تفہیم المسائل
سوال: ہمارے یہاں انڈسٹریل ایریا کی مساجد میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ عشاء اور فجر کی نماز میں مقتدی نہیں ہوتے ، امام اکیلا فرض پڑھنے کے لیے مصلے پر کھڑا ہوجاتا ہے ، ان مساجد میں عموماً ایک ہی فرد امام ومؤذن کے فرائض انجام دے رہا ہوتا ہے ، قرأت جہری ہورہی ہوتی ہے ، اتفاق سے اگر کوئی دوسرا شخص نماز میں شامل ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے ؟،(حافظ عمر فاروق ، کراچی)
جواب: ایسی صورت میں امامِ مسجد کو چاہیے کہ بلند آواز سے اقامت کہے تاکہ لوگوں کو جماعت قائم ہونے کا علم ہوجائے، پھر مصلے پر کھڑے ہوکر امامت کی نیت کرکے فرض نماز کا آغاز کردے ، چونکہ جہری نماز ہے منفرد بھی بلند آواز سے تلاوت کرے ،تو جائز ہے ۔ امام اکیلے ہی نماز کی ابتدا کردے، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’خانیہ‘‘ میں ہے : اگر مسجد کا مؤذن نہ ہو تو وہ اُس مسجد کی طرف جائے ، اذان کہے اور نماز پڑھے، اگرچہ وہ اکیلاہی ہو ،کیونکہ اس آدمی پر اس کا حق ہے ،پس وہ اسے اداکرے ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد1،ص:659)‘‘۔
اس دوران اگر کوئی مقتدی آکر جماعت میں شامل ہوتا ہے، تو وہ امام کے دائیں جانب تھورا سا پیچھے قدم رکھ کر کھڑا ہوجائے، امام کے ساتھ ایک فرد کے شامل ہونے سے جماعت قائم ہوجائے گی ،علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ جمعہ کے علاوہ دوسری نمازوں میں ایک آدمی سے جب زیادہ ہوں ،تو جماعت ہے ، خواہ ایک سمجھ دار لڑکا ہی ہو ، ’’سراجیہ ‘‘ میں اسی طرح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ، جلد1،ص:83)‘‘۔
اس دوران اگر دوسرا شخص بھی جماعت میں شامل ہونے کے لیے آجاتا ہے، تو پہلے والا شخص جو امام کے ساتھ کھڑا ہے، پیچھے آجائے اور اگر دو آدمی جماعت میں شامل ہوئے ، تو دونوں امام کے پیچھے صف بنالیں اور امام اُن کی اقتداء کی نیت کرلے ،تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے :ترجمہ:’’ایک آدمی امام کے ساتھ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو ، پس اگر وہ امام کے بائیں جانب کھڑا ہوگا تو بالاتفاق مکروہ ہے اور اسی طرح صحیح ترین قول کے مطابق ایک مقتدی کا مام کے پیچھے کھڑاہونا مکروہ ہے، کیونکہ اُس نے سنّت کی مخالفت کی ۔ایک سے زائد مقتدی امام کے پیچھے کھڑے ہوں ، پس اگر امام دو آدمیوں کے درمیان کھڑاہواتو یہ مکروہ تنزیہی ہے اور زیادہ مقتدیوں کے درمیان کھڑاہو ،تو مکروہ تحریمی ہے، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد2،ص:265، بیروت) ‘‘۔
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ جب ایک مقتدی امام کے ساتھ کھڑا ہو ،دوسرا شخص آیا تو( بعض نے کہاکہ )امام قدم بڑھا کر سجدے کے مقام پر چلا جائے ،جیساکہ ’’مختارات النوازل‘‘ میں ہے اور ’’قہستانی ‘‘ میں جلابی سے منقول ہے کہ جب دوسرا مقتدی آجائے تو (پہلا )مقتدی پیچھے آجائے۔ اور ’’فتح القدیر‘‘ میں ہے : اگر ایک شخص امام کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے ،پس تیسرا شخص آیا تو وہ تکبیرکہہ کر(نیت باندھ کر ) مقتدی کو پیچھے کی جانب کھینچ لے اور اگر تکبیر کہے بغیر پیچھے کھینچ لے، تب بھی کوئی حرج نہیں اور بعض نے کہاکہ امام آگے بڑھ جائے ، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد2،ص:265،بیروت )‘‘۔
پس دونوں صورتیں کسی کراہت کے بغیر جائز ہیں : امام آگے ہوجائے یا مقتدی پیچھے ہوکر دوسرے مقتدی کے ساتھ کھڑا ہوجائے۔ غرض آپ کی بیان کردہ صورت مسئلہ میں امام کا طرزعمل درست ہے ، وہ امامت کی نیت کرکے جہری نماز(مغرب ،عشاء اورفجر) میں اونچی آواز سے قرأت کرسکتا ہے اور اس دوران اگرکوئی نمازی آجائے ،تو وہ اس کی اقتداء میں نماز پڑھ سکتاہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)