(گزشتہ سے پیوستہ)
گورنمنٹ کالج لاہور کی اس قدیم اور تاریخی عمارت میں ہم بڑی دیر تک رہے اور ارد گرد کےعلاقے کو بہت بغور دیکھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور جہاں سے پونے دو سو برسوں میں ہزاروں اسٹوڈنٹس پڑھ کر فوج، بیوروکریسی میں کئی اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔ وزیر، وزیر اعلیٰ، گورنر، وزیر اعظم اور صدر بنے۔ مگر کسی نے اس تاریخی عمارت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ارے ظالمو! جس تاریخی دربار دھیان سنگھ/ مغل حویلی/ انگریز ایکسٹرااسسٹنٹ کمشنر کی عدالت سے اس گورنمنٹ کالج، اورینٹل کالج اور پنجاب یونیورسٹی کا آغا ز ہوا تھا، ان تینوں تعلیمی اداروں کا فرض تھا کہ وہ مل کر اس تاریخی عمارت کو محفوظ کریں۔ یہاں پر ان کی تاریخ یعنی ہسٹری تحریر کریں۔ پھر اس ضلع اسکول، دیال سنگھ اسکول اور سنٹرل ماڈل اسکول کا بھی ذکر کریں، اس وقت حالات یہ ہیں کہ اس غیر آباد عمارت میں بقول محلے داروں کے آسیب وغیرہ کا بسیرا ہے۔ ظاہرہے جو عمارت غیر آباد ہوگی اس میں اس قسم کی مخلوق کاآ جانا قدرتی امر ہے۔ بہرحال ہمارے ساتھ تو گورنمنٹ سٹی مسلم لیگ کے نہایت ہی شفیق سینئر ہیڈ ماسٹر محمدبختیار مسلسل سورہ یٰسین اور قرآن پاک کی مختلف آیات پڑھ کر اپنے آپ پر اور ہم پر پھونک مارتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بھی اس عمارت میں کسی حد تک خوف محسوس ہوا۔ شاید شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور اس خستہ حال عمارت میں کوئی روشنی کا انتظام نہیں تھا اور ہم بھی اپنے موبائل فون کےذریعے اس عمارت کا جائزہ لے رہے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی اس اولین عمارت میں دو بڑے پرانے درخت ہیں ان کی قدامت بتاتی ہے کہ وہ یقیناً دو تین سو برس سے بھی زیادہ قدیم ہیں۔ ان کے بارے میں محلہ داروں کا دعویٰ ہے کہ ان پر جن بیٹھے ہوئے ہیں۔ بلکہ اسکول کے اندر یعنی گورنمنٹ سٹی مسلم لیگ اسکول کے اندر جو قدیم درخت ہے اس پر جو جن موجود ہے بقول ہیڈ ماسٹر بختیار کے اس کا نام دوست محمد ہے اور وہ کئی لوگوں سے ہم کلام بھی ہوا ہے۔ مگر اس نے آج تک کسی اسٹوڈنٹ کو کچھ نہیں کہا۔ یہ بات درست ہے کہ اندرون شہر کئی مکانات اور حویلیاں آسیب زدہ ہیں۔ بے شمار گلیوں کے طاقچوں میں ،جو مغل دور کے ہیں ، لوگ آج بھی جمعرات کو دیا جلاتے ہیں۔ اندرون شہر کی بعض دیوار وں اور گلیوں کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں پر نیک ہستیوں کا پھیرا ہے چنانچہ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی کئی گلیوں کے شمع دانوں میں لوگ دیا اور اگربتی جلاتے ہیں، ہم نے خود ایسے کئی کوچے اور گلیاں دیکھی ہیں۔ بھاٹی دروازے کے اندر بازار حکیماں اور اس کے ارد گرد کی گلیوں میں صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی لوگ ان شمع دانوں میں دیئے جلاتے ہیں۔ مغلوں کے دور میں ہر گلی میں اس قسم کےشمع دان ہوتے تھےجہاں پر رات کو دیئے جلائے جاتے تھے۔ اندرون لاہور کیروسین کے لیمپوں کا بڑا کاروبار کسی زمانے میں رہا ہے۔ ان کو گیس لیمپ کہا جاتا تھا، ان کا بھی رات کو بڑا خوبصورت منظر ہوتا تھا۔ یہ گیس کے لیمپ رات کو ٹیلوں پر بھی رکھے جاتے تھے۔ رات کی باراتیں بھی انہی لیمپوں کی روشنی میں جاتی تھیں۔یہ لیمپ مزدور سر پر اٹھا کر چلتے تھے۔ لاہور میں آپ سارے دروازے اندر ہی اندر پھر سکتے ہیں اور کسی بھی دروازے سے باہر آ سکتے ہیں۔ اندرون لاہور کے تیرہ دروازے، گلیوں اور کوچوں کے ذریعے آپس میں منسلک ہیں۔ البتہ بعض کوچے اتنے اندھیرے ہیں کہ آپ کو صبح کے وقت بھی وہاں کچھ نظر نہیں آتا، کچھ گلیاں اور کوچے آگے سے بند ہیں۔ یقین کریں یہ شہر اگر انگریزوں، اٹلی اور اسپین کے لوگوں کے پاس ہوتا تو یہاں سیاحوں کی بھیڑ لگ جاتی۔ وہ شہر جہاں پر آج بھی چھوٹی اینٹ کے مکانات موجود ہیں، بے شمار حویلیاں اپنی اصل شکل و صورت میں ہیں، مگر ان کی قدر کون کرے گا؟گورنمنٹ کالج کے آغاز کی اس تاریخی عمارت/ حویلی /دربار جو بھی کچھ کہہ لیں اس کا مرکزی دروازہ آج بھی موجود ہے۔ مگر خستہ حالت میں ہے اور چھوٹی اینٹ کا ہے، بڑا خوبصورت دروازہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اس حویلی کا داخلی دروازہ ہے اور اس کے آگے وسیع کمروں والی حویلی تھی جس میں کبھی 62کمرے تھے۔ اب لوگوں نے اس کے وسیع احاطے پر قبضہ کرکے مکانات تعمیر کرلئے ہیں اور آج بھی کہیں اس دربار دھیان سنگھ کی چھوٹی اینٹوں کو اپنے امکانات میں استعمال کرلیا ہے۔ یہ چھوٹی اینٹ کی دیواریں آج بھی نظر آتی ہیں اور ان پر بڑے بھونڈے انداز میں پلستر کردیا گیاہے۔
آخر ہم اس شہر بے مثال اور شہر باکمال کی ہر تاریخی عمارت کو کیوں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ارے بابا! شہر کی قدیم عمارات تو کسی شہر کا جھومر، ثقافت اور تہذیب ہوتی ہیں۔گورنمنٹ کالج لاہور کی اس عمارت جس کا تذکرہ ہم دھیان سنگھ کے محل یا پھر انگریز ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت کے طور پر کر رہے ہیں۔ یہیں سے اورینٹل کالج کا آغاز ہوا۔ڈاکٹر لینٹر ہی وہ پہلے شخص تھے جن کا یہ نظریہ تھا کہ ’’ہر قوم کو اس کی قومی زبان میں تعلیم دینی چاہیے۔ یہ فلسفہ عمرانیات کا زریں اصول ہے ان کا خیال تھا کہ انگریزی کی نشو و نما مشرقی زبانوں کے ساتھ وابستہ ہے ،الگ نہیں‘‘۔1872ءمیں اسی تاریخی عمارت میں علوم مشرقیہ سے روشناس کرانے کے لئے اورینٹل کالج قائم کیا گیا اور 1882ء میں اس کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے کر دیا گیا اور پنجاب یونیورسٹی کی ابتدائی کلاسز بھی اسی عمارت میں ہوئی تھیں۔ اورینٹل کالج دربار دھیان سنگھ کے بعد انار کلی میں ایک کرایہ کی عمارت میں منتقل کیا گیا۔ (جاری ہے)