(گزشتہ سے پیوستہ )
جس جگہ آج آئی جی آفس ہے یہاں کبھی مغل شہزادہ جہانگیر کی بھی رہائش گاہ تھی وہ ہاتھی پر سوار ہو کر نورجہاں سے ملنے انارکلی والے تھانے کی عمارت میں جایا کرتا تھا البتہ یہ بات طے شدہ ہے کہ انارکلی کوتوالی اور مزنگ لاہور کے قدیم ترین تھانے رہے ہیں۔کوتوالی تھانہ آج بھی اپنے پرانے نام سے ہے کوتوال جس جگہ بیٹھتا تھا اس کو کوتوالی کہا جاتا تھا۔کسی زمانے میں اصل کوتوالی دہلی دروازے کے اندر واقع تھی اصل کوتوالی تو کب کی ختم ہو چکی البتہ موجودہ کوتوالی جو کہ دہلی دروازے کے باہر اور لنڈا بازار کے بالکل ساتھ ہے اس کا فن تعمیر بھی برٹش دور حکومت کا ہے ۔یہ کوتوالی مسٹر ہیراسکاٹ کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔جبکہ مسٹر گلاس کاک گورے نے اس کی تعیر کا فیصلہ کیا تھا آج سے پچاس ساٹھ برس قبل موجودہ کوتوالی کا علاقہ بڑا صاف ستھرا اور رش سے پاک تھا حالانکہ اس کے نزدیک لنڈا بازار ہے لنڈا بازار کی بھی ایک تاریخ ہے گوروں کے استعمال شدہ کپڑوں کی منڈی ہےاس کی اپنی ایک تاریخ ہے اس تھانے کے اوپر کوئی نام وغیرہ نہیں تحریر تھاکچھ عرصہ قبل ہی اس پر کوتوالی اور نیچے ایک ٹین کا بدنما سا بورڈ مرکزی دروازے پر لگا دیا گیا جس پر CIAکوتوالی لکھا ہوا ہے یہ بڑی تاریخی عمارت مگر اس کے دروازے اور کھڑکیاں جس طرح کبھی ہم نے دیکھے تھے اب اچھے حال میں نہیں ۔
کوتوالی کے تاریخی تھانے اور عمارت کے بارے میں کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پہلے ایک چھوٹی کوتوالی دہلی دروازے کے اندر کہیں تھی خیر ہم اس کو تلاش کر رہے ہیں جبکہ بہت سارے تاریخی حوالوں سے یہ بات سامنے آئی ہے موجودہ کوتوالی کی جگہ پر ایک چھوٹی سی کوتوالی تھی ایک دلان تھا جہاں پر جرم کرنے والے افراد کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا جاتا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان قیدیوں کو بالکل کوئی کھانا پینا نہیں دیا جاتا تھا بلکہ ان کو زنجیر سے باندھ کر دہلی دروازے کے اندر بازاروں اور گلیوں میں گھومایا جاتا تھا اور یہ قیدی راہ چلتے مسافروں اور دکانداروں سے کھانے پینے کی التجا کرتے یا پیسے مانگتے تھے اگر کسی نے کچھ دے دیا تو انہوں نے کھا لیا ویسے آپس کی بات یہ ہے کہ آج کونسا تھانوں میں ولایت کے پولیس اسٹیشنوں والا ماحول ہے۔ آج کل جن لوگوں کو ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے پر پکڑ کر حوالات /بخشی خانہ میں بند کیا جاتا ہے ان کو کون سا فائیو سٹار ہوٹل کا کھانا دے رہے ہوتے ہیں۔وہ بھی گھنٹوں بھوکے پیاسے بیٹھے ہوتے ہیں ہم نے خود ٹبی تھانے اور ڈیفنس کے تھانوں میں ایسے لوگوں کو بھوک اور پیاس سے روتے پیٹتے دیکھا ہے حالانکہ اس ملک میں لائسنس نہ رکھنے سے بڑے بڑے جرم ہو رہے ہیں۔ مگر وہ لوگ موجیں مار رہے ہیں ہمیں یاد ہے کہ جب لاہور میں صرف ضلع کچہری (گورنمنٹ کالج کے سامنے والی )ایک تھی وہاں پر ایک حوالات بھی ہوتی تھی جس میں ان قیدیوں کو جن کی صبح پیشی ہونی تھی رات وہاں پر بند کر دیا جاتا تھا یا دوسرے قیدیوں کو اور اس حوالات میں کوئی لائٹ اور بجلی نہیں ہوتی تھی اور جو لوگ وہاں سے گزرتے تھے وہ قیدی ان سے فریاد کرتے ہوتے تھے کہ اللہ کے نام پر پانی پلا دو کچھ کھانے کو دے دو۔اگر سکھ دور حکومت میں کوتوالی کے قیدیوں سے ایسا سلوک ہوتا تھا تو آج کون سا کوئی اچھا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ارے بابا جرم کرنے والوں کی نفسیات کو درست کرو ان کو روز گار دو اور انصاف دو یہ بنیادی وجوہات ہیں جو جرم کرنے کیلئے اکساتی ہیں بات ہو رہی تھی کوتوالی تھانے کی تو جناب قصہ کچھ یوں ہے کہ جس زمانے میں کوتوالی بنی تو یہ ایک چھوٹے سے مکان میں تھی اس وقت لاہور میں صرف جرائم کرنے والے افراد کو یہاں پر رکھا جاتا تھا یہ مجرم ایک سپاہی کی نگرانی میں شہر کی سڑکوں اور دکانداروں سے بھیک مانگ کر اپنا پیٹ پالتے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قیدی جو کچھ بھی لوگوں سے مانگ کر لاتے اس میں آدھا یہ نگران سپاہی /چوکیدار لے جاتا ویسے حالات ا بھی کچھ ایسے ہی دلچسپ رہے ہیں وہ کیا دور تھا کہ جرم کرنے والے کا زیادہ سے زیادہ دس روز میں فیصلہ کر دیا جاتا یہ بات ہم سکھ دور حکومت کی کر رہے ہیں کسی کی ناک، کسی کے کان، کسی کا ہاتھ اور کسی کےپائوں کے پٹے کاٹ دیئے جاتے اور جرمانہ علیحدہ کر دیا جاتا ایک عرصہ تک خدا بخش ککے زئی شہر کوتوالی رہا بلکہ اس نے کچھ عرصہ گوروں کے دور میں بھی کام کیا ۔کہا جاتا ہے کہ یہ خدا بخش ککے زئی بڑے سے بڑے چور سے اس کے جرم کا اقرار کرا لیتا تھا ایک مرتبہ گورے سپاہیوں نے توشہ خانے میں چوری کی مگر کوئی ماننے کو تیار نہ تھا آخر کار خدابخش ککے زئی کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس نے گوروں سپاہیوں سے سارا سامان برآمد کرا لیا ۔ کاش اب بھی کوئی آج کے دور میں خدا بخش ککے زئی کوتوالی آجائے اور یہ توشہ خانہ والا رول تو ختم ہو۔
مغل دور حکومت میں شہر کوتوالی شاہی قلعہ میں ہاتھی دروازے کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا آپ اس کو آج کا ایس پی سٹی کہہ سکتے ہیں پھر اس کی کوتوالی فورٹ روڈ پر آ گئی کچھ عرصہ دہلی گیٹ کے اوپر کمروں میں بھی شہر کوتوال رہا اور پھر دھیان سنگھ کی حویلی میں آگیا جہاں آج کل گورنمنٹ فاطمہ جناح گرلز کالج چونا منڈی ہے اور آخر میں موجودہ عمارت میں فاطمہ جناح پوسٹ گریجویٹ آ گیا دہلی دروازے میں پرانا کوتوالی چوک آج بھی ہے جس کے نزدیک چٹا دروازہ ہے اگر ہم چٹا دروازے کو لاہور کے دروازوں میں شمار کریں تو پھر لاہور کے 13نہیں 14دروازے بن جاتے ہیں بعض لوگ اس چٹا دروازے کو پہلا دہلی دروازہ بھی کہتے ہیں ویسے اب یہ دروازہ چٹا بالکل نہیں جگہ جگہ سےچھوٹی لال اینٹیں اکھڑ چکی ہیں۔پتہ نہیں کیوں حکومتی ادارے اس تاریخ دروازے کو بچانا نہیں چاہتے تھوڑی سی توجہ سے یہ تاریخی دروازہ محفوظ ہو سکتا ہے لاہور چٹا دروازہ بھی بڑا اہم اور تاریخی ہے اس دروازے کے بارے میں بہت کم لوگوں کو پتہ ہے حالانکہ روزانہ سینکڑوں لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں کچھ لوگوں کے نزدیک یہ لاہور کا پہلا داخلی دروازہ بھی تھا یہ دروازہ مسجد وزیر خاں کے نزدیک اور حضر ت سید صوفؒکے مزار مبارک کے پاس ہے۔ حضرت سید صوفؒ بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے ان کے بھائی حضرت میراں سرکار ؒ کا مزار مبارک مسجد وزیر خاں کے صحن میں سیڑھیاں اتر کر ہے۔یہیں پر دینا ناتھ کا کنواں آج بھی خستہ حالت میں موجود ہے کچھ کے نزدیک یہ کنواں مسجد وزیر خان کے بانی گورنر پنجاب حکم الدین انصاری نے 1634 میں تعمیر کرایا تھا۔ گوروں کے زمانے میں اس دروازے پر سفید چونا پھیردیا گیا اور یہ چٹا دروازہ کے نام سے مشہور ہو گیا حالانکہ اس دروازے کا پہلے بھی تو کوئی نام ہو گا البتہ اس کا تعمیر کا سال 1634-35ہے۔ (جاری ہے)