سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے دونوں شوکاز سپریم کورٹ میں چیلنج کیے ہیں اور کیس اوپن کورٹ میں چلانے کی استدعا کی ہے۔
درخواست میں وفاقی حکومت، صدرِ مملکت اور جوڈیشل کونسل کو فریق بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دوسرا شوکاز جاری کرنے سے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل پر اعتراضات کا فیصلہ ضروری تھا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ عدلیہ کی خود احتسابی بلا شبہ جوڈیشل انسٹی ٹیوشن کی بحالی کے لیے ضروری ہے، قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اصول طے ہوا کہ جج سے بھی قانون کے تحت برتاؤ کیا جائے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے درخواست میں کہا ہے کہ میں سابق سی سی پی او حمید ڈوگر تبادلہ کیس سننے والے بینچ کا حصہ رہا، اس کیس میں 90 دن میں انتخابات کا معاملہ زیرِ بحث آیا اور دو رکنی بینچ نے انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس لینے کی گزارش کی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے درخواست میں کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ازخود نوٹس لے کر 9 رکنی بینچ تشکیل دیا، انتخابات کیس میں حال ہی میں جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اضافی نوٹ لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے برابر ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ بات ثابت ہے کہ اُس وقت کی وفاقی حکومت نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات میں تاخیر کی، ازخود نوٹس لینے کی درخواست پر میرے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی گئی، مہم چلانے والوں میں سابق کابینہ ممبران شامل تھے۔
جسٹس مظاہر نقوی کا مؤقف ہے کہ ناصرف میرے خلاف میڈیا ٹرائل ہوا بلکہ پریس کانفرنسز میں تضحیک آمیز بیانات دیے گئے، اس پس منظر میں بار کونسلز خصوصاً پاکستان بار کونسل نے شہباز شریف اور کابینہ ارکان سے ملاقات کی، اس ملاقات کو 21 فروری 2023ء کو اخبارات نے رپورٹ کیا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے درخواست میں کہا ہے کہ ملاقات کے فوری بعد بار کونسلز ممبران نے مجھ پر مِس کنڈکٹ کے الزامات لگائے، میرے خلاف جوڈیشل کونسل میں بھیجی گئی شکایات سیاسی مقاصد کے تحت جمع کروائی گئیں۔