• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چلتے رہو اسمٰعیل! اور اُس وقت کو اپنے ذہن کے گوشوں سے نوچ کر پھینک دو کہ جب تم نے ابن معنیٰ سے عمّان کا اسٹیشن بدل کر کوئی اور اسٹیشن لگانے کی درخواست کی تھی۔ تم اس وقت دُنیا کے ہر اسٹیشن سے عمّان ریڈیو کی ولولہ انگیز آواز سُننا چاہتے تھے، لیکن نئے اسٹیشن سے چنگھاڑنے والی وہ کریہہ آواز ہمیشہ تمہارے حواس کا پیچھا کر تی رہے گی، جس نے تمہارے قبیلے کے جوانوں سے خدا کی راہ میں شہید ہونے کی مسرّت چھین لی تھی اور جس نے کچھ دیر کے لیے تمہیں چُھری کے نیچے پڑے میمنے کی طرح خوف زدہ کردیا تھا۔ 

یہ فلسطین کی جنگِ آزادی کے ایک لیڈر کی آواز تھی، جو میدانِ جنگ سے بہت دُور کسی حفاظت گاہ میں بیٹھا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ ’’یہ جنگ یہودیوں اور عربوں کے درمیان ایک قومی جنگ ہے۔ یہ جنگ آلِ موسیٰؑ اور قبطیوں کے درمیان ایک نسلی جنگ ہے۔ یہ یہودی سام راج اور عرب کے درمیان ایک طبقہ وارانہ جنگ ہے۔ جو لوگ اسے مذہبی جہاد کا نام دیتے ہیں، وہ سام راج کے پٹّھو ہیں۔ اے عروبہ! اس جنگ سے اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے عیّاروں سے ہوشیار رہو، جو تمہارے مذہبی جذبات بھڑکا کر تمہیں لڑانا چاہتے ہیں۔ لڑو، مگر کسی خدا کے لیے نہیں، کسی مذہبی مقام کے لیے نہیں۔‘‘

یہ آواز پگھلے ہوئے سیسے کی طرح سب کے کانوں میں اُتری اور قبیلے کے اعصاب مفلوج کرتی چلی گئی۔ ابن معنیٰ نے اپنا ہاتھ فضا میں لہرایا اور ٹرانزسٹر دُور پھینک دیا۔ پھر اُس نے کہا، ’’ہم اکیلے ہیں۔ کسی دوسرے مُلک کے جہاز ہماری مدد کے لیے نہیں آئیں گے۔‘‘ ارقم بولا، ’’یہ لوگ اس وقت بھی ہمیں بدیسی نعرے دے رہے ہیں کہ جب ہمارے ہاتھ خالی ہیں اور ہمارا کوئی مرکز نہیں۔‘‘ ’’اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ آئو، ہم اپنی جانیں اس کے ہاتھ بیچ دیں۔‘‘

خویلد نے کہا۔ ’’اے اللہ! ہم اپنے آپ کو تیرے سُپرد کرتے ہیں۔‘‘ سب نے زیرِ لب کہا۔ بوڑھی عورتیں، بچّے اور ضعیف مرد علیحدہ کر دیے گئے اور سب نے انہیں خدا حافظ کہا۔ ایک بوڑھی عورت نے قریشی کو اُٹھا لیا تھا۔ وہ لوگ چلے گئے، لیکن ندی تک نہ پہنچ سکے۔ابوالمحیط کے عقب سے گولوں کی بارش شروع ہو گئی۔ دُور مار توپوں کے گولے تیز رفتار طیّاروں کی طرح اُن کے سَروں پر سے گزرتے اور کئی میل پیچھے کی طرف جاکر پھٹ جاتے۔ اب آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال نہ تھا۔ 

تاہم، انہوں نے اپنے حواس پر قابو رکھا۔ بچّوں کو کھجوروں کے ٹیڑھے تنوں سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا۔ بوڑھی عورتیں بچّوں کے پاس بیٹھ گئیں، جب کہ باقی لوگ نخلستان کے گرد کھنچی ہوئی مٹّی کی دیوار اور منہدی کی باڑھ کے پیچھے پوزیشن لے کر بیٹھ گئے۔ پھر دشمن ابوالمحیط کے دامن میں نمودار ہوا۔ صرف تین ٹینک تھے اور ان کے پیچھے بکتر بند گاڑیاں تھیں اور ان کا رُخ سیدھا نخلستان کی طرف تھا۔

اُمّ القریش… امّ القریش… !!وہ کس طرح منہدی کی جھاڑی سے بندوق کی نال باہر نکالے مطمئن بیٹھی تھی۔ تم نے اُسے دیکھ کر یقین کرلیا تھا کہ دُنیا کی کوئی طاقت تمہارے عزم کو شکست نہیں دے سکتی۔ تم جانتے تھے کہ دشمن کے دبائو نے اگر تمہارے پائوں اُکھاڑ دیے، تو خولہ کی بیٹی تمہاری راہ میں آجائے گی اور تم اس کی نگاہوں کی تاب نہ لاسکو گے۔ چلتے رہو اسمٰعیل! زندگی اُس وقت تمہاری نظر میں ہیچ تھی اور شہادت کا عزم تمہیں بے چین کیے دے رہا تھا، لیکن تم اور قبیلے کے تمام لوگ اُس وقت خاموش بیٹھے تھے۔ 

ننّھے ننّھے معصوم بچّے بھی درختوں کی اَوٹ میں اس طرح مہر بہ لب تھے، جیسے اُنہیں حالات کا پورا اندازہ ہو۔ دشمن کے ٹینک اطمینان سے ا ٓگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے جوانوں نے انہیں بتا دیا ہو گا کہ اس علاقے میں کسی مقابلے کا اندیشہ نہیں ہے۔ پھر وہ ٹینک تم سے کچھ فاصلے پر رُک گئے۔ اگلے ٹینک سے ایک سپاہی نے سَر باہر نکالا اور تمہاری زبان میں چلاّ کر کہا کہ ’’اپنے ہتھیار پھینک دو اور ہاتھ اُٹھا کر سامنے آجائو۔‘‘ کسی نے ہتھیار نہیں پھینکے اور نہ ہی کوئی حرکت ہوئی۔ سپاہی نے پھرکہا، ’’باہر آجائو، تم ٹینکوں کا مقابلہ نہ کرسکو گے؟‘‘لیکن تم لوگوں نے ٹینکوں کا زبردست مقابلہ کیا۔ پہلی گولی نہ جانے کس نے چلائی تھی، لیکن اللہ اکبر کا نعرہ سب نے ایک ساتھ لگایا تھا اور شاید سب ایک ساتھ مورچوں سے نکل کر دشمن پرجھپٹے تھے۔ 

کاش! تمہیں معلوم ہوتا کہ ٹینکوں کا پٹ کس طرح کھولا جاتا ہے۔ اپنے سے اگلے ساتھیوں کی لاشیں پھلانگتے اور ‘‘یا للاسلام‘‘ کا نعرہ لگاتے وہ کبھی ایک ٹینک سے اور کبھی دوسرے ٹینک سے ٹکراتے رہے۔ ان کی ایک ٹولی نے کسی نہ کسی طرح ایک بکتر بند گاڑی کو بھی نرغے میں لے لیا، لیکن یہ سارا کھیل جلد ہی ختم ہو گیا۔ تم نے اُس وقت کیا کیا اسمٰعیل؟ وہ منظر تمہارے ذہن کے پردے پر وضاحت کے ساتھ کبھی نہیں اُبھرے گا کہ تم اُس دوران کیا کرتے رہے کہ جب ٹینکوں سے اُبلتے گولوں کی گھن گرج اور توڑے دار بندوقوں کی آوازیں کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھیں۔ 

تمہاری زندگی کے اُن اہم ترین لمحات کو، جو تمہارے پُر عزم ماضی اور پراگندہ حال کے درمیان ایک کڑی کی حیثیت رکھتے تھے، ٹینک کے اُس گولے نے تمہاری یاد کی زنجیر سے توڑ کر پھینک دیا، جو سنسناتا ہوا آیا اور تمہارے ساتھ ٹینک کی طرف جھپٹتی ہوئی اُمّ القریش کو خاک اور خون کا ڈھیر بناتا ہوا غائب ہو گیا۔ منہدی کی اُس جھاڑی میں، جہاں کچھ دیر پہلے وہ تمہارے پاس بیٹھ تھی، تم نے اُس کی آنتوں کے ہار لٹکتے دیکھے، لیکن تم نے کوئی آہ و بکا نہیں کی۔

آگے بڑھتے رہو اسمٰعیل! وہی تمہاری زندگی تھی۔ کیا تم اُس ٹینک پر چڑھ گئے تھے یا تم اس گروہ میں شامل تھے، جس نے ایک بکتر بند گاڑی کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔ تمہارے ہاتھ کس وقت باندھے اور کاٹے گئے۔ انہوں نے قبیلے کے بیش تر نوجوانوں کی طرح تمہیں گولی کیوں نہیں مار دی۔ وہ کون تھا، جس نے بے ہوش قریش کو تمہاری پیٹھ پر سوار کر کے چمڑے کی پٹّی تمہارے ماتھے پر باندھ دی تھی۔ جب وہ اُس نخلستان کو آگ لگا رہے تھے، جس میں شہد کی مکھیاں چھتّا بناتیں اور موسمِ بہار کی رنگین چڑیاں چہچہاتی تھیں، تو تم نے کوئی آواز کیوں نہیں بلند کی۔ 

جب وہ قبیلے کے معصوم و خُوب صُورت بچّوں کو ہوا میں اُچھال کر ان پر گولیاں برسا رہے تھے، تو تم نے مزاحمت کیوں نہیں کی۔ جب وہ نوجوان لڑکیوں کے سَروں سے چادریں اُتار رہے تھے، تو تم نے اپنی آنکھیں کیوں نہ پھوڑلیں۔ جب انہوں نے خویلد کی ماں کو، جو تمہاری دادی کی سہیلی تھی، برہنہ کیا، تو تم زمین میں گڑ کیوں نہ گئے… اور اب تم کہاں جارہے ہو۔ کیا عمّان کے چوراہے پر بیٹھ کر اپنے اور اپنی اپاہج بیٹی کے لیے بھیک مانگو گے۔ کیا تم عمّان کے غریب باشندوں کے ایک وقت کے کھانے میں اپنا حصّہ لگائو گے اور اس طرح یہودیوں کا وہ مقصد پورا کرو گے، جس کی خاطر انہوں نے تمہیں زندہ رکھا ہے اور جانوروں کی طرح تمہیں ایلن بی پل کی طرف ہانک رہے ہیں۔

نگران جیپ نے سائرن بجایا۔ اگلی نشست پر اُونگھتا فوجی افسر ہوشیار ہو گیا۔ اُس نے ہاتھ سے اشارہ کیا، تو قافلہ رُکے بغیر دو حصّوں میں تقسیم ہو گیا اور اس نے جیپ کے گزرنے کے لیے جگہ بنا دی۔ پورا قافلہ ایک مشینی روبوٹ کی مانند انسانی اشاروں پر حرکت کر رہا تھا۔ جیپ درمیان سے گزر کر اب قافلے کی بائیں جانب آ گئی، جہاں جھاڑیاں نسبتاً کم اور دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ قافلہ پھر ایک قطار کی صورت چلنے لگا۔ 

یہودی افسر نے جیپ سے مائوتھ آرگن نکالا اور بجانے لگا۔ سورج کی بے رحم دُھوپ جب ہرے بھرے نخلستانوں کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے، تو زندگی کے ہر احساس سے عاری بادِ صرصر اسی طرح فضا میں شادیانے بجاتی ہے۔ آگے چلتے رہو اسمٰعیل! بئر الجنّہ کی جلی ہوئی کھجوروں سے گزرنے والی ہوا منہدی کے پودوں کی شاخیں ہلا رہی ہے اور ان پر لٹکے آنتوں کے ہار خُشک ہو چُکے ہیں۔ چلتے رہو… شاید تم عمّان جاؤ گے یا شاید اس سے بھی آگے ۔ مدینہ المنوّرہ جانا اور روضۂ نبوی ؐکی سُنہری جالیاں پکڑ کر فریاد کرنا۔ 

کہنا کہ اے سارے جہانوں کے لیے باعثِ رحمتؐ! اُٹھیے اور دیکھیے کہ آپؐ کی اُمّت پر قیامت گزر گئی! کہنا کہ مَیں وہ قافلۂ حسینیؓ ہوں، جس کے خیمے وقت کے یزید نے لُوٹ لیے، مگر آپؐ کے کلمہ گو اس کی مدد کو نہ پہنچے۔ کہنا کہ ظلم کے کانٹے میرے تلووں اور میری رُوح میں اُتر گئے، مگر آپؐ کی اُمّت نے اپنے جسم کے کسی حصّے میں درد محسوس نہیں کیا۔ کہنا کہ ہم پر آسمان سے آگ برستی رہی، زمین کا کلیجہ شق ہو گیا ،مگر آپؐ کی اُمّت اپنے گھروں میں دروازہ بند کیے بیٹھی رہی۔ کہنا کہ وہ ہاتھ کٹ گئے، جنہوں نے آپ کا پرچم اُٹھایا اور وہ سَر قلم ہو گئے، جو خدا کے سوا کسی کے سامنے جُھکنا نہیں جانتے تھے۔ کہنا کہ… مگر تم نہیں کہہ سکو گے۔ 

تمہاری زبان پر کانٹے اُگ آئے ہیں اور تمہاری آنکھوں کے سوتے خشک ہوچُکے ہیں۔ تم اس مقدّس مقام کو پیٹھ دکھا کر جارہے ہو، جس کی طرف اپنا چہرۂ انور کر کے اُس کالی کملی والےؐ نے نماز پڑھی تھی۔ آگے بڑھتے رہو اسمٰعیل! وہ سامنے ابنِ عبیدہ بن جراح کا مزار ہے۔ اُدھر نہ دیکھو اور اُس سے آگے بھی نہ دیکھو، وہاں ضرار بن ازورؓ، عمرو بن العاصؓ اور مثنیٰ بن حارثہؓ کے مزارات ہیں، جن شہ سواروں نے اس سرزمین کے چپّے چپّے کو اللہ کا پیغام سنایا اور جو قیامت تک کے لیے اس زمین کے تقدّس پر ثبت ہو گئے۔ انہیں اپنی بے زبانی کا نقشہ نہ دکھائو۔ جن کے گھوڑوں کی سُموں کے نیچے زمین کی طنابیں سمٹ جاتی تھیں، اُن سے اپنے بریدہ ہاتھ چُھپالو۔

’’یہ حضرت ابو عبیدہ ابنِ جراحؓ کا مزار ہے۔‘‘ ابنِ معنیٰ نے آہستگی سے کہا۔ اسمٰعیل کو پہلی بار پتا چلا کہ وہ اس کے پہلو میں آگیا ہے۔ اُس کے بھی دونوں ہاتھ پہونچوں سے کٹے ہوئے تھے، لیکن اُس کی پُشت پر کسی بچّے کا بوجھ نہ تھا۔ اسمٰعیل نے کوئی جواب نہیں دیا۔’’اور اس سے آگے ضرار بن ازورؓ کا مزار ہے۔‘‘ ابن معنیٰ نے کہا۔ اسمٰعیل نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا۔ ’’خدا کی قسم! مَیں اس سر زمین کو چھوڑ کر ہرگز نہ جائوں گا۔ 

اس کے چپّے چپّے پر میرے اجداد کی قبریں ہیں۔‘‘ ابنِ معنیٰ خاموش ہونے پر آمادہ نہ تھا۔ آگے بڑھتے رہو اسمٰعیل۔ ابنِ معنیٰ تمہارے ساتھ چل رہا ہے۔ سیکڑوں ضعیف مَرد و خواتین اور کئی اپاہج جوان بھی تمہارے ہم راہ ہیں۔ مسجدِ صخریٰ کا گنبد پیچھے رہ گیا۔ مسجدِ عُمر ؓاور بیتِ ابراہیمؑ بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ حضرت ابو عبیدہؓ اور حضرت ضرار ؓکی قبور بھی پیچھے رہ جائیں گی۔

اچانک جیپ سے ایک فائر ہوا اور ابنیِ معنیٰ کی دائیں ٹانگ سے خون اُبلنے لگا۔ وہ اپنی کہنیوں کے بَل پر حضرت ابوعبیدہ ابنِ جراحؓ کے مزار کی طرف رینگ رہا ہے۔ وہ تمہارے پہلو سے کس وقت مزار کی طرف دوڑا تھا، تم نے نہیں دیکھا۔ اب بھی اس کی طرف نہ دیکھو۔ وہ نہایت مقدّس مقام کی طرف جا رہا ہے۔ وہاں دیکھا، تو تم آگے نہ جا سکو گے۔ ابنِ معنیٰ خوش قسمت ہے۔ اب اُس کی رُوح اپنے سالار کے سامنے شرمندہ نہ ہو گی، جس نے پہلی بار بیت المقدس کے دروازے پر اذان دی تھی۔ 

ابنِ معنیٰ خوش قسمت ہے، وہ جلد ہی اُس دوسرے شہ سوار کے پاس بھی پہنچ جائے گا، جو گھوڑے کی ننگی پُشت پر بیٹھ کر خدا کی راہ میں جہاد کرتا تھا اور جس نے اپنی حفاظت کے لیے کبھی زرہ نہیں پہنی تھی۔ یا شاید تم خوش قسمت ہو کہ تمہاری پُشت پر ایک نئی نسل کا بوجھ ہے اور تمہارے قدم ابھی تک پُل کی طرف اُٹھ رہے ہیں اور یاس کے سیاہ اندھیروں میں اُمید کی ایک ہلکی سی کرن ابھی باقی ہے۔ تم اپنا فرض پورا کر چُکے۔ تم نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اُمّ القریش خدا کے سامنے سرخ رُو ہو گئی۔

ابنِ معنیٰ کسی سے شرم سارنہیں۔ اب اپنی اُمیدوں کا مرکز اس نئی نسل کو بنالو، جس کی ٹانگیں جُھلسی ہوئی ہیں اور جسے اس حادثے کی کوئی خبر نہیں۔ ہزاروں سال پہلے تمہارے دادا،حضرت اسمٰعیل ؑذبیح اللہ نے اس مقدّس سر زمین سے ہجرت کی تھی۔ پھر تم یہاں واپس آگئے اور تم دوبارہ یہاں آئو گے۔ جس گوشۂ زمین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءؑ کے لیے مخصوص کیا، اُس کا ذرّہ ذرّہ اللہ کی امانت ہے۔ خزاں کی یلغار سبزہ زاروں کو کچھ دیر کے لیے اُجاڑ دیتی ہے، لیکن آمدِ بہار کے ساتھ ہی نئی کونپلیں برگ و بار بنتی ہیں اور سبزہ پھر مسکراتا ہے۔ تمہارے ہاتھ کٹ گئے، مگر نئی نسل کے بازو مضبوط بنائو۔ اُنہیں بتائو کہ قبۃ الصخریٰ اداس ہے اور مسجدِ عُمرؓ سے اذان کی آواز بلند نہیں ہوتی۔ انہیں ہتھیار دو اور ٹینکوں کے منہ کھولنا سکھائو۔ آگے بڑھتے رہو اسمٰعیل! تم پھر یہاں آئو گے۔ (ختم شد)