• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: شناخت کی غرض سے کتبے پر متوفیٰ کا نام، تاریخِ وفات کندہ کرواکر سرہانے لگانا جائزہے ؟۔(عبدالقیوم ،کراچی)

جواب: اگر ضرورت ہو تو قبر پر نام وغیرہ کا کتبہ لگانے میں کوئی حرج نہیں، تاکہ قبر کے آثار محفوظ رہیں۔ علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’اگر ضرورت ہو تو قبر پر لکھنے میں کوئی حرج نہیں، تاکہ قبر کا نشان محفوظ رہے اور اُس کی اِہانت بھی نہ ہو۔

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’(قبر پر لکھنے کی ممانعت ) اگرچہ صحیح حدیث سے ثابت ہے لیکن اِس کے ثبوت پر اجماعِ عملی موجود ہے ، حاکم نے لکھنے کی ممانعت میں احادیث وارد کی ہیں اور کہاہے کہ یہ احادیث اگرچہ صحیح ہیں، لیکن ان پر عمل نہیں ہے، کیونکہ مشرق سے مغرب تک ائمۂ مسلمین کی قبروں پر لکھاجاتا ہے اور متاخرین نے متقدمین کے عمل کواختیار کیا ہے ۔

اِ س نظریے کو سُنن ابوداؤد کی ایک روایت سے تقویت ملتی ہے :’’رسول اللہ ﷺ نے ایک پتھر اُٹھاکر حضرت عثمان بن مظعونؓ کی قبر کے سرہانے رکھا اور فرمایا: میں اس کے ساتھ اپنے بھائی عثمان کی قبر پر علامت بناتا ہوں، تاکہ میرے اہل سے جو وفات پاجائے ،اُسے یہاں دفن کیاجاسکے ‘‘۔کیونکہ لکھنا بھی قبر کی شناخت اور علامت ہے ،ہاں ! یہ بات ظاہرہے کہ (لکھنے کے ثبوت پر) اس اجماع عملی کی رخصت اس صورت پر محمول ہے، جب اس کی ضرورت ہو جیسا کہ ’’محیط‘‘ میں ہے کہ اگر قبر پر لکھنے کی ضرورت ہو تاکہ اس کے آثار محو نہ ہوں اور اُس کی اِہانت بھی نہ ہو ، تو لکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور بلاعذر لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ قبر پر قرآن مجید (کی آیات) لکھنا یا اشعار یا (صاحبِ قبر کی ) تعریف میں مبالغہ آرائی پر مبنی کلمات لکھنا وغیرہ مکروہ ہے‘‘۔(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد3،ص:135)