےہیں) کے اس بیان پر تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات نےاپنا درعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے نہ ایسا کوئی فیصلہ کیا ہے نہ ہی وہ کسی بھی ادارےسے لڑائی لڑنا چاہتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وکیل صاحب جو عمران خان کو جیل میں ملتے رہتے ہیں اُن کی بات پر اعتبار کیا جائے یا اُس بات پر جو پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات(جن کو عمران خان سے جیل میں ملاقات کا موقع نہیں ملا) نے کہی۔
جو کچھ وکیل صاحب نے کہا اگر وہ عمران خان کی خواہش ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ خان صاحب نے اپنے ماضی قریب سے سبق سیکھا، نہ ہی 9 مئی کے حملوں سے۔ جو کچھ وکیل صاحب نے کہا اگر اُس پر تحریک انصاف عمل کرے گی تووہ صاف صاف فوج کے ساتھ ایک نئی لڑائی لڑنے کی بنیاد رکھے گی۔
کیا تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ یا فوج کے ساتھ ایک نئی لڑائی لڑنے کی غلطی کر سکتی ہے؟ پہلے کی لڑائی سے کیا حاصل ہوا کہ انتخابات کیلئے ایک ایسے بیانیہ کی بات کی جا رہی ہے جو تحریک انصاف کو مزید مشکلات میں تو پھنسا سکتا ہے لیکن پارٹی کی موجودہ مشکلات کو کم نہیں کر سکتا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ موجودہ تحریک انصاف میں بھی کچھ ایسے افراد موجودہ ہوں جو اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی لڑنے کے خواہش مند ہوں لیکن تحریک انصاف کو آئندہ انتخابات کیلئے ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو فوج سے لڑائی کی بجائے موجودہ مشکلات سے پی ٹی آئی کو نکالے۔ اس کیلئے عمران خان کو بڑا فیصلہ کرنا پڑے گا۔
ایک نئی لڑائی کی بجائے، تحریک انصاف کے مستقبل کو بچانے کی خاطر وہ خود کو کچھ عرصہ کیلئے پیچھے کر لیں۔ ویسے بھی خود عمران خان کو بھی یہ احساس ہے کہ نہ اُن کی الیکشن تک رہائی ممکن ہے اور نہ ہی اُن کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے گی۔
تحریک انصاف کی موجودہ مشکلات کی بڑی ذمہ داری عمران خان کے اپنے کندھوں پر ہے۔ عمران خان نے خود فوج مخالف بیانیہ بنایا اور اُسے ایک ڈیڑھ سال خوب چلایا۔ فوج، حکومت اور ایجنسیاں 9 مئی کے حملوں کی ذمہ داری بھی خان پر ڈالتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں جہاں عمران خان کو سنگین الزامات اور مقدمات کا سامنا ہے، اُن کیلئے مناسب ہو گا کہ کسی ایسے رہنما کو تحریک انصاف کی صدارت کو سونپیں جو اُن کے ساتھ بھی مخلص ہو اور جس کی ساکھ بھی بہتر ہو۔
عمران خان نے ماضی میں تو ایسا کرنے سے انکار کیا ۔اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی پر اعتبار نہیں کرتے۔ 9مئی کے بعد ایک موقع پر اُنہوں نے تحریک انصاف کے مستقبل کی لیڈرشپ کے حوالے سے مراد سعید کا نام لیا تھا لیکن مراد سعید کو بھی انتہائی سنگین مقدمات اور الزامات کا سامنا ہے، وہ انڈر گراؤنڈ بھی ہیں کیوں کہ اُن کی گرفتاری کیلئے پولیس اور ایجنسیاں بے چین ہیں۔
موجودہ حالات میں تحریک انصاف کو الیکشن میں لیڈ کرنے کیلئے علی محمد خان ایک موزوں رہنما ہیں، جنہوں نے نہ 9 مئی کے حملوں میں حصہ لیا، نہ کبھی اداروں کے خلاف بات کی۔ علی محمد خان اچھی شہرت کے مالک ہیں اور تحریک انصاف کے دوسرے کئی رہنمائوں کے برعکس اپنے سیاسی مخالفین سے بات چیت کے قائل ہیں اور سیاست کو دشمنی میں بدلنے کے خلاف ہیں۔
9 مئی کے بعد علی محمد خان نے بڑی جرات سے کوئی تین چار ماہ کی جیل برداشت کی لیکن جب کئی بار ضمانتوں اور دوبارہ گرفتاری کے بعد اُنہیں رہائی ملی تو کسی سے کوئی شکایت نہ کی، رہائی کے بعد پاکستان کا جھنڈا اُٹھایا اور اُس نفرت کو کبھی سپورٹ نہ کیا جس کا اظہار ہمیں تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے ذریعے ملتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)