• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں بھارتی سپرریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت کی داد دینا پڑتی ہے جنہوں کے ہندوئوں کے ساتھ بر صغیر میں رہنے کے تصور کے خلاف مسلمانوں کے علیحدہ وطن حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کا راستہ اپنا اور وطن عزیز پاکستان کے حصول کو ممکن بنا کر اس خطے کے مسلمانوں کو ہندوئوں کے چنگل سے بچا کر زندگی کی آسودگی کو ممکن بنایا۔ نریندرمودی کی حکومت جس جس طرح ہندو تواء کی پالیسی پر گامزن ہے اور طاقت کے نشے میں جس طرح انسانیت کوملیا میٹ کرتی جا رہی ہےاس کو دیکھ کر تو ہٹلر کی بھی روح بھی کانپ گئی ہو گی ۔ کشمیریوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں لہٰذا اپنی پسند اور جمہور کے مطابق اپنے خطے میں زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ سیکولر انڈیا کا جو خواب گاندھی جی نے دیکھا اور پنڈت نہرو نے پروان چڑھایا،آج مودی نے اس کو آر ایس ایس اور بی جے پی منشور تلے دبا دیا اور ہندوستان برائے ہندو کے نعرے پر عمل کرتے ہوئےانڈیا کی زمین اقلیتوں پر تنگ کر دی۔ آج انڈیا کی سر زمین پر مسلمان، سکھ، عیسائی اور دلت سمیت کوئی بھی اقلیت اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی سے محروم ہے۔انڈین سرمایہ داروں سے گٹھ جوڑ کرکے نریندرمودی نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے طویل مدتی منصوبہ کی ہوئی ہے ۔ انڈیا کی نام نہاد ترقی کے نام پر اقلیتوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے نہ صرف بھارت بلکہ دوسرے ممالک میں بسنے والے اقلیتی رہنما بھی مودی کے ظلم و جبر کا شکار ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ کینڈا میں خالصتان تحریک کے رہنما کے قتل کا الزام بھی مودی حکومت وربھارت کی خفیہ ایجنسی پر عائد کیا گیا تھا اور ایک اور رہنما جو نیویارک میں مقیم ہیں ،ان کے قتل کی منصوبہ بندی عیاں ہونے کی وجہ سے امریکی حکومت کو تھریٹ الرٹ جاری کرنا پڑا ۔

اس تمام پس منظر کوقارئین کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے زیر اثر سپریم کورٹ نے جس طرح اگست 2019کے بھارتی صدر کےاقدام کو جائز قرار دیا ہے جس کے تحت بھارتی آئین کے آرٹیکل 375کو غیر موثر قرار دیا گیا تھااور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے بھارت میں ضم قرار دیا گیا تھا، اس سےصاف ظاہر ہوتا ہےکہ مودی حکومت اکھنڈ بھارت کے خواب کی تعبیر کے راستے پر گامزن ہے،جموں وکشمیر بین الاقوامی سطح پر ایک متنارع علاقہ ہے جس کا کیس اقوام متحدہ کی ویٹنگ لسٹ پر موجود ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نےجموںو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کربین الا قوامی قانون کی خلاف وزری کی ہے۔برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت نے جس طرح بر صغیر کی مختلف ریاستوں کو ،انگر یز وں کے سا تھ مل کر طاقت کے بل بوتے پر،ز بر دستی بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبورکیا، وہ ہندو دھونس اور دھاندلی کی پراگندہ مثالیں ہیں۔ جو بین الا قوامی قانون کی دھجیاں اڑا رہی ہیںمگر بین الاقوامی برادری کا رویہ کشمیر پر بھی اسی طرح ہے جس طرح فلسطین اور غزہ کی تباہی کے ذمہ دار اسرائیل کے بارے میں ہے۔

1948ء میں جب پاکستان کے ساتھ ملحقہ قبائل کشمیر کی جنگ میںحصہ لے رہے تھےاور سری نگر پر قبضہ قریب تھا تو یہ بھارت ہی تھا جس نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور فوری طور پر جنگ بند کی درخواست کی لہٰذا جنرل اسمبلی میںبھارت نے قرار دادنمبر 73 پیش کی جس پر عمل کرتے ہوئے فوری طور پر جنگ بندی کافیصلہ ہوا بھارت کو ہدایت ہوئی کہ و ہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کرے مگر ہٹ دھرم بھارتی حکومت آج تک اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح کشمیر کی مسلمان آبادی کو ہندو آبادی سے کم کر دیا جائے اس کیلئے وہ دنیا کا ظالمانہ کو اور کمینے سے کمینہ حربہ استعمال کر رہی ہے مگر کامیابی اس سے کوسوں دور ہے کیونکہ کشمیری اپنی جانوں کی قربانی دے کر اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعدبھا رت کے دوسرے علاقو ں اور شہروںسے ہندوؤں کو یہاں آباد کیا جائے گا،اب انہیں کشمیر میں جائیداد خریدنے کا حق حاصل ہو گیا ہے۔یعنی یہ وہی منصوبہ ہے کہ اسرائیل نےیہودیوں کو لا کرمغربی کنارے اور دوسرے فلسطینی علاقوں میں آباد کیا۔ کیا گاندھی اور نہرو اس طرح کا سیکولر بھارت آباد کرنا چاہتے تھے،جس طرح کا امیج نریندر مود ی بھارت کا پیش کر رہے ہیں ،گاندھی نے تو مسلمانوں کی ہندوؤں کے ہاتھوںزبردستی بیدخلی اور قتل عام کے خلاف بھوک ہڑتال کردی تھی۔انہوں نے اپنی حکومت کو مجبور کیا تھاکہ وہ پاکستان کو اس کے حصے کے اثاثے فی الفور دے۔مگر مودی کی بی جے پی مسلمانوں کو بھارت میں سانس لینے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا مقدمہ زیادہ مستعدی سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ ،یورپ اور ایشاء کی حکومتوں کو یاد دلایا جائے کہ کشمیر کی آزادی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ اقوام متحدہ کی قرار داد وں پر عمل درآمد کروانے کیلئے زور دیا جائے۔

بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر زائل کرنے کیلئےبین الاقوامی قوانین کا سہارا لے کر مودی حکومت کے ہندو تو انظریے کے خلاف بھارت کے سیکولر چہرے کی طرف موڑا جائےاس سلسلے ترکی اور دیگر ممالک کی حمایت حاصل کی جائے۔ اگرمودی کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ جلد اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگائے گا اور پاکستان کی سلامتی کےدرپے ہو گا،جس کو پیش بینی کے طورلیا جائےاور بین الاقوامی عدالت انصاف، سفارتی فورسز اور اقوام متحدہ کی کمیٹیوں میں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔ کشمیری ہمارے مسلمان بھائی ہیں ان کی آزادی کیلئے پاکستان کو ہر سطح پر اخلاقی و قانونی مد د فراہم کرنی چاہیے تا کہ اپنی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہونے والےلاکھوں کشمیریوں کا خون رائیگاں نہ جائے۔

تازہ ترین