• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جماعت کھڑی ہونے پر منفرد کے نماز توڑنے کا حکم

تفہیم المسائل

سوال: جماعت کا وقت قریب تھا، لیکن مسجد میں کوئی بھی موجود نہیں، ایک شخص آکر اپنے تنہا فرض پڑھنا شروع کردیتا ہے، اسی اثناء میں امام مسجد اپنے حجرے سے نکل کر ایک اور آدمی کے ساتھ نماز کی جماعت شروع کردیتا ہے، اب اپنی انفرادی نماز پڑھنے والے شخص کو کیاکرنا چاہیے ؟(حافظ عمر فاروق، کراچی)

جواب: جماعت قائم ہونے کا احساس ہونے کے بعد تنہا فرض نماز پڑھنے والے نمازی کو چاہیے کہ اپنی نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہوجائے، علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:’’جماعت کا ثواب حاصل کرنے کے لیے تنہا نماز پڑھنے والے کا نماز کو توڑنا جائز ہے،(حاشیہ ابن عابدین شامی،جلد4،ص:384، دمشق)‘‘۔

اس مسئلے کی مختلف صورتیں علامہ ابن عابدین شامیؒ نے بیان فرمائیں: ’’اس مسئلے کا حاصل یہ ہے: فرض نماز شروع کی ، پہلی رکعت کا سجدہ کرنے سے قبل جماعت کھڑی ہو گئی، تو وہ نماز توڑ دے اورجماعت میں شامل ہوجائے ، اگر اُس نے رکعت کا سجدہ کر لیا اور چار رکعات والی نمازمیں تھا تو دو رکعات مکمل کرلے ،جب تک تیسری رکعت کے لیے سجدہ نہ کیا ہو تو امام کی اقتداءکرے۔ 

اگر (تیسری رکعت کا) سجدہ کر لیا ہو تو (اب فرض نماز) مکمل کرے اور نفل کی نیت سے امام کی اقتداء کرے، مگر عصر میں اس طرح نہ کرے،(کیونکہ عصر کے فرض پڑھنے کے بعد نفل پڑھنا منع ہے)اور اگر چار رکعتوں والی نماز نہ ہو تو نماز کو توڑ دے اور جب تک دوسری رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو اقتداء کرے اور اگر اس کا سجدہ کر لیا ہو تو (تنہا ہی اپنی)نماز مکمل کرے اور اقتدا ءنہ کرے اور اگر دو یا تین رکعات والی نماز میں سجدے کے ساتھ مقید کر لیا ہو جیسے فجر اور مغرب تو وہ نماز کو قطع کر دے اور امام کی اقتداء کرے، جب تک دوسری رکعت کا سجدہ نہیں کیا، اسی طرح اگر دوسری رکعت کا سجدہ کرلیا تو اب نماز مکمل کرے اور اقتداء نہ کرے، کیونکہ فجر کے بعد نفل پڑھنا مکروہ ہوتا ہے اور مغرب کے وقت میں تین نفل پڑھنا مکروہ ہوتا ہے اور انہیں چار رکعات بنانا امام کی مخالفت ہوتی ہے۔ اگر امام کی اقتداء کرے تو چار رکعات مکمل کرے، اس میں زیادہ احتیاط ہے، کیونکہ تین نفل پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور امام کی مخالفت فی الجملہ مشروع ہے جس طرح مسبوق اس نماز میں جس کی وہ قضا کرتا ہے اور مقتدی مسافر امام کی مخالفت کرتا ہے،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد4،ص:388، دمشق)‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی ؒ لکھتے ہیں :’’تنہا فرض نماز شروع ہی کی تھی یعنی ابھی پہلی رکعت کا سجدہ نہ کیا تھا کہ جماعت قائم ہوئی، تو توڑکر جماعت میں شامل ہو جائے۔ فجر یا مغرب کی نماز ایک رکعت پڑھ چکا تھا کہ جماعت قائم ہوئی تو فوراً نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہوجائے، اگرچہ دوسری رکعت پڑھ رہا ہو، البتہ دوسری رکعت کا سجدہ کر لیا تو اب ان دو نمازوں میں توڑنے کی اجازت نہیں اور نمازپوری کرنے کے بعد بہ نیت نفل بھی ان میں شریک نہیں ہو سکتا کہ فجر کے بعد نفل جائز نہیں اور مغرب میں اس وجہ سے کہ تین رکعتیں نفل کی نہیں‘‘۔

مزید لکھتے ہیں: ’’نماز توڑنے کے لیے بیٹھنے کی حاجت نہیں کھڑے کھڑے ایک طرف سلام پھیر کر توڑ دے،(بہارِ شریعت ،جلد1،ص:696تا 697)‘‘ ۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تنہا فرض نماز پڑھنے والے نے پہلی رکعت کا سجدہ نہیں کیا تھا کہ باجماعت نماز شروع ہوگئی تووہ اپنی تنہا نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو سکتا ہے، اگر پہلی رکعت کا سجدہ کر لیا تھا ،پھر جماعت قائم ہوئی ،تو چار رکعات والی نماز میں قعدہ اُولیٰ کے بعد سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہوسکتا ہے۔

اگر تیسری رکعت ادا کر رہا تھا اور باجماعت نماز شروع ہوگئی تو تیسری رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے کھڑے کھڑے سلام پھیر کر اپنی تنہا نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو سکتا ہے۔ البتہ اگرمفرد نے تیسری رکعت کا سجدہ کر لیا تھا اور باجماعت نماز شروع ہوگئی تو اپنی تنہا نماز جاری رکھے اور مکمل کرے۔

اگر مفرد فجر یا مغرب کے فرائض ادا کر رہا تھا، پہلی رکعت کا سجدہ بھی کر لیا تھا اور فرائض کی جماعت کھڑی ہوگئی تو تنہا نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہوجائے ،فجر اور مغرب میں دوسری رکعت کا سجدہ ادا کر لینے کی صورت میں تنہا نماز ہی ادا کرے۔