پروفیسر خالد اقبال جیلانی
اسلام ادیان و مذاہب کی تاریخ کا وہ واحد دین ہے جو دیگر مذاہب کے ماننے والوں، اُن کے عبادت خانوں، جان، مال اورعزت و آبرو کی حفاظت کے تحفظ اور آزادی، عقیدہ و فکر کا مکمل محافظ اور نگہبان ہے۔ اسلام تحمل و برداشت کا وہ نمونہ فراہم کرتا ہے کہ جو دنیا کا کوئی دین اور معاشرہ فراہم نہیں کرتا۔ اللہ نے قرآن کریم میں ایمان والوں کو حکم دیا ہے کہ غیر مسلموں کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا نہ کہو، فرمایا کہ تم ان کے جھوٹے خود ساختہ خدا ؤں کو برا مت کہو جن کو مشرکین اللہ کے سوا پوجتے ہیں ،ورنہ یہ اپنی جہالت میں اللہ کی شان میں بدزبانی کرنے لگیں گے۔ (سورۂ انعام )
یہ مذہبی آزادی اور حفاظت فکر و نظر کا بہترین اور لاثانی و بے مثل قانون ہے۔ ہر چند کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ آئے دن کسی نہ کسی یورپی ملک میں کوئی نہ کوئی گستاخ کوئی ابوجہل اٹھ رہا ہے اور وہ اسلام، شعائر اسلام کی شان میں اپنے پیشرو سے بڑھ کر گستاخی اور اہانت کا مرتکب ہو رہا ہے اور اپنی اس خباثت کی داد اپنے ہموطنوں اور اہل مذہب سے چاہ رہا ہے۔اس صورت حال میں مسلمانوں کا غم و غصہ تو یقیناً ایمان کی علامت ہے، لیکن ردِ عمل میں ہمیں قرآن و سنت کے احکام ، اسلام اور ملت اسلامیہ کے شعار کو پیشِ نظر رکھنا اور اپنا رہنما بنانا ہوگا۔
مومن اس بارے میں آزاد نہیں کہ جو جی میں آئے، اس پر عمل پیرا ہو جائے، رسول اللہ ﷺ نے ہر معاملے میں اسوہ حسنہ اور طرزِ عمل چھوڑا ہے۔ شعائر اسلام کی اہانت کے معاملے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں بھی آئے ۔ مکی زندگی ہی نہیں، مدنی زندگی میں بھی، لیکن آپ ﷺ اور آپ کے اصحاب ؓ کے لئے بنیادی طور پر یہ ہدایت ربانی رہنما رہی کہ ’’تم ضرور آزمائے جاؤگے، اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں، اہل کتاب اور مشرکین سے کتنی ہی دل آزار باتیں بھی تمہیں سننی پڑیں گی، اور اس کے مقابلے میں اگر تم نے صبر اور تقویٰ کی روش سے کام لیا تو یہ یقیناً عزم و ہمت کی بات ہے،‘‘ (سورۂ آل عمران)
اس سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہےکہ اسلام کی تعلیمات ، رسول اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ اور مسلمانوں کا کردار اسلام اور شعائر اسلام کی اہانت کے سلسلے میں میں یہ رہا کہ کبھی بھی ابو جہل کے جواب میں ابوجہل کو پیش نہیں کیا گیا، بلکہ ہمیشہ ابو جہل کے جواب میں صدیق اکبر ؓ، ابو لہب کے سامنے فاروق اعظمؓ، عتبہ و شیبہ کے سامنے عثمان غنی ؓ اور مرحب کے مقابلے پر علی ؓ کو پیش کیا گیا۔ یعنی مسلمانوں نے کفار و مشرکین کی گستاخی کا جواب کبھی بھی گالی سے نہیں دیا۔
حضرت عمر ؓ نے جب بیت المقدس فتح کیا تو آپ نے بیت المقدس کے غیر مسلم شہریوں کو جو امان نامہ دیا اس کے الفاظ اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم شہریوں کے لئے مذہبی آزادی اور تحفظِ جان و مال اور معابد کا ایک دائمی دستور ہے۔ آپ نے فرمان جاری کیا کہ’’ یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے عمر بن خطاب امیر المومنین نے اہل ایلیا کو دی، ان کی جانوں، ان کے اموال ، ان کے کلیساؤں، ان کی صلیبوں اور ان کی ساری ملت کو دی گئی ہے۔
ان کے گرجوں کو بند کیا جائے نہ گرایا جائے، نہ ہی اُن میں کوئی کمی کی جائے اور نہ ہی ان کے احاطوں کو سکیڑا جائے اور نہ اُن کی صلیبوں میں کمی کی جائے اور نہ ہی اُن کے اموال میں کمی کی جائے اور کسی کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے اور نہ کسی کو تکلیف پہنچائی جائے اور نہ ان کے ساتھ (جبراً) یہودیوں میں سے کسی کو ٹھہرایا جائے (کیوں کہ اس زمانے میں مسیحیوں اور یہود میں بڑی عداوت تھی۔)
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور ہر ایک قوم کو اس نے اپنے موقف پرگامزن ہونے کی اجازت عطا فرمائی ہے۔ اسلام ایک ایسے انسانی معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے جس میں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے عقائد اور رسوم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے امن و آشتی کے ساتھ دوش بدوش زندہ رہ سکتے ہیں۔ اسی عقیدے کی بناء پر اسلام تمام انبیائے کرامؑ کی تصدیق کرنا بھی جزو ایمان سمجھتا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے پہلے گزر چکے ہیں ،نہ صرف پیغمبروں بلکہ آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر بھی جو مختلف زمانوں میں اور مختلف زبانوں میں انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوتے رہے، ایمان لانا ارکانِ اسلام کا بنیادی ستون ہے۔
اسلام میں جارحانہ قومیت کا تصور بالکل مفقود ہے۔ اسلامی نظریات کے ماتحت ہر نسل ، جماعت اور رنگ انسانی اخوت میں منسلک ہے، یہ ہمہ گیر انسانی اخوت خالص اسلامی تصورہے اور جارحانہ قومیت اس اسلامی تصور کے قطعی منافی ہے ۔ حتیٰ کہ جنگ میں بھی اسلام نے حدود مقرر کردی ہیں، مثلاً معاہدوں کا احترام، دشمن کے ذرائع خوراک تباہ نہ کرنے کا حکم، غیر جنگجو آبادی کا لحاظ، شکست خور دہ سے نرم سلوک کرنے کی ہدایات وغیرہ ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’وہ ہم میں سے نہیں جو ظلم میں اپنی قوم کا ساتھ دے‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’نہ وہ ہم میں سے ہے جو ناانصافی کرنے کے لئے دوسروں کو اپنی مدد پر بلاتا ہے ‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہ وہ ہم میں سے ہے جو ظلم میں اپنے قبیلے کی حمایت کرتے ہوئے مارا جاتا ہے۔ ‘‘
اسلامی ریاست کا تصور ، جہاں اللہ کی حکومت ہو، صرف اخلاق اور اٹل فطرتی اصولوں پر ہی استوار کیا جاسکتا ہے۔ قانونِ اسلامی کے سامنے سب لوگوں کی حیثیت مساوی ہےاو ر ہرشخص کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہے، وہ ریاست جس میں ہمہ گیر انسانی اخوت اور رواداری ملحوظ نہ ہو، حقیقتاً غیر اسلامی ہے۔ اسلامی فرائض کی پابندی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم غیر مسلموں کے حقوق کی پوری نگہداشت کریں۔ ایسا کیے بغیر وہ شائستہ ، خوش حال، ترقی یافتہ اور منظم معاشرہ وجود میں نہیں آ سکتا جس کی خلافتِ الٰہیہ تقاضا کرتی ہے۔
صرف مسلمانوں کا طرزِعمل ہی اسلام اور اس کے اصولوں کو دنیا کے دوسرے مذاہب کے لوگوں کی نظروں میں قابلِ احترام بناسکتا ہے۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق کا تحفظ کریں ،اچھے ہمسایوں کی طرح لحاظ اور رواداری کا برتاؤ رکھیں۔ یاد رکھیئے کسی بھی نوعیت کے تعصب کو اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ،اسلام تمام انسانوں کے لئے ایک جیسے انصاف، تمام مخلصانہ عقائد کے لئے رواداری ، اور تمام نیک و مقدس ہستیوں کے لئے احترام کی تعلیم دیتا ہے۔
اسلامی رواداری ہی انسانیت کے زخموں کو مند مل کر سکتی ہے ۔ آج ہمیں اس رواداری کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی اسلام میں قطعاً ممنوع ہے۔ جیسا کہ ہم نے شروع میں بیان کیا کہ دوسرے مذاہب کے جھوٹے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے بھی باز رکھا گیا ہے۔ قرآن کریم نے یہاں تک تاکید فرمائی ہے کہ اگر بت پرست تک تمہاری پناہ میں آجائیں توان کی حفاظت کرو، شاید اسی طرح پیغام خداوندی ان کے کانوں تک پہنچ جائے ۔
ایسی مملکت جو اپنے معاشرے کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کا دعویٰ رکھتی ہو، اس کے مسلمان شہریوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلام کی مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی نہ کریں اور غیر مسلموں سے حسنِ سلوک کے ذریعے اسلام کے اٹل اور بنیادی اصولوں کے لئے خراجِ تحسین وصول کریں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی ریاست اور مسلمان شہریوں کو وہ عقل و شعور عطا فرمائے کہ وہ اخوتِ انسانی کی ان بلند اسلامی اقدار پر عمل پیرا ہو کر غیر مسلم اقلیتوں کی ہر طرح سے حفاظت اور آزادی کے محافظ و پاسبان ثابت ہوں۔