• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎‎ہماری حالیہ مفاداتی سیاست کے پس منظر میں ہمارے کچھ نامور معزز صحافیوں اور دانشوروں کی طرف سے ایک مطالبہ پیہم دہرایا جا رہا ہے کہ پیچھے جو کچھ بھی ہوا ،جس کسی نے بھی زیادتیاں کیں، مٹی پاؤ پالیسی کے تحت ان سب کو بھلا دینے اور معاف کردینےکا راستہ اپنانا چاہیے بصورتِ دیگر اسے انتقام سمجھا جائے گا اور انتقام بڑی بری چیز ہے کہ اس کا تسلسل کہیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔جب آفتاب ِ صحافت یہ فرما رہے ہوں کہ آپ اپنی سیاسی مخالفت کرنیوالے بھائیوں کو اگر برادران یوسفؑ کہتے ہیں تو پھر یوسف ؑجیسے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے گویا ہوں کہ ’’آج تم سے کوئی بدلہ نہیں،سب کیلئے معافی ہے ‘‘۔ فتح مکہ کی مثالیں دی جارہی ہیں کہ اپنوں سے کس طرح معافی تلافی کی جاتی ہے وغیرہ ۔اور تو اور اس میں ہمارے ممدوح ذہین و فطین حسین حقانی صاحب بھی شامل ہیں جو ربع صدی سے اپنا مشن بتا رہے ہیں کہ ماضی کو دفن کردیا جائے اور یہ کہ یہاں مسئلہ ”قیادت کے بحران‘‘کا نہیں ہے’’برداشت کے بحران“کا ہے اس سلسلے میں کبھی وہ امریکا کی مثالیں دیتے ہیں اور کبھی فرانس اور ہندوستان کی، کبھی جما ل عبدالناصر اور صدر انور سادات کی شخصیات سامنے لاتے ہیں اور مدعا ان کا یہ ہے کہ پاکستانیوں کیلئے ماضی محض ایک گھناؤنا راز ہے جسے کسی تہہ خانے میں دفن کردینا چاہیے۔ ان تمام بڑے دل والے معززین کی ایسی محبت بھری باتیں سنتے پڑھتے ہوئے یہ”تنگ دل“ درویش سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اس تمام تر معافی تلافی کی ہوائیں چلانے کے پیچھے اصل مدعا کیا ہے؟ اور یہ سب نیک آوازیں بیک وقت بالخصوص انہی دنوں کیوں اٹھ رہی ہیں؟بالفرض ان نیک تمناؤں کی مطابقت میں معافی تلافی کے تحت مٹی پاؤ سکیم کا میاب ہو جاتی ہے تو یہاں محبتوں کا ایسا کون سا زمزمہ پھوٹ پڑے گا جس کی شان میں ہمارے الطاف حسن قریشی صاحب کو قصیدہ لکھنا پڑے حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ معافیوں تلافیوں کے باوجودیار لوگوں کی اصلیتیں نہیں بدلتیں ۔

درویش کوتین مرتبہ منتخب ہونے والا اس لیے پسند ہے کہ یہ شخص ہمیشہ ملک و قوم کی بھلائی کا سوچتا ہے کمزور طبقات کیلئے برابری کی بات کرتا ہے مذہبی چورن بیچنے سے احتراز کرتا ہے اور ہمسائیوں بالخصوص انڈیا کے ساتھ دوستی اور تجارتی تعلقات تک بڑھانا چاہتا ہے مگر وہ بھی ایک موقع پر تو بہت ہی برا لگا جب دن رات زہر اگلنے والے انسانیت سے گرے ہوئے شخص کے اسٹیج سے گرنے پر وہ اس مغرور اور گھمنڈی کے گھر چلا گیاحالانکہ اسٹیج سے گرنا اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا جتنا انسانیت سے گرنا‎،اگر آپ اس شخص کی عزت افزائی کررہے ہیں تو بالواسطہ طور پرغرور و تکبر کو پروموٹ کررہے ہیں ۔جب یہ شخص مذہبی، سیاسی اور سماجی منافرتوں کی گندگی پھیلا رہا تھااور ہے ’جمالو‘ والوں کے ریکارڈ توڑ رہا تھا اس وقت آپ معززین میں سے کس نے اسے لگام ڈالنے کی کوشش کی؟ اور وہ شخص آپ لوگوں کی لگام پہننے کیلئے تیا ر کب تھا؟ اور آپ کو آئندہ امید کاہے کی ہے اور کس برتے پر؟ بدتمیزی و بد تہذیبی کئی سر پھرے کرتے ہیں لیکن اس کی بھی کچھ حدود تو ہوتی ہونگیں جبکہ یہ شخص تو اول و آخر تمام حدود قیود کو پامال کرتا چلاآرہا ہے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جو زبان اس شخص نے برتی سو برتی اس نے تو ہمارے بگڑے کلچر میں اگر کوئی کمی رہ گئی تھی تو اس کی تمام حدود بھی پار کردیں اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی، لند ن چھوڑ مدینہ شریف میں بھی ِ، شرفا کے اوپر کونسی گندگی ہے جو نہیں پھینکی گئی؟‎فوجی ڈکٹیٹروں کے خلا ف یہ درویش نو عمری سے لکھتا بولتا چلا آرہاہے لیکن کسی آرمی چیف کو نکال باہر پھینکنے کے لیے 9مئی کو جو اوچھا ہتھکنڈا پوری پلاننگ اور ذمہ داری کے ساتھ اس شخص نے مہلک ہتھیار یاوار کی طرح آزمایا اس پر مٹی ڈالنے کا مطلب ہوگا کہ اس ملک میں اگر کہیں ڈسپلن کی کوئی رمق بچی ہے تو اس بدنصیب ملک کو اس سے بھی فارغ کردیا جائے ‎۔ کھلاڑی پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے کہ مجھ پر بڑا ظلم ہوا ہے جمہوریت پر وار ہوا ہے بندہ پوچھے کون سا وار اورکس جمہوریت پر؟کیا یہ موصوف وہی نہیں جو انہی بیساکھیوں کے سہارے کندھوں پر سوار ہوا تھا؟ اور خا لصتاًآئین کی عین مطابقت میں پارلیمنٹ نے فارغ کیا۔‎مظلوم تو وہ تھا جو دو تہائی حاصل کرتا دکھتا تھا اور ماقبل دو تہائی اکثریت والی اسمبلیوں سے یک بینی و دو گوش آئین کا کھلواڑ کرتے ہوئے نکال باہر پھینکا گیاوہ شریف انسان زہر جیسے دکھوں بھرے پیالے صبر اور حوصلے کے ساتھ پی گیا مگر کبھی آئین و جمہوریت یا انسانی اقدار پر آنچ نہ آنے دی ،آپ لوگ کیوں نہیں چاہتے کہ استقامت دکھانے والوں کو ان کے صبر کا پھل ملنا چاہیے۔ جوجینوئن لوگ اور پارٹیاں ہوتی ہیں وہ یوں خزاں کے پتوں کی طرح نہیں جھڑتے۔ میں میں کرنے والے آج آخر کیوں اس پوائنٹ پر آچکے ہیں کہ مائنس ہونا بھی قبول ہے اور پھینکا ہوا چاٹنا بھی ؟ سچ تو یہ ہے کہ انسان کو فرعون یا ہٹلر بنتے وقت اس کے مضمرات کا ادراک بھی کرلینا چاہیے بصورت دیگر مٹی پاؤ کی بجائے مکافات ِ عمل بھگتنے کیلئے بھی ہمت ہونی چاہیے ‎محترم حقانی صاحب! آپ امریکا، فرانس، مصر اور انڈیا کی مثالیں دیتے ہوئے جرمنی کو بھی بیچ میں لے آئیں جرمن بھی بڑےجمہوری الذہن لوگ ہیں ، کیا آپ انہیں یہ مشورہ دیں گے کہ ہٹلر کو معاف کر دیں؟ وہ آپ کا منتخب چانسلر تھا اس سے جو بھی غلطیاں ہوئی ہیں آپ لوگ اس پر مٹی ڈالیں اور اسکا نام احترام سے لیں؟ہم روز فوجی ڈکٹیٹروں کو کوستے ہیں ضرور کوسیں جبر کے جو بھی مرتکبین ہیں تاریخ انہیں معاف کرسکتی ہے نہ روشن ضمیر انسان لیکن جو سویلین ہوتے ہوئے جمہوریت کے لبادے میں یونیفارم والوں سے بھی بدتر ثابت ہوئے ہوں کم از کم اس درویش کا ضمیر تو کبھی یہ قبول نہیں کر سکتا کہ احرام میں لپٹےفریبیوں کو معاف کر دے۔

تازہ ترین