• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منتخب اسمبلیوں کے ارکان عوام کے رہنما ہوتے ہیں۔ قواعد و ضوابط کی پاس داری کے حوالے سے ان سے بجا طور پر ایسے طرز عمل کی توقع رکھی جاتی ہے جس سے وہ اپنے ہم وطنوں کے لئے قابل تقلید مثال بن سکیں۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان میںاب تک ایسا کم ہی نظر آتا ہے۔ بینکوں سے خطیر رقوم قرض لے کر واپس نہ کرنا، ٹیکس ادا نہ کرنا ، بجلی گیس پانی اور ٹیلی فون کے بلوں کی عدم ادائیگی کو معمول بنالینا یہ سب اس ملک میں عام ہے ۔ ایسا ہی ایک مظاہرہ گزشتہ روز ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ کے موقع پر ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے پارلیمنٹ کے ارکان کیلئے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ جمعہ سات فروری مقرر کی تھی۔تاہم اس تاریخ تک قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے 422 ارکان نے پچھلے سال کی آمدنی کے گوشوارے ایف بی آر کی فیلڈ فارمیشنوں میں جمع نہیں کرائے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک بھر کے عوامی نمائندوں کو ٹیکس گوشوارے جمع کرانے میں سہولت فراہم کرنے کیلئے جمعہ کے روز چیئرمین ایف بی آر کی ہدایت پر خصوصی انتظامات کئے گئے تھے۔ پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد، صوبائی اسمبلیوں اور ارکان پارلیمنٹ کے لاجزمیں ٹیکس گوشوارے پر کرنے میں مدد فراہم کرنے کیلئے ماہرین پر مشتمل ٹیمیں صبح سے شام تک کیلئے متعین کی گئی تھیں تاکہ جو ارکان خود یہ کام نہ کر سکتے ہوںوہ ٹیکس گوشوارے ماہرین کی مدد سے مکمل کرلیں۔ لیکن جمعہ کی شام تک صرف 78 ارکان نے گوشوارے جمع کرائے اس طرح سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے کل 1172 میں سے 422 ارکان نے آخری تاریخ کو بھی ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے۔ ایف بی آر کے اعلان کے مطابق گوشوارے جمع نہ کرانے والے ارکان کو نادہندہ قرار دیا جائیگا اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ تاہم ان گوشوارے جمع نہ کرانے والے ارکان کا موقف عام طور پر یہ ہے کہ ان کا ٹیکس بحیثیت رکن اسمبلی ان کی تنخواہوں سے منہا کرلیا جاتا ہے یا زرعی اراضی ہونے کی صورت میں زرعی محاصل کی شکل میں ادا ہوجاتا ہے۔ جبکہ یہ موقف ماہرین کے مطابق اس لئے بے وزن ہے کہ بیشتر ارکان دوسرے مختلف ذرائع سے خطیر آمدنی حاصل کرتے ہیں جسے انہیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کرنا چاہیے۔ سیاسی قیادت سمیت ہمارے مقتدر طبقات کی خفیہ آمدنی کا کچھ اندازہ ستمبر 2011ء میں کئے گئے ایک سوئس بینک کے ڈائریکٹر کے اس انکشاف سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی شہریوں کے97ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع ہیں۔ ڈائریکٹر سوئس بینک کا کہنا تھا کہ ’’سوئس بینکوں میں موجود پاکستان کے97ارب ڈالر پاکستان اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کئے جائیں تو پاکستان تیس سال تک ٹیکس فری بجٹ بناسکتا ، روزگار کے 60ملین مواقع پیدا کرسکتا،ملک کے تمام دیہی علاقوں سے اسلام آباد تک جدید شاہراہیں تعمیر کرسکتا، پانچ ہزار سماجی منصوبوں کیلئے مسلسل بجلی فراہم کرسکتا،ہر شہری کو آئندہ ساٹھ سال تک بیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دے سکتا اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی امداد سے نجات حاصل کرسکتا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسی ناجائز رقوم ہیں جو قومی وسائل کو لوٹ کر سوئس بینکوں کے خفیہ کھاتوں میں جمع کرائی جاتی ہیں۔ اس عمل میں بالعموم حکمراں، ارکان پارلیمنٹ، سول اور ملٹری بیوروکریسی کی اعلیٰ شخصیات شامل ہوتی ہیں۔جبکہ ان افراد کو آئین اور قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے عوام کیلئے نمونہ بننا چاہیے۔ دنیا کے تمام مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں ارکان پارلیمنٹ پر دیانتداری کی کڑی شرائط عائد ہیں۔ نادہندہ اور بدعنوان افراد کیلئے منتخب ایوانوں کے دروازے بند ہیں۔ پاکستان کے دستور میں بھی ارکان اسمبلی کیلئے اہلیت کا جو معیار مقرر کیا گیا ہے، اس میں یہ سارے نکات شامل ہیں ، لیکن اصل ضرورت ان پر عمل کرنے کی ہے۔ جبکہ خود ارکان اسمبلی کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔ ارکان اسمبلی خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق پورا ٹیکس نہیں دیں گے تو لوگوں کو بھی ٹیکس گریزی کی ترغیب ہوگی اورملک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا اور ایسا ہونا بالآخر سب کیلئے نقصان دہ ہوگا۔
حکومت طالبان مذاکرات: مثبت اور منفی اشارے
حکومت طالبان مذاکرات میں اب تک کی پیش رفت سے بات چیت کے بحران کا شکار ہونے کا تاثر اجاگر ہوتا ہے۔ لیکن یہ مذاکرات جس قدر پیچیدہ اور تہ در تہ مشکلات کے حامل ہیں اس کے پیش نظر ان کے فوری طور پر خط مستقیم کی صورت میں چلنے کی پیشگوئی کی ہی نہیں جاسکتی کیونکہ ایسے مذاکرات میں نشیب و فراز کا آنا ناگزیر ہوتا ہے، مولانا عبدالعزیز اور ترجمان طالبان کی جانب سے جو یہ کہا گیا ہے کہ مذاکرات قرآن و سنت کے مطابق ہونگے اور اس کے علاوہ وہ اور کسی قانون کو نہیں مانتے تو اس ضمن میں ہماری رائے یہ ہے کہ آئین پاکستان میں اس امر کی ضمانت دی گئی ہے کہ وطن عزیز میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جائے گا اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل بھی اسی مقصد کی خاطر عمل میں لائی گئی ہے کہ اگر کسی قانون کی شرعی حیثیت کے بارے میں کوئی ابہام یا کوئی اشکال موجودہ ہو تو اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی لی جائے ۔ اگر طالبان اس امر پر مصر رہیں کہ قرآن و سنت اور شریعت کی صرف وہی تعبیر و تشریح مانی جائے جو وہ کرتے ہیں تو مذاکرات کا کسی واضح نتیجے پر پہنچنا مشکل ہو جائیگاکیونکہ اگر طالبان شریعت کی صرف اپنی تعبیر ہی کو آخری و حتمی مانیں اور اس کی روشنی میں بنائے گئے قوانین کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کریں تو خدشہ ہے کہ اس انداز فکر سے اتفاق کرنا پاکستانیوں کے مختلف مکاتب و مسالک کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ اسلئے ضروری ہے کہ دونوں فریق ملک کے آئین اور پاکستانی ریاست کی عملداری کو تسلیم کر کے آگے بڑھیں اور اس حقیقت کو بھی اپنے سامنے رکھیں کہ ترکی میں عثمانی دور خلافت کے قوانین ہوں یا کسی اور ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی ہو، تمام صورتوں میں نظام کو تابع شریعت اور درپیش مسائل کی ضرورتوں کے مطابق قواعد مدون کرنے کی ضرورت پڑی ہے۔ا سلئے ضروری ہے کہ ایک متفقہ اصولی مذاکراتی ایجنڈا تیار کرنے کے بعد قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل اور شرعی عدالتوں کے سپرد کیا جائے ۔ان اداروں کی ہیئت سمیت بہت سے معاملات بات چیت کے ذریعے طے کئے جاسکتے ہیں۔

بھارت کا محتاط جواب!
وزیراعظم میاں نوازشریف نے بدھ کےروز بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مذاکرات کی دعوت دی تھی اس پر بھارت کی جانب سے محتاط جواب دیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کی پیش کش پر غور کرے گا، تاہم مذاکرات کی بحالی کے لئے حالات کا سازگار ہونا ضروری ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے تاہم اب بھی کافی کام کرنا باقی ہے۔ اس ردعمل میں ایسے گول مول الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن سے پیشکش کو قبول یا رد کرنے کے بارے میں نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے اس ضمن میں آنندشرما کے تجارتی مذاکرات کے لیے پاکستان جانے کی بات بھی کی ہے یقینا دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں اضافہ ہونا چاہئے۔ عوام سے عوام کے رابطے بھی بڑھنے چاہئیں۔ وہ تمام طریقے اختیار کئے جانے چاہئیں جو اچھے ہمسایوں کے تعلقات کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ مگر اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ ان تعلقات میں استحکام کے لئے اس کلیدی مسئلے کا حل ضروری ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان کئی جنگوں کا باعث بن چکا ہے اور جس کی وجہ سے بار بار اعتماد سازی کے اقدامات درہم برہم ہوتے رہے ہیں۔ بھارت میں سمجھوتہ ایکسپریس کا واقعہ ہو یا پارلیمنٹ پر کی گئی دہشت گردی۔ ہر واقعہ کا الزام پاکستان پر لگادیا جاتا ہے جبکہ بعد کی تحقیق و تفتیش نے ثابت کیا کہ ان سب میں بھارت کے داخلی عناصر ملوث تھے۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے اندر یا کنٹرول لائن پر رونما ہونے والے کسی بھی ناخوشگوارواقعہ کے بعد پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ اس الزام کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملکوں میں اعتماد کی مضبوط بنیادیں استوار کی جائیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب غلط فہمی اور کشیدگی کا سبب بننے والے بنیادی تنازع کو بات چیت سے حل کر لیا جائے اور دونوں ممالک مل جل کر اپنے اپنے عوام کی فلاح وخوشحالی کے لیے کام کریں۔
تازہ ترین