مولانا حافظ عبدالرحمٰن سلفی
فرائض اسلام میں سے ایک اہم ترین فریضہ ’’جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یہ وہ فریضہ ہے جو امت مسلمہ کی سربلندی و افتخار اور افراد امت کی سرخروئی کا باعث رہا ہے۔ جہادفی سبیل اللہ کی قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ میں بڑی فضیلت اور مجاہدین اسلام اور شہداء و غازیوں کا بڑا مقام و مرتبہ بیان ہوا ہے اوربکثرت آیات مقدسہ اس پر شاہد ہیں۔ جہاد لفظ ’’جہد‘‘ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی کوشش کرنے کے ہیں۔ اعلائے کلمۃ الحق کے لئے جہاد کے تین درجات ہیں۔(1)جہاد باللسان(2) جہاد بالقلم(3) جہاد بالسیف۔
(1) جہاد باللسان سے مراد کفر وا لحاد، دین سےبغاوت ونافرمانی، شرک و بدعات کے ماحول میں وعظ و نصیحت کے ذریعے عوام و خواص کو اصلاح عقیدہ و عمل کی جانب راغب کرانا اور انہیں اللہ اور اس کے آخری رسول جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کی خالص اور سچی اطاعت و فرماں برداری پر آماہ کرناہے ،تاکہ وہ اور ہم سب جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں اور رب تعالیٰ کی رضا وخوشنودی حاصل کر کے جنت کی لازوال و سرمدی نعمتوں کے حقدار بن جائیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ! اے ایمان والو، اپنے اوراہل و عیال کو آتش (جہنم) بچائو جس کا ایندھن انسان اورپتھر ہیں ۔(سورۃ التحریم)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو حکم دیا:ترجمہ! اور اپنے قریبی رشتے داروں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرائیے۔(سورۃ الشعراء)
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے خاندان قریش کو ایک جگہ بلا کر اکٹھا کیا اور خطاب عام فرمایا اور خصوصیت سے نام لے لے کر بھی مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے کعب بن لوی کی اولاد،اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو۔ اے مروہ بن کعب کی اولاد ،اپنے آپ کوجہنم کی آگ سے بچائو۔ اے عبد شمس کی اولاد، اے عبدمناف کی اولاد، اے ہاشم کی اولاد، اے عبدالمطلب کی اولاد،اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو۔(بخاری و مسلم)
معلوم ہوا کہ اللہ کے راستے میں اول جہاد زبان سے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا ہے ،تاکہ ان کے دلوں میں رب کی خشیت پیدا ہو اور وہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہو کر جنت کے حقدار بن جائیں۔ اسی طرح جہاد بالقلم ہے اور قلم کی اہمیت تو رب تعالیٰ نے سرور کائنات ﷺ پر نازل کردہ پہلی وحی میں ہی واضح فرمادی تھی۔
اسلامی جہاد کا آخری درجہ جہاد بالسیف ہے۔ یعنی اللہ کے راستے میں اس کے دین کے غلبے اور اللہ و رسول ﷺ کے دشمنوں اور مسلمانوں کے وجود کے در پے برسر پیکار اسلام کی نظریاتی یا جغرافیائی سرحدوں پر حملہ آور غیر مسلم طاقتوں کے مقابل دین کی بقا ءاور مظلوموں کے تحفظ یا تائید و نصرت کے لئے مسلح دفاع کا نام جہاد بالسیف کہلاتا ہے اور یہ آخری درجہ ہے۔ جب تما م راستے بند ہو جائیں اور کوئی صورت باقی نہ رہے ‘کفر کی یلغار ہو اور اسلام و اہل اسلام کے وجود کو سنگین خطرات لاحق ہوں ،تب امیرالمومنین یا حاکم وقت جہاد بالسیف کا اعلان کرنے کا مجاز ہے اور ہر مسلمان پر اس فریضے کی بجا آوری لازم قرار پاتی ہے۔
اسلام میں اس فریضہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ادا کرنے والے انتہائی فضیلت و بزرگی کے حامل گر دانے گئے ہیں چونکہ یہ ہی وہ فریضہ ہے جس میں بندئہ مومن اپنی سب سے قیمتی متاع عزیز یعنی جان بھی اللہ کے راستے میں لٹا دیتا ہے اور اپنا مال بھی صرف کرتا ہے۔ ایسے عظیم لوگوں کا رب تعالیٰ کے نزدیک بہت بلند و ارفع مقام ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ! بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے مارتے اور قتل ہوتے ہیں ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمہ ایک پختہ وعدہ ہے تورات و انجیل اور قرآن میں (سورۃ توبہ)
اسی طرح دوسرے مقام پر اللہ کے راستے میں جہاد بالسیف کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ترجمہ! اللہ تعالیٰ کے ہاں تو انہی لوگوں کا بڑا درجہ ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی لوگ کامیاب ہیں (سورۂ توبہ)
ایک مقام پر جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت اس طرح واضح فرمائی گئی۔ترجمہ! اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتلادوں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچا لے۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) پرایمان لائواور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو۔
یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم میں علم ہو۔ (اس جہاد کے بدلے میں) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں پہنچائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور صاف ستھرے گھروں میں جو جنت عدن میں ہوں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور تمہیں ایک دوسری (نعمت) بھی دے گا جسے تم چاہتے ہو وہ اللہ کی مدد اور جلد فتح یابی ہے۔ ایمان والوں کے لئے خوش خبری دیدیجئے۔ (سورۃ الصف:)
اللہ کے راستے میں جہاد کی فضیلت اور اس کی راہ میں شہادت پانے والوں کے لئے بڑے درجات ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاد بالسیف اور شہید ہونے والوں کی تعریفیوں بیان کی ہے۔ترجمہ! جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہیں انہیں ہر گز مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے، اس سے بہت خوش ہیں اورخوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس سے بھی کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے اجرکوبرباد نہیں کرتا(سورۂ آل عمران)
معلوم ہوتا ہے کہ شہدا کی زندگی حقیقی ہے البتہ اہل دنیا کو اس کا شعور نہیں۔ اسی طرح صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ شہدا کی روحیں سبز پرندوں کے جوف یا سینوں میں داخل کر دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتی پھرتی اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں (فتح القدیر بحوالہ صحیح مسلم کتاب الامارۃ)
اسی طرح شہداء کی روحیں ان اہل ایمان کی بابت جو ان کے پیچھے دنیا میں زندہ یا مصروف جہاد ہیں، وہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش وہ بھی شہاد ت سے ہمکنار ہو کر یہاں جنت میں ہماری جیسی پرلطف زندگی حاصل کریں۔
متعدد احادیث مبارکہ میں وارد ہے کہ لوگوں میں افضل ترین شخص وہ ہے جو اپنی جان ومال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرے۔ (صحاح ستہ ابن ماجہ) اسی طرح فرمایا کہ جنت میں ایک سو درجات ہیں جنہیں اللہ نے خاص مجاہدین فی سبیل اللہ کے لئے تیار کر رکھاہے اوران ہر دو درجوں کے درمیان اتنی مسافت ہے کہ جتنی زمین و آسمان کے درمیان ہے۔ (صحیح بخاری ) البتہ یہ عظیم عبادت خلوص نیت کے بغیر ضائع و بے کار ہو سکتی ہے، لہٰذا اخلاص نیت پر ہی کامیابی کا دارومدار ہے۔