• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف کے ماہرین کی ٹیم پاکستان پہنچ گئی

---فائل فوٹو
---فائل فوٹو

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ماہرین کی ٹیم پاکستان پہنچ گئی۔

ذرائع کے مطابق  آئی ایم ایف کے ماہرین آج سے وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر کے حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔

آئی ایم ایف کے ماہرین ٹیکس ریونیو اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے مشاورت کریں گے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ تکنیکی ماہرین کا وفد پاکستانی حکام سے تقریباً ایک ہفتے تک ٹیکس پالیسی پر مشاورت کرے گا۔

ایف بی آر اور آئی ایم ایف تیکنیکی وفد ٹیکس پالیسی میں ترامیم کے لیے اقدامات کریں گے۔

ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق ٹیکس پالیسی میں ترامیم کا مقصد ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہے، ماہرین کی مشاورت کا مقصد زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنا ہو گا۔

ریٹیلرز کے لیے اسکیم کا بنیادی ڈھانچہ بھی تیکنیکی وفد کے ساتھ مل کر بنایا جائے گا، مزید 10 لاکھ لوگ ٹیکس نیٹ میں لا کر ٹیکس دہندگان کی تعداد 60 لاکھ تک پہنچائی جائے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تیکنیکی وفد کے ساتھ مل کر ٹیکس پالیسی میں ترامیم تیار کی جائیں گی، تیار کی جانے والی ٹیکس ترامیم آئندہ بجٹ میں نافذالعمل ہوں گی، ٹیکس پالیسی اور انفورسمنٹ میں بہتری کے لیے تیکنیکی وفد معاونت کرے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 15 فیصد تک بڑھانے کے لیے ترامیم کا فیصلہ کیا جائے گا، آئی ایم ایف کی شراکت داری سے کمپلائنس امپرومنٹ پلان مارچ 2024ء تک تیار کیا جائے گا۔

کمپلائنس امپرومنٹ پلان کے تحت رسک رجسٹرڈ رپورٹ اور ڈیش بورڈ تیار کر لیا گیا ہے، ایف بی آر فیلڈ فارمیشنز کی جانب سے ٹیکس دہندگان کی معلومات پر رسک رجسٹرڈ تیار کیا جائے گا، ایف بی آرفیلڈ فارمیشنز کو ٹیکس دہندگان کی معلومات بینکوں،نادرا اور ایف بی آر انٹیگریشن سے ملیں گی۔

ٹیکس نیٹ سے باہر لوگوں کے لیے فہرست مرتب کی جائے گی جو آئی ایم ایف سے بھی شیئر ہو گی، ٹیکس پالیسی میں ترامیم کے ذریعے کمپلائنس رسک مینجمنٹ کو ٹیکس پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا، کمپلائنس رسک مینجمنٹ کی تیاری میں ایف بی آر اور آئی ایم ایف شراکت داری سے کام کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیکس ایڈمنسٹریشن اور ٹیکس پالیسی کو الگ کرنے کے لیے ایف بی آر تکنیکی وفد سے آج سے مذاکرات ہوں گے، آئی ایم ایف کے ماہرین کی ٹیم ایک ہفتے تک پاکستان میں قیام کرے گی، ٹیم کا موجودہ قرض پروگرام اور اس کی قسط سے کوئی تعلق نہیں۔

تجارتی خبریں سے مزید