عام انتخابات اور انتخابی مہم کے دوران کیا ہونے والا ہے؟ اس کا اندازہ عام حالات میں نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ تحریک انصاف الیکشن کی نہیں ریاست کے ساتھ تصادم کی تیاریوں میں مصروف ہے جسے وہ آخری معرکہ کے طور پر لڑے گی اور جس کا آغاز تحریک طالبان کی جانب سے دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کی صورت میں کیا جا چکا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں اس سازش سے باخبر ہیں کہ انتخابی عمل کو ثبوتاژ کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر دہشتگردی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس کے سدباب کی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اہم سیاسی شخصیات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے،اگلا نشانہ مولانا فضل الرحمٰن، نواز شریف، شہباز شریف اور ان کی فیملیز، آصف زرداری بلاول بھٹو اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، بلوچستان، سندھ اور کے پی کے کی اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ راہنماؤں کے علاوہ تحریک انصاف کے "کارناموں" سے انحراف کرکے علیحدگی اختیار کرنے والے رہنماؤں اور ان کی نئی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کو ہدف بنایا جاسکتا ہے۔اس بارے میں بھی خبردار ہیں کہ عمران خان کا آئیندہ قدم کس جانب اٹھے گا اور اس قدم کے پیچھے کیا محرکات ہوں گے۔ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کے پی کے سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کا تخریب کار گروہ افغان دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر دنیا بھر کی 23 دہشتگرد تنظیمیں دنیا بھر میں دہشتگردی کی وارداتوں میں مصروف عمل ہیں جن میں 17 صرف پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتوں پر معمور ہیں جو پاکستان سے نفرت کرتے ہیں۔انہی میں سے کچھ شرپسند عناصر نے 9 مئی کی بغاوت میں شرکت کی تھی اور فوجی تنصیبات پر حملوں میں حصہ لیا تھا۔افغانستان کی سرزمین سے دہشتگردی کا نشانہ بننے والے ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے اور پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کرنے میں تحریک طالبان پیش پیش ہے جس کی تمام ترہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ ماضی میں عمران خان کے قریب ترین ساتھی پرویز خٹک اپنی طویل رفاقت اور قربت کے تجربہ کی بنیاد پر عمران خان کے اطوار و خصائل کے حوالے سے انتہائی خودغرض، شرپسند اور مقاصد کے حصول کے لئے چہرے بدلنے کا عادی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں وہ جمہوریت کے چہرے میں انتہائی آمریت پسند شخصیت اور دوہرے کردار کے حامل ہیں اور وہ عوامی طاقت اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔ان کے کردار پر بات کی جائے تو ان کے قرب میں رہنے والی خواتین کی جانب سے تحریر کی گئی دو کتب اور کئی آ ڈیو لیکس نے عمران خان کے ریاست مدینہ کے بیانیہ، مذہبی، متقی، باکردار اور ایماندار ہونے کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔جبکہ گھر کے بھیدیوں نے القادر ٹرسٹ کے نام پر 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کے حقائق بیان کرکے ان کے "ایمانداری" کا بھانڈہ پھوڑدیا۔ "ایمانداری" کے اس مظاہرے میں انہیں اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی، فرح گوگی، شہزاد اکبر اور بعض اہم سرکاری شخصیات ان کی مددگار اورہمنوا تھیں۔ حالات بدلے، عمران خان کی سلطنت اختتام کو پہنچی، رفتہ رفتہ حقائق سامنے آنے لگے، حساب کتاب شروع ہوا تو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے پاکستان کے قومی خزانہ میں بھیجی جانے والی 190 ملین پاؤنڈ سٹرلنگ کی خطیر رقم غائب پائی جس پر معاملہ کی چھان بین ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ رقم طے شدہ منصوبے کے تحت قومی خزانے کی بجائے کسی اور ادارے کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دی گئی ہے اور یہ سب اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے حکم پر ہوا تھا۔آنے والی حکومتوں نے عمران خان اور ان کے شریک ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کرکے تحقیقات قومی احتساب بیورو کے حوالے کردیں۔تحقیقات کی ابتداء میں عمران خان کی کابینہ کے تقریباً تمام اراکین نے اس حرکت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا عمران خان نے دھوکہ دہی سے بند لفافے کو کابینہ کے اجلاس پیش کرکے اس کی منظوری لی تھی۔ 9؍مئی کے دلخراش سانحہ نے جہاں قوم کو جھنجھوڑ دیا وہاں عمران خان کا اصل چہرہ بھی بے نقاب کر دیا اوران کا وہ مقصد عوام کے سامنے آگیا جس کے حصول کے لئے وہ پاکستان اور اس کی سلامتی کے اداروں کے خلاف غداری اور بغاوت کا ارتکاب کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اورعوام نے دیکھا کہ انہوں نے پاکستان کے خلاف بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔عمران خان کے بچھڑے ہوئے ساتھیوں کا خیال ہے کہ رفتہ رفتہ عمران خان کے چہرے سے نقاب ہٹنے کے بعد باشعور طبقہ ان دے علیحدہ ہو رہا ہے تاہم وہ لوگ جن میں ہدائت پانے کی رمق ہے، حق کی جانب لوٹ رہے ہیں اور وہ جنہیں اندھیروں میں سیدھا راستہ سجھائی نہیں دیتا، دلوں پر تالے لگے ہیں اور ناقابل اصلاح ہیں، گمراہوں کے گروہ میں شامل رہیں گے لیکن جب ہوش آئے گا تو سب کچھ لٹ چکا ہوگا۔