کانوں کا انفیکشن یا اُن سے پیپ بہنا پاکستان سمیت بہت سے ترقّی پذیر ممالک میں ایک عام لیکن نہایت توجّہ طلب مرض ہے۔ حال ہی میں ہمارے کلینک پر ایک تعلیم یافتہ فیملی اپنی7سالہ بیٹی کو لے کر آئی۔ بچّی کو گزشتہ3برس سے وقفے وقفے سے بائیں کان سے پیپ بہنے کی شکایت تھی اور اس میں سے کافی بدبُو بھی آرہی تھی، جب کہ وہ اس کان سے کم سُننے کی شکایت بھی کررہی تھی۔
والدین نے اُس کا مختلف جگہوں سے علاج کروایا، وقتی طور پر افاقہ بھی ہوجاتا، مگر پھر تکلیف دوبارہ بڑھ جاتی۔یہاں تک کہ اب ٹیچر نے شکایت کی کہ کوئی بھی طالبہ کلاس میں اُس کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتی۔اِس وجہ سے والدین کی پریشانی مزید بڑھ گئی تھی۔ ہم نے بچّی کے کانوں کا معائنہ کیا، تو دایاں کان بالکل ٹھیک تھا، مگر بائیں میں کافی پیپ بَھری ہوئی تھی اور گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی نظر آرہا تھا۔ کلچر سواب(Culture Swab)سے پیپ کا نمونہ حاصل کرکے اُسے لیبارٹری بھجوا دیا تاکہ جراثیم کی نوعیت اور دوا کی حسّاسیت(Sensitivity)کا اندازہ ہوسکے۔
پھر سکشن مشین کی مدد سے کان کی صفائی کی۔گوشت کان کے درمیانی حصّے سے بہہ رہا تھا اور کافی بدبُو بھی آرہی تھی۔کان کا سی ٹی اسکین کروایا، تو پتا چلا کہ اس میں کولیسٹو ٹوما(Cholesteatoma) ہے۔اِس مرض میں پردے کی جِلد کان کے درمیانی حصّے میں منتقل ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے انفیکشن ہوجاتا ہے اور پھر یہ کان کے پیچھے کی ہڈی میں پھیل جاتا ہے۔سماعت کا اندازہ لگانے کے لیے ٹیسٹ کروایا گیا، تو معلوم ہوا کہ بائیں کان میں سماعت تقریباً60فی صد کم ہوچُکی ہے۔
والدین کو تفصیل سے سمجھایا کہ یہ مرض ادویہ سے ٹھیک نہیں ہوگا، اِس کے لیے آپریشن کرنا لازمی ہے،جس میں کان اور اُس کے پیچھے کی ہڈی صاف کرکے پردے کو دوبارہ بنانا بھی شامل ہوتا ہے۔ والدین کو آپریشن کی پیچیدگیوں سے بھی آگاہ کیا، چوں کہ وہ معاملہ فہم تھے، اِس لیے آپریشن پر آمادہ ہوگئے۔
پاکستان میں کانوں سے پیپ بہنے کا مرض، عُمر کے تقریباً ہر حصّے میں دیکھا جاتا ہے۔ تاہم، اِس کے متاثرین میں بچّوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہمارے کلینک پر اکثر ایسے بچّے آتے ہیں، جن کا ایک یا دونوں کان بہہ رہے ہوتے ہیں، اُن میں سے بدبُو آرہی ہوتی ہے اور اُن کی قوّتِ سماعت میں بھی کمی پائی جاتی ہے۔ ایسے بچّوں کو اسکول میں کافی دشواری پیش آتی ہے کہ ساتھی بچّے اُن کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔
کانوں سے پیپ آنے کی بہت سی وجوہ ہیں،تاہم ایک بڑی وجہ بچّوں کا بار بار نزلہ اور زکام میں مبتلا ہونا ہے، اِس وجہ سے یہ انفیکشن ناک کے ذریعے کان کے درمیانی حصّے میں چلا جاتا ہے اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے، تو کان کے پردے میں سوراخ ہوجاتا ہے۔یہاں تک کہ مریض کے کانوں سے متواتر پیپ بہنا شروع ہوجاتی ہے۔اگر یہ انفیکشن درمیانی جھلّی تک محدود رہے، تو عموماً میڈیکل ٹریٹمینٹ سے کان خشک ہوجاتا ہے اور پردے کی پیوند کاری کی جاسکتی ہے۔
کان بہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے درمیانی حصّے میں، پردے کے اوپر والے حصّے کی جِلد منتقل ہوجاتی ہے، اور اس وجہ سے شدید انفیکشن ہو جاتا ہے، جو کافی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی سبب کان کی درمیانی چھوٹی ہڈیاں متاثر ہوتی ہیں، جو سماعت میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ انفیکشن چہرے کی نس کے فالج کا بھی سبب بن سکتا ہے۔
اگر کان کے اندرونی حصّے میں انفیکشن ہو جائے، تو مریض کا توازن متاثر ہوتا ہے اور اُسے چکر آنے لگتے ہیں۔ اگر یہ انفیکشن دماغ کی طرف پھیل جائے، تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اِس لیے جب بھی کان سے کسی بھی سبب پیپ بہنے لگے، تو فوری طور پر ماہر و مستند معالج سے رجوع کریں اور اُس کی ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔
بدقسمتی سے یہ مرض غریب طبقے میں زیادہ پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ جنوب مشرقی ایشیا اور افریقا میں عام ہے، جب کہ ترقّی یافتہ ممالک، یورپ، خلیجی ممالک اور آسٹریلیا وغیرہ میں اِس کے متاثرین کی تعداد کم ہے۔اِس کی وجہ غربت و افلاس کے ساتھ وہ گنجان آبادیاں ہیں، جن میں حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
نیز، اِن ممالک میں اس مرض سے متعلق شعور و آگہی کا بھی فقدان ہے۔پھر پاکستان جیسے اِن ترقّی پذیر ممالک کے عوام دیگر امراض کی طرح کان سے متعلقہ بیماریوں کے علاج معالجے کے اخراجات بھی برداشت نہیں کرسکتے۔تاہم، جن ممالک میں یہ مرض بہت عام ہے، عالمی ادارۂ صحت نے اُن کے لیے ایک پانچ نکاتی پروگرام دیا ہے، جس پر عمل درآمد سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
(1) پرائمری صحت مراکز کے عملے کی تربیت کی جائے، خاص طور پر اُن کی جو دیہی علاقوں میں کام کر رہے ہیں، تاکہ اگر وہ اِس طرح کے مریض دیکھیں، جن کے کانوں سے پیپ آرہی ہو، تو وہ اُنھیں بتاسکیں کہ کس طرح خشک روئی سے کان صاف کرنے ہیں، اُنھیں کیسے پانی سے بچانا ہے۔ نیز، وہ اینٹی بائیوٹک ڈراپس بھی تجویز کرسکتے ہیں۔ یہ تربیت یافتہ عملہ ماؤں کو بریسٹ فیڈنگ کے اصول بھی بتائے کہ وہ دودھ پلاتے وقت بچّے کا سر اونچا رکھیں تاکہ دودھ، کانوں کی طرف نہ جاسکے۔اگر دو ہفتوں میں مرض سے افاقہ نہ ہو، تو مریض کو فیملی ڈاکٹر کے پاس بھیج دینا چاہیے۔
(2) مقامی فیملی ڈاکٹر، آٹو اسکوپ(oto scope)سے کان کا معائنہ کرکے اُس کی صفائی کرسکتا ہے اور اگر مریض پھر بھی ٹھیک نہ ہو یا کان کے پردے میں سوراخ ہو، تو اُسے قریبی سکینڈری کیئر اسپتال بھیجا جائے۔
(3) ہمارے ہاں سکینڈری ہیلتھ کیئر اسپتال ہر ضلعے میں کام کر رہے ہیں اور اُن میں کان، ناک اور گلے کے اسپیشلسٹس موجود ہیں، مگر ایسے اکثر اسپتالوں میں کان کے امراض کی تشخیص اور علاج کی سہولتیں میسّر نہیں۔ اِس وجہ سے بیش تر مریضوں کو شہر کے بڑے یا تدریسی اسپتالوں میں بھیج دیا جائے۔
(4) کان سے پیپ بہنے کے ساتھ اگر کچھ ایسی علامات بھی موجود ہوں، جنہیں خطرے کی علامات (Red flag Sign)کہتے ہیں،تو انہیں بغیر کسی تاخیر کے ٹریٹرری ہیلتھ کیئر سینٹرز کے اسپتالوں میں بھیج دینا چاہیے، کیوں کہ وہاں سینئر، تجربہ کار سرجن موجود ہوتے ہیں اور علاج کے لیے مطلوبہ آلاتِ جرّاحی بھی دست یاب ہوتے ہیں۔ایسے سینٹرز میں بڑے اور تدریسی اسپتال شامل ہیں۔
واضح رہے کہ کان بہنے کی خطرناک علامات میں٭ سر میں مستقل درد ٭ متلی، الٹی یا چکر آنا ٭ نظرکا دھندلاپن ٭ اور بے ہوشی جیسی کیفیت کا طاری ہوجانا، شامل ہیں۔اگر بہتے کان کے ساتھ یہ علامات بھی ظاہر ہونا شروع ہوجائیں، تو علاج میں ہرگز تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
(5) کان کے انفیکشن سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور اِس ضمن میں سب سے اہم بات عوام النّاس میں اِس مرض سے متعلق شعور اجاگر کرنا ہے۔اِس مقصد کے لیے میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ پرائمری ہیلتھ کیئر اسٹاف کی تربیت سے ابتدائی مرحلے پر تشخیص اور پھر علاج سے کافی حد تک اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اِس طرح مرض کی جان لیوا پیچیدگیوں سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ اسکول کے بچّوں کے لیے بڑے پیمانے پر اسکریننگ پروگرام شروع کیا جائے، کیوں کہ ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں اسکول جانے والے30فی صد بچّے سماعت کی کمی اور کانوں کے مختلف امراض کے شکار ہیں۔
یہ اعداد و شمار اِس امر کے متقاضی ہیں کہ مزید تحقیق کرکے ایسے اقدامات کیے جائیں، جن کے ذریعے بچّوں کی صحت اور اُن کے تعلیمی کیریئر کو لاحق خطرات کا سدّ ِباب ہوسکے۔نیز، حفاظتی ٹیکوں خصوصاً خسرہ، انفلوئنزا وغیرہ کے ٹیکوں سے ہمارے نونہال نزلے اور زکام سے کافی حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں، جو کہ کانوں میں انفکیشن کی ایک اہم وجہ ہے۔ کان کے امراض کے علاج کے لیے خاص قسم کے آلاتِ جرّاحی کی ضرورت ہوتی ہے، جو عام طور پر نجی اسپتالوں ہی میں دست یاب ہیں، جہاں بھاری فیسز ادا کرنی پڑتی ہیں اور یوں علاج عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوجاتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ تمام تدریسی اور ضلعی اسپتالوں میں ایسے جدید آلاتِ جرّاحی کی موجودگی یقینی بنائے تاکہ عوام کے تمام طبقات کو علاج معالجے کی سہولتیں حاصل ہوسکیں۔ ایسے نوجوان ڈاکٹرز، جو کان کی جرّاحی میں دل چسپی رکھتے ہوں، اُن کے لیے تمام تدریسی اسپتالوں میں تربیت کے لیے Temporal Bone Labکی سہولت لازمی قرار دینی چاہیے تاکہ وہ اس نازک جرّاحی کی پیچیدگیاں اچھی طرح سیکھ اور سمجھ سکیں۔
المختصر، عالمی ادارۂ صحت کی اِن سفارشات پر عمل پیرا ہوکر بہت سے ممالک اپنے عوام کو بہترین علاج کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں اور یقیناً ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ (مضمون نگار، ساؤتھ سٹی اسپتال سے بطور کنسلٹنٹ وابستہ ہیں۔)