• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریض کی عیادت ایک مسنون عمل، دینی و معاشرتی فریضہ

مولانا نعمان نعیم

دین اسلام جس طرح ہمیں خوشیوں میں دوسروں کا ساتھ دے کر ان کی خوشیاں بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے،اسی طرح دوسروں کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھنے، اس میں شریک ہونے اوراس کے ازالے کی کوشش کرنے کی تلقین کرتا ہے، ایک مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان بھائی کو بیماری و پریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کے اندر رحم کے جذبات ابھریں اور اس کی مصیبت کا اسے بھی احساس ہو، یقیناً ایک مسلمان کا دوسروں کی تکلیف کا احساس کرکے دل جوئی اور دل داری کی خاطر اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر عیادت کرنے میں اُس فرمانِ مصطفیٰﷺ کا عملی اظہار ہوتا ہے کہ جس میں تمام مسلمانوں کوایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے۔

’’عیادت‘‘ اور مزاج پُرسی سے باہمی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، ایک دوسرے کے لیے ہم دردی اورغم خواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، مریض،اس کے اہل خانہ اور رشتے داروں کے دل میں عیادت کرنے والے کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اتحاد و یگانگت کی ایک اچھی فضا قائم ہوتی ہے،گویا سماجی اور دینی دونوں ضرورتیں اس سے پوری ہوتی ہیں، اگر بیماری کے علم کے باوجود مریض کی عیادت نہ کی جائے اور اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی جائے، تو آپس میں عداوت، کدورت ،نفرت اور کم از کم بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔

عیادت مسلمان کا حق ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں:سلام کاجواب دینا، مریض کی عیادت کرنا،جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کے جواب پر ”یرحمک اللہ“ کہنا۔(صحیح بخاری،کتاب الجنائز،:۱۲۴۰)

اسلام نے بیمار پُرسی اور تیمارداری کو گناہوں کی بخشش اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بتایا ہے، کسی بھی بیمار کی عیادت کو اللہ تعالیٰ کی عیادت کے مترادف بتایاگیا، اللہ تعالیٰ کی ذات اگرچہ ہر بیماری سے پاک ہے،اُسے کوئی بیماری و تکلیف ہر گز ہرگز لاحق نہیں ہوسکتی،لیکن عیادت کی فضیلت اجاگر کرنے کے لیے اس طرح کی مثال بیان کی گئی،چناں چہ حدیثِ قدسی میں ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا:اے ابن آدم!میں بیمار ہوا،تو نے میری عیادت نہیں کی، وہ کہے گا:اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا،حالاں کہ تو رب العالمین ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا:کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو اس کی عیادت کرتا،تو تو مجھے اس کے پاس پالیتا۔(مسلم،کتاب البروالصلۃ،باب فضل عیادۃ المریض:۲۵۶۹)

مریض دوست ہو،یا دشمن،امیر ہو،یا غریب عیادت کو سنت، اخلاقی فریضہ اورمسلمان کاحق سمجھ کرنا چاہیے، آج عیادت کا دائرہ سمٹ کررہ گیا ہے، معاشرے میں عیادت ایک رسم بن گئی ہے، لوگ اس وجہ سے عیادت کرتے ہیں کہ اگرمیں نے عیادت نہیں کی، تو اس کے گھر والے کیا سمجھیں گے، کوئی مال دار، یا عہدے دار،یا خاص رشتے دار ہو، تو اس کی عیادت کی جاتی ہے، اگر کوئی غریب ہے،تو پڑوس میں ہونے کے باوجود ایک مرتبہ بھی مزاج پرسی اور اظہارِ ہم دردی نہیں کی جاتی،اس لیے کہ اس سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ نہیں اور نہ آئندہ اس کی کوئی توقع ہے۔

حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت کےلیےجاتاہے،تو واپس ہونے تک وہ جنت کے باغات میں ہوتاہے۔(صحیح مسلم) یعنی عیادت کرنے والاجب سے عیادت کے لیے نکلتا ہے، تو واپس ہونے تک اس طرح ثواب کو حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے، جس طرح جنتی جنت کے باغات میں پھل توڑنے میں لگا رہتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جوشخص کسی مریض کی عیادت کرے،یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کرے،توآسمان سے ایک فرشتہ اعلان کرتاہے کہ تم نے اچھا کیا، تمہارا (عیادت وملاقات کے لیے) چلنا مبارک ہے اورتم نے(عیادت کرکے) جنت میں اپنے لیے ٹھکانہ بنالیا۔(جامع ترمذی)حضرت زیدبن ارقمؓ فرماتے ہیں: میں آشوبِ چشم کے مرض میں مبتلا تھا، رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لے آئے۔(سنن ابو داؤد)اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ مرض بظاہر چھوٹا اورمعمولی ہو،تب بھی مسلمان کی ہم دردی اور دل داری کے لیے عیادت مستحب ہے، اس پربھی عیادت کرنے والے کو اجروثواب ملے گا۔

اسلام میں عیاد ت کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اس بناپر بعض فقہاء نے عیادت کو واجب قرار دیا ہے، امام بخاریؒ کا رجحان بھی یہی ہے، علّامہ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں: عیادت کا حکم اصلاً مستحب ہے، بعض اوقات بعض لوگوں پرواجب ہوتا ہے۔ (فتح الباری،باب وجوب عیادۃ المریض:۵۶۴۹)عیادت کا واجب یامستحب ہونا حالات پرموقوف ہے، اگر مریض کے متعدد تیماردار موجودہوں، تو مستحب ہے، کوئی دیکھ بھال کرنے والانہ ہو،توواجب ہے، علامہ بغویؒ نے یہی بات کہی ہے۔(قامو س الفقہ:۴/۴۱۸)

ایک مسلمان کا فرض ہے کہ مریض کے ساتھ ہم دردی اورغم خواری کرے، اس کے احوال پوچھے اور جہاں تک ہوسکے، اس کا تعاون کرے، اسی کو عربی زبان میں عیادت کہا جاتا ہے، عیادت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ بیمار کی مزاج پرسی کی جائے، یا تیمار داروں سے اس کے احوال معلوم کرلیے جائیں، عیادت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ مریض کے ساتھ مکمل غم خواری کی جائے، یعنی بیمار کے پاس پیسے کی کمی ہے اور اللہ نے وسعت دی ہے، تو پیسوں کے ذریعے اس کا تعاون کریں؛تا کہ صحیح علاج کیا جاسکے، اگر خدمت کی ضرورت ہو، تو خدمت کی جائے، صحیح ڈاکٹر کی رہنمائی کی جائے، اپنے علم کے اعتبار سے صحیح اور مفید مشورے دئیے جائیں۔

تیمارداروں (اورمریض کے رشتے داروں) پر لازم ہے کہ وہ اپنی وسعت ومالی استطاعت کے موافق مریض کی خدمت،اس کا علاج اوراس کی ضروریات کی تکمیل کریں،شریعت ہمیں بتاتی ہے کہ مریض بوجھ نہیں؛ بلکہ سببِ رحمت ہے، اس کی خدمت اورتیمارداری اجروثواب کے حصول کا ذریعہ ہے۔

جب عیادت کے لیے جائے،تو باوضو جائے۔اللہ کی رضا اورثواب کی نیت سے عیادت کی جائے،جاہ ومنصب،مال ومنال کی رعایت، یا ترک ِعیادت پر ملامت سے بچنے کی غرض سے عیادت نہ کی جائے۔ مریض کے سامنے اسے خوش کرنے والی باتیں کی جائیں، ایسی باتیں نہ کی جائیں جو اس کے دل کو تکلیف پہنچانے والی ہوں، یا اس کے فکر و اندیشے میں اضافہ کرنے والی ہوں، مریض کو تسلی دے اورکہے ان شاء اللہ ٹھیک ہوجاؤگے،کوئی بڑی بات نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے،تومندرجہ ذیل کلمات سے تسلی دیتے تھے۔ کوئی تکلیف یا گھبراہٹ کی بات نہیں ہے؛ اس لیے کہ بیماری گناہوں کی صفائی وستھرائی کا ذریعہ ہے،ان شاء اللہ (بہترہی ہوگا)(صحیح بخاری)

مریض کو صحت وتن درستی اورزندگی کی امید دلائے،مریض کو ناامید بنانے والی گفتگو سے احتراز کرے۔ حضرت ابوسعیدخدریؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم بیمارکے پاس جاؤ،تو اس سے عمرکی درازی اور لمبی زندگی کی بات کرو، عمرکی درازی کی بات سے اس کی عمر لمبی اور بیماری دورنہیں ہوجائے گی، لیکن بیمار خوش اورمطمئن ہوجائے گا۔ (ترمذی،ابواب الطب:۲۰۸۳)

مریض کے سریا بدن کے جس حصے پر تکلیف ہو،اس جگہ داہنا ہاتھ پھیرے، احایث میں بے شمار دعائیں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں، انھیں پڑھ کر دم کرے،ذیل میں چند دعائیں ذکرکی جاتی ہیں، موقع ومحل کی رعایت سے ان کو پڑھ کر مریض پر دم کرے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان کسی ایسے مریض(کسی بھی قسم کا مرض ہو)کی عیادت کرے جس کی موت کا وقت قریب نہ آیا ہو، تین مرتبہ بسم اللہ پڑھے، پھر سات مرتبہ مندرجہ ذیل دعاپڑھ کر اللہ تعالیٰ سے شفاء کی دعا کرے، تو اللہ تعالیٰ اس مریض کو ضرور شفا عطا فرماتے ہیں:حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:جب ہم میں سے کوئی آدمی بیمار ہوتا، تو رسول اللہ ﷺ اپنا داہنا ہاتھ (بدن کے اس حصے پر) پھیرتے، (جس جگہ تکلیف اورمرض ہے) پھر دعا پڑھتے (جوکسی بھی قسم کے مریض کے لیے پڑھی جاسکتی ہے )(ترمذی، ابواب الطب:۲۰۸۳)

مریض کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹہرنا چاہیے۔بعض مرتبہ مریض کو آرام یا بعض خاص ضروریات کی تکمیل کا تقاضا ہوتا ہے، بیمار اور تیماردار مہمان کے واپس ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں، زبان سے کہہ نہیں سکتے، جس کی وجہ سے ان لوگوں کی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے، اس لیے مریض اور تیمارداروں سے چند تسلی کے کلمات کہہ کرچلے آنا چاہیے، البتہ اگر مریض خود خواہش مند ہو اور اہل خانہ کو بھی کوئی زحمت نہ ہو تو دیر تک بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ مریض کے پاس شوروشغب نہیں کرنا چاہیے؛ اس لیے کہ شوروشغب سے مریض کو بھی اذیت ہوتی ہے اورتیمارداروں کو بھی برالگتاہے۔

مریض کو سکون اور خاموشی کا ماحول اچھا لگتا ہے، شور و غل سے تکلیف اور الجھن محسوس ہو تی ہے، اس لیے عیادت کرنے والوں اور تیمار داروں کو غیر ضروری بات چیت سے احتراز کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص ایسا ہوکہ مریض کو اس کے قریب رہنے سے خوشی حاصل ہوتی ہو، راحت ملتی ہو، یا کوئی ایسی شخصیت ہوجس سے حصول ِبرکت کی امید ہو، تو ان لوگوں کا مریض کے پاس دیر تک رہنا جائز ہے مریض کسی کھانے پینے کی چیز کی خواہش کرے اور وہ چیز اس کی صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہو، تو وہ چیز مریض کے لیے فراہم کرنا چاہیے۔ جب عیادت کے لیے جائے، تو مریض سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے؛اس لیے کہ مریض کی دعا قبول ہوتی ہے۔ عیادت کے لیے مناسب وقت میں جائے،کیوں کہ بعض اوقات مریض اور تیماردار کے آرام اور ضروریات کے ہوتے ہیں،اس لیے ان چیزوں کالحاظ رکھنا چاہیے۔

اقراء سے مزید