• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بہرحال یہ وہ اورینٹل کالج بالکل نہیں جس کو ہم نے 1972ء میں دیکھا تھا اور پھر بعد میں بھی جب ہم گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے کبھی کبھار وہاں جایا کرتے تھے۔ گورنر پنجاب جناب انجینئر محمد بلیغ الرحمان کو چاہئے کہ ایک مرتبہ اچانک اس تاریخی کالج کا دورہ کریں، دروازے ٹوٹے ہوئے ، چھتیں خراب، جگہ جگہ گند اور اینٹیں پڑی ہوئی ہیں۔ دفتر ایسا لگتا ہے جیسے صدیوں پرانے کسی ڈاک خانے کا کائونٹر ہو۔ لکڑی کے شہتیروں والی چھتیں آج بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، خصوصاً شیرانی ہال کی چھت بہت خوبصورت ہے۔ اس ہال کا قدیم نام مینار ڈیال تھا۔اورینٹل کالج کے مرکزی دروازے کے ساتھ حضرت سید شہاب الدین شاہ بخاریؒ پنج پیر کا خوبصورت مزار مبارک اور مسجد ہے، بہت بڑی روحانی شخصیت تھیں۔ کالج کے طالب علموں کی اکثریت یہاں نماز اور دعا کے لئے آتی ہے۔ بہرحال اس تاریخی کالج کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے ۔

اورینٹل کالج برصغیر میں مشرقی علوم کا غالباً پہلا اور قدیم تعلیمی ادارہ ہے۔ دکھ اورافسوس کی بات یہ ہے کہ اس کالج کا نام اور لوگو بالکل اس تاریخی کالج کے شایان شان نہیں بنایا گیا۔ ایک ٹین کے اوپر اس کا نام اور لوگو لگا ہوا ہے۔ اس تاریخی کالج کا نام اس کی مکمل ہسٹری کالج کی کسی دیوار پر خوبصورت انداز میں لگی ہونی چاہئے۔ ہمیں اس تاریخی کالج میں جا کر یہ احساس ہوا کہ اب اس کالج کی قدیم اور تاریخی عمارت سے پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ اور کالج انتظامیہ دونوں کو کوئی دلچسپی نہیںرہی۔ شاید دونوں انتظامیہ اس انتظار میں ہیں کہ یہ عمارت خود بخود گر جائے پھر کوئی شاپنگ مال بنا دیا جائے کیونکہ یہ کالج انار کلی کے انتہائی قریب ہے۔ ویسے تو اس کے ساتھ ڈی مونٹ مورسینی کالج آف ڈینٹیسٹری کا بوائز اور گرلز ہوسٹل دونوں ہی ہیں۔ ڈی مونٹ مورسینی کالج آف ڈینٹیسٹری اور پنجاب ڈینٹل کالج کا آغاز بھی ہیرا منڈی ہی سے ہوا تھا۔ بلکہ اب تک یہ کالج اور اسپتال وہیں ہے۔ قریب ہی لیڈی ولنگڈن اسپتال بھی ہے۔ دوسری طرف سید میٹھا ٹیچنگ اسپتال بھی ہے۔اورینٹل کالج کا اگرچہ آغاز ہیرا منڈی تحصیل بازار اور حضرت سید مٹھا (اصل نام سید معین الدینؒ تھا،نے اپنی شیریں مقالی اور خوش اخلاقی کی وجہ سے سید مٹھا کا خطاب پایا۔ لاہوریئے انہیں حضرت سید مٹھا کے نام ہی سے جانتے ہیں۔ بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے، 661 ہجری میں وفات پائی اور اس جگہ دفن ہیں۔ جہاں ان کا مزار مبارک ہے)کے علاقے میں واقع دربار دھیان سنگھ/ ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت یا پھر کسی مغل حویلی سے ہوا تھا۔ یہ مزار مبارک 784 برس سے اس جگہ پر ہے۔ اس کے بعد یہ کالج لوہاری دروازے کھڑک سنگھ کی حویلی جہاں اس کے سامنے کبھی نہال چند کا مندر تھا، وہاں منتقل ہوگیا۔ لوہاری بھی بڑا تاریخی دروازہ ہے۔ اس کے اندر کئی یادگار عمارتیں ہیں۔ خواجہ سلمان رفیق، خواجہ سعد رفیق اور ان کے والد خواجہ محمد رفیق شہید کا تعلق لوہاری دروازے سے ہے۔ ہم کئی مرتبہ ان کے مکان پر طالب علمی کے زمانے میں جا چکے ہیں۔ پھر یہ کالج 1873ء میں انار کلی کی ایک کرائےکی عمارت میں آگیا۔ اس کے بعد 1876ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کی موجودہ عمارت میں آگیا۔ یہ کالج کئی عمارتوں سے ہوتا ہوا پھر موجودہ عمارت میں آیا۔ آپ دیکھیں کہ اس زمانے میں کس طرح ایک تعلیمی ادارے دوسرے تعلیمی ادارے کی ترقی و فروغ میں مددگار ثابت ہوتے رہے اور کس طرح اس دور کے دو انگریز بابوئوں نے ڈاکٹر لائنٹنز اور اے سی وولز نے اورینٹل کالج، گورنمنٹ کالج اور پنجاب یونیورسٹی بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا ۔ آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ ڈاکٹر جی ڈبلیو لائنٹنز بیک وقت گورنمنٹ کالج لاہور ، اورینٹل کالج کے پرنسپل اور پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار بھی تھے۔ کیسے قابل لوگ تھے جوبیک وقت تین تین اداروں کو بخوبی چلا رہے تھے اور پھر یہ تینوں تعلیمی ادارے برصغیر کے بہترین ادارے بن گئے۔ اورینٹل کالج 1877ء سے 1912ء تک گورنمنٹ کالج کی دو منزلوں میں رہا اور 1913ء سے 1925ء تک ایک کانونٹ اسکول کی کسی پرانی عمارت میں رہا، یہ کالج کچھ عرصہ انار کلی میں کسی کرائے کی عمارت میں رہا۔ ایک دور تھا کہ اورینٹل کالج، گورنمنٹ کالج سے بہت آگے تھا۔ مگر بعد کے حالات خصوصاً قیام پاکستان کے چند سال بعد اس کا معیار وہ نہ رہا جو ڈاکٹر جی ڈبلیو لائنٹنز اور اے سی وولز، علامہ اقبالؒ، سر اورل اسٹائن، سرتھامس آرنلڈ، حافظ محمود خان شیرانی، مولانا محمد حسین آزاد، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا، ڈاکٹر محمد باقر، ڈاکٹر مولوی محمد شفیع، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر آفتاب اصغر، ڈاکٹر شہباز ملک، حفیظ تائب، ڈاکٹر سید محمد اکرم، ڈاکٹر ظہور احمد اظہر، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، سید وقار عظیم اور کئی دیگر کے دور میں رہا۔

عزیز قارئین! آپ کو یہ پڑھ کر بھی حیرت ہوگی کہ اورینٹل کالج کی کلاسیں کبھی حضوری باغ میں بھی ہوتی رہی ہیں اور اسکے طالبعلم بادشاہی مسجد کے حجروں میں کچھ عرصہ رہائش پذیر رہے تھے جس جگہ آج علامہ اقبالؒ کا مزار ہے اس جگہ پر وہ اورینٹل کالج کے ہوسٹل وارڈن کے طور پر رات کو چارپائی پر سوتے بھی رہے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اورینٹل کالج اور گورنمنٹ کالج دونوں تعلیمی اداروں میںپڑھایا ہے۔ کتنے خوش نصیب وہ طالب علم تھے جو علامہ اقبالؒ سے علم حاصل کرتے رہے۔ کوئی یقین کریگا کہ کبھی یہاں پر فزکس، ریاضی، انجینئرنگ، اقتصادیات، فلسفہ، آیورویدک اور دھرم شاستر کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ کبھی دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ سنسکرت بھی پڑھائی جاتی تھی۔ اس تاریخی کالج کی مرکزی عمارت کے پچھلی طرف دو ہوسٹلز ہیں۔ ایک ہوسٹل کا نام MONTMORENOY اور دوسرا ہوسٹل اے سی وولز کے نام پر ہے۔ مونٹ مورسینی ہوسٹل میں لا کالج کے طلبا اور وولز ہوسٹل میں اورینٹل کالج کے طلبا رہتے تھے۔ یہ دونوں ہوسٹل بالترتیب 1929اور 1930ء میں بنے تھے۔ اورینٹل کالج کی موجودہ عمارت کا افتتاح دسمبر 1925ء میں میلکم بیلی نے کیا تھا۔ لا کالج 1975ء تک یہاں رہا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین