• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینئر صحافی و کالم نگار عرفان صدیقی کا تعلق شعبہ تعلیم سے رہا ہے۔ اسی وجہ سے وہ کئی نسلوں کے استاد رہے ہیں اور اپنی کاٹ دار تحریروں کے سبب ہی وہ میاں نواز شریف کی نظروں میں آئے اور پھر وہ میاں نواز شریف کے قریب ترین ساتھیوں میں شامل ہوگئے ، لیکن میاں نواز شریف کی قربت نے نواز شریف کے سارے مخالفین کو عرفان صدیقی کا مخالف بھی بنادیا تھا، خاص طور پر عمران خان نواز شریف کے ان مخالفین میں شامل تھے جو عرفان صدیقی کے سخت مخالف ہوچکے تھے ،پھرجب عمران خان کی ملک میں حکومت آئی تو اگلے چند دنوں بعد عرفان صدیقی گرفتار ہوگئے ، عرفان صدیقی کی پیرانہ سالی میں گرفتاری اس لیے بھی حیران کن تھی کہ جس صحافی نے صرف قلم سے مخالفین کو شکست دی ہو اس کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہوگا ،لیکن جب مقدمے کی تفصیلات منظر عام پر آئیں تو گرفتار کرنے والوں کا قد بہت چھوٹا محسوس ہوا کیونکہ ان کو اپنے بیٹے کا مکان جو کرائے پر اٹھایا گیا تھا ، اس کا کرائے پر دینے کے بعد اس کا ایگریمنٹ تھانے میں جمع نہ کرانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا ، بالکل اسی طرح جس طرح میاں نواز شریف کو بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا تھا ، پھر عرفان صدیقی کو بیٹے کے گھر کو کرائے پر دینے کے جرم میں ضمانت نہیں مل رہی تھی ۔ جب بھی انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا وہ ایک قلم لہراتے ہوئے عدالت میں پیش ہوجاتے ، صرف اتنا ہی نہیں عرفان صدیقی کو اس جرم میں سزائے موت کے قیدیوں کی چکی میں رکھا گیا ،جہاں سزائے موت کے قیدی بھی انھیں ترس بھری نگاہوں سے دیکھا کرتے ،اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے جب عرفان صدیقی کی گرفتاری کا مسئلہ اٹھایا گیا تو انھوں نے اس گرفتاری سے اسی طرح لاعلمی کا اظہار کیا جس طرح جب ڈالرکے مقابلے میں روپیہ تیزی سے نیچے جارہا تھا اور وہ اپنے وزیر خزانہ اسد عمراور آئی ایم ایف کے مذاکرات سے لاعلم تھے ، عمران خان بطور وزیر اعظم ایسے درجنوں واقعات سے لاعلمی ظاہر کرچکے ہیں جو ان کے علم میں تھے لیکن وہ چین کی بانسری بجاتے ہوئے شاہی محل میں آرام فرما ہوتے۔بہرحال وقت کا پہیہ گھوما اور عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اور پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی تو عمران خان کا احتساب شروع ہوا لیکن عمران خان عوامی طاقت کے نشے میں نومئی کا واقعہ کرا بیٹھے جس کے بعد ریاست حرکت میں آئی۔اس کے بعد جب عمران خان کے وکلاء کی ٹیم نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں مزید مسائل سے بچنا ہے تو ہر حال میں گرفتاری دینا ہوگی بصورت دیگر انھیں اور پارٹی کو ناقابل یقین حد تک نقصان پہنچے کا اندیشہ ہے اور پھر جب ہر طرف سے عمران خان کو یقین ہوچلا کہ اب ان کے قید میں جانے کے دن قریب آچکے ہیں تو انھوں نے اپنے وکیلوں، چاہنے والوں اور بااثر ارکان پارلیمنٹ کو جمع کیا اور بتایا کہ اب انھیں گرفتاری پیش کرنا پڑیگی ورنہ مسائل اور بڑھ جائیں گے لہٰذا جیل میں ان کیلئے جہاں سے بھی اور جیسے بھی سہولیات حاصل کی جاسکتی ہوں، حاصل کی جائیں۔ لہٰذا عمران خان گرفتار ہوگئے لیکن اب جو تفصیلات ان کو جیل میں ملنے والی سہولتوں کی منظر عام پر آئی ہیں، اس نے آدھی سے زیادہ پاکستانی قوم کو عمران خان جیسی سہولیات کے ساتھ جیل میں جانے کا شوق پیدا کر دیا ہے ، جی ہاں جب عمران خان کے لیے جیل کے تین کمروں کی دیواریں تو ڑ کر ایک کمرہ بنادیا گیا کہ وہ آرام سے ورزش بھی کرسکیں اور بڑے کمرے میں مزے سے رہ سکیں جہاں انھیں ہیٹر اور کولر کی سہولیات بھی حاصل ہوں ، خدمت کیلئے دو قیدی بطور ملازم ہر وقت میسر رہیں ، ہر روز صبح دو اخبارات اور ٹی وی دیکھنے کی سہولیات بھی حاصل ہوں ، کھانے میں مٹن سے کم کچھ نہ ملے جبکہ گھر کا کھانا لانے کی بھی اجازت ہو ، غرض عام آدمی کو روزمرہ کی زندگی میں اتنی سہولیات نہیں ہیں جتنی عمران خان کو جیل میں رہ کرحاصل ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں امیر و غریب ، عام آدمی اور بااثر آدمی کے لیے ہر چیز مختلف ہے ،لیکن کوئی سننے والا نہیں ، اب عام انتخابات قریب ہیں ،سیاسی جماعتیں ارکان پارلیمنٹ کے لیے انٹرویو کررہی ہیں لیکن ٹکٹ ہمیشہ کی طرح امیر اور بااثر افراد کو ہی مل رہے ہیں ،پارٹی کیلئے قربانیاں دینے والے ،اپنی جمع پونجی پارٹی پر نچھاور کرنے والے کارکنوں کو اب بھی دھتکارا جارہا ہے کیونکہ پارٹی کارکنان کو صرف مشکل وقت میں استعمال کیا جاتا ہے انہیں رکن پارلیمنٹ نہیں بنایا جاتا کیونکہ یہ پاکستان ہے یہاں طاقت اور پیسہ ہی سب کچھ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین