یہ شاید 1997کی بات ہے۔ الیکشن کی مہم زور و شور سے جاری تھی۔ ہم قومی اسمبلی کے ایک امیدوار، جو کہ عزیز بھی تھے، کی مہم میں شامل تھے۔ انکے حلقے میں کچھ دیہی پولنگ اسٹیشن بھی تھے۔ ایک روز انہوں نے وہاں کامیاب جلسہ کیا۔ میں بعد از جلسہ وہاں پہنچا تو انہیں بہت خوش پایا۔ کہنے لگے جلسہ بہت اچھا ہو گیا اور انہوں نے ملک کو بین الاقوامی سطح پر در پیش مسائل سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ لیکن جلسے کے بعد دو اشخاص نے ان سے درخواست کی کہ انکا رشتہ دار پولیس کی حراست میں ہے، وہ بے گناہ ہے، اس پہ تشدد کیا جا رہا ہے۔ ایس ایچ او سے تھانے میں بات کریں۔ تاہم معزز امیدوار قومی اسمبلی نے انکے ہمراہ جانےاور ایس ایچ او سے اس ضمن میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ یہ میرا کام نہیں۔ یہ انتظامیہ میں مداخلت کے مترادف ہے۔ میں نے مشورہ دیا کہ چند ساتھیوں کے ہمراہ تھانے جا کر ایس ایچ او سے بات کریں یا علاقے کے ایس پی سے بات کریں تاکہ صحیح معاملے کا علم ہو اور اگر زور زبردستی کی جا رہی ہے تو وہ اس سے باز آ جائیں گے۔ آپکے ووٹرز کو آپ سے امید اور توقع ہے کہ آپ انکی داد رسی کریں گے۔ معزز امیدوار میری بات سے متفق نظر نہ آئے۔ تو میں نے کہا کہ آپ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں مگر ہمارا نظام گڑ بڑ ہے۔ یہاں انصاف کا حصول مشکل ہوتا ہے۔ یہاں زور لگا کر انصاف لینا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا میں نے بین الاقوامی سطح کی تقریر کی ہے اور یہ مجھے تھانے کے لیول پر لے جانا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کہ جن کے رشتہ دار کو تھانے میں زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے انکو آپکی بین الاقوامی مسائل پر تقریر میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر اب آپ انکا ساتھ نہیں دیں گے تو وہ آپکو ووٹ نہیں دیں گے۔ میں نے پیشنگوئی کی آپکے ایسے رویے پر آپکی ضمانت بھی ضبط ہو جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔
ہم ایسے رہنما چاہتے ہیں جو ہمیں زیادتی، نا انصافی اور ظلم سے بچانے کی صلاحیت، حیثیت اور قدرت رکھتے ہوں۔ مگر ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کون عوام، ملک اور ریاست کے لئے مناسب ہے اور کس کو ہم منتخب کریں۔ کیا اتنا ہی کافی ہے کہ جو ہمارے ساتھ اٹھ کر تھانے یا سرکاری محکمے میں چلا جائے وہ ہی اچھا رہنما ہے۔
عام رحجان یہ ہے کہ ہم خود جیسے بھی ہوں ہمارے رہنما اور رہبر صالح، ایماندار، دانشمند اور دردمند ہوں ۔ مگر بعض اوقات عوام اپنے رہنما کی محبت و عقیدت میں اسکے گناہ اور بد اعمالیوں کو بھی نہ صرف نظر انداز کر دیتے ہیں بلکہ انکو قابلِ توصیف خصوصیات سمجھتے ہیں۔شاید انکی اپنی خواہشات اور دیگر جذبات انکو اس سطح پر کھینچ لاتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 62-63 یونہی بے آبرو ہو کر کتاب کے کونے میں چہرہ چھپا کر بیٹھا نہیں ہوا۔ اس میں عوام کا بھی ہاتھ ہے۔
جمہوریت میں عوام پہ ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے رہنما کو پرکھیں اور احتیاط سے چنیں۔ کیوںکہ ان چنے ہوئے رہنماؤں نے ہی انکے لئے اور ریاست کے لئے راستہ چننا ہے۔ پاکستان میں انتخابات کی آمد آمد ہے۔ رہنما چننے کا وقت آیا چاہتا ہے۔ ووٹرز کو اپنے رہنماؤں میں، چاہے وہ صوبائی ہوں یا قومی ، چند بنیادی خصوصیات لازمی دیکھنی چاہئیں جنکی بنیاد پر وہ ان کے پیچھے چلنے پہ تیار ہوں۔
ہنری کسنجر نے اپنی کتاب’’لیڈر شپ‘‘میں لکھا ہے کہ رہنما دو محوروں کے سنگم پر کام کرتے ہیں: ماضی اور مستقبل کے درمیان اور اپنے لوگوں کی اقدار اور خواہشات کے درمیان۔ اس کے کردار میں عوام کی رہنمائی کرنے، انکو آگاہی دینے اور انہیں متاثر کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ وہ اتنا دور اندیش ہو کہ معاشرے کے مسائل کی درست تشخیص کر سکے، مقاصد کا تعین کر سکے، اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے معاشرے کی اہلیت کا اندازہ لگا کر بر وقت تبدیلی کی مناسب حکمتِ عملی وضع کر سکے۔ اور اس حکمتِ عملی کو عمل میں لانے کے لئے خود میدان میں موجود ہو۔ اس میدانِ عمل میں اس کو رکاوٹوں، خطرات اور حریفوں کے ماحول میں حوصلہ مندی کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ در اصل رہنما قحط الرجالی، مسابقت اور بے یقینی کے حالات کے مشاہدے اور مجاہدے کے بعد جس نتیجے پر پہنچتا ہے وہ اسکی حکمتِ عملی کا محرک ہوتا ہے۔
لیڈر کو ہر موقع پر فیصلہ کن اور اہم فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ یہ اہلیت و قابلیت کا کڑا امتحان ہوتا ہے۔ اکثر رہنماؤں کو بر وقت فیصلوں کے لئے صحیح اور وسیع معلومات کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں، "جبلت کا استعمال اور اندازہ لگانے کی قوت کا ہونا ضروری ہوتا ہے"۔کسنجر نے خوب کہا ہے کہ جمود کے دور میں قیادت انتظامی ہوتی ہے، بصیرت و دور اندیشی والی نہیں۔ لیکن، بحران کے وقت، دو طرح کے تبدیلی کے لیڈروں کی ضرورت ہوتی ہے: سیاستدان اور پیغمبر۔
سیاستدان تبدیلی کو قبول کرتے ہیں لیکن اپنے معاشروں کے جوہر کو برقرار رکھتے ہیں اور انہیں ارتقائی عمل کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر وہ موجودہ اداروں اور اقدار سے بالاتر ہو جاتے ہیں۔ یعنی اقتدار سے چمٹے نہیں رہتے۔ کسنجر نے کنارڈ ایڈنوئر، چارلس ڈیگال، رچرڈ نکسن، انورسادات، لی کیوان یو اور مارگریٹ تھیچرکی مثالیں دی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کسنجر کو اس موقع پر علامہ اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی مثال بھی پیش کرنی چاہئے تھی۔ علامہ اقبال کی مستقبل کے تصور کی صلاحیت اور قائدِ اعظم کی کامیاب حکمتِ عملی وضع کرنے اور لاگو کرنے کی استعداد کسی بھی مندرجہ بالا رہنماؤں سے کم نہیں۔