رات کو خامُشی و سکوت پسند ہے اور دِن کو شور و ہنگامہ۔ دِن کی طلب والے قیامت خیز دُھوپ میں جُھلستے رہتے ہیں اور رات مانگنے والوں کو چاند کا حُسن بھی عطا کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر ر ات کی تاریکی بہت سارے بھرم بھی رکھ لیتی ہے۔ اہلِ دل جانتے ہیں کہ بھرم سے بڑھ کر کوئی خُوب صُورتی نہیں۔ رات کی برکھا میں یادوں کی رِم جِھم جاری ہے اور مَیں سوچ رہا ہوں کہ خالقِ کائنات نے شاید جلال میں رات کا اَسرار تخلیق کیا ہو گا۔ پُراسرار رات کا وجود دو انتہاؤں کا نام ہے۔ یہ خاک نشینوں کو فرشتوں سے ممتاز کر دیتی ہے یا اُنہیں فنا کی طوائف بنا دیتی ہے۔
عطا کو عطا کرنے والے کی مرضی کے مطابق استعمال کرو، وگرنہ خسارے میں رہو گے۔ اگر ہمیشہ زندہ رہنا چاہتے ہو، تو اپنے محسن کے ذِکر کو اپنی نسلوں میں منتقل کرو اور اس کائنات کا سب سے بڑا محسن اللہ ربّ العزّت ہے۔ رات دِلوں کو نرم کرتی ہے اور نرم دِلوں میں ربّ خود ہی آن بیٹھتا ہے۔ رات کی بزرگی کا اندازہ اس اَمر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عرش والا اپنے محبوبؐ سے ملنے کی ساعت کا اعزاز بھی اُسے ہی عطا کرتا ہے۔ رات یہ راز جانتی ہے کہ زندگی کا حُسن صرف دیوانوں ہی سے سلامت ہے یا پھر اُن ہستیوں سے کہ جن کی خون آلود دستار اور سَر تو مل جاتے ہیں، مگر بیعت نہیں ملتی۔
رات کو معلوم ہے کہ سرد خانوں میں مُردے رکھے جاتے ہیں اور سرد لہجوں، رویّوں میں مُردہ رُوحیں۔ نصاب تبدیل کرنے کے بعد جب لُغت بدلی جا رہی تھی اور برہنگی کو ردا اور دستار کا مفہوم دیا جا رہا تھا، تو رات نے اپنا سیاہ آنچل اوڑھ لیا تھا۔ رات جانتی ہے کہ غلطی اور گُناہ کا احساس ہی دراصل توبہ ہے اور توبہ کے کھیت ہی میں معافی اور بخشش کی کونپلیں پُھوٹتی ہیں۔
وقت کا شمس تبریز جانتا ہے کہ رات کی غذا گہرے سمندر نہیں، ندامت کے چند آنسو ہیں۔ وگرنہ اس کی بُھوک کوٹھے اور مئے خانے آباد کر دیتی ہے۔ رات کی تاریکی عیب چُھپا لیتی ہے، کیوں کہ یہ جانتی ہے کہ عیوب کو ڈھونڈنا عیب سے بڑا عیب ہے اور خُوبیاں تلاش کرنے والے لوگ ہی خُوب صُورت ہوتے ہیں۔ رات کی تاریکی میں ہم جتنا اخلاص آسمان پر بھیجیں گے، دن کا اُجالا اُتنی ہی توفیق زمین پر لے آئے گا۔ ہم ادھورے لوگ ٹوٹے ہوئے کواڑ کے قفل ہیں، تو پھر اِترانا کیسا؟ رات کا ہارا ہوا شخص ایسی شان سے ہارتا ہے کہ دِن کا سورج احساسِ ندامت لیے عُمر بھر مغموم رہتا ہے۔
میرا المیہ یہ ہے کہ مُجھے آگہی کا روگ لاحق ہے۔ مُجھے وہ لوگ اچّھے نہیں لگتے، جو جیے بغیر مَر جاتے ہیں۔ جیے بغیر مَر جانا خُود کُشی کے مترادف ہے اور مہذّب لوگ خُود کُشی نہیں کرتے۔ خُود کُشی موت کو داغ دار کر دیتی ہے اور ربّ جسے مقرّب کر لیتا ہے، اُسے مردود نہیں ہونے دیتا۔ شاید اس لیے آج تک کبھی کسی درویش نے خُود کُشی نہیں کی۔ کبھی کبھی مُجھے لگتا ہے کہ شاید مَیں بھی اُسی بے ہنگم، عارضی، تھکا دینے والی، غُل مچانے والی، لاحاصل اور غیر مطمئن بَھیڑ چال کا حصّہ ہوں، جسے لوگ ’’زندگی‘‘ کہتے ہیں۔ جس دَور میں موٹے چشمے اور سفید بالوں والوں کا عقیدہ مال و زَر ہو، اُس عہد میں انسانیت بال کھولے، ننگے پاؤں گلیوں میں بھاگتی پھرتی ہے۔
درگاہِ شب پر صبح کی دستک ہونے لگی تھی۔ خُنکی اور بڑھ گئی تھی۔ موسم کی رَیل تبدیلی کی پٹری ہی پر اچّھی لگتی ہے۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ گاؤں کے یہ پرانے رسم و رواج اور روایات بھی کتنی عجیب ہیں۔ پیدایش سے پہلے ہی بچّوں کی نسبتیں طے کر دی جاتی ہیں۔ اکثر تو اس لیے کہ زمین تقسیم نہ ہو۔ ویسے مَیں نے اکثر دیکھا ہے کہ زمین جب بٹتی ہے، تو دِل بھی تقسیم ہو جاتے ہیں۔ میری تایا زاد بہن، ناصرہ کی نسبت اُس کی پیدایش سے پہلے ہی میرے بھائی، ساجد کے ساتھ طے کر دی گئی تھی۔
گرچہ میری ہونے والی بھابھی خُوش شکل اور خُوش مزاج تھی، لیکن بھائی پر بیرونِ مُلک جانے کا جنون سوار تھا اور وہ وہاں سیٹل ہونے کے لیے کسی غیر مُلکی خاتون سے شادی کرنا چاہتا تھا، مگر خاندان کی ناراضی کے ڈر سے کسی سے اظہار نہیں کرتا تھا۔ البتہ کبھی کبھار ڈھکے چُھپے الفاظ میں اپنی یہ خواہش زبان پرلے آتا تھا۔ اس بات کا علم میری ہونے والی بھابی کو بھی تھا، مگر وہ خاموش رہتی اور حسرت و محبّت سے میرے بھائی کو دیکھتی رہتی۔ مَیں اُس کے کرب سے واقف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں نے ساجدبھائی کو منانے کی بہت کوشش کی، مگر وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔
پھر ایک روز خاندان میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ ناصرہ نے ساجد بھائی کے ساتھ شادی سے انکار کر دیا۔ تایا، تائی سمیت گھر کے دوسرے افراد نے اُسے لاکھ سمجھایا، مگر وہ نہیں مانی۔ نتیجتاً، دونوں گھروں کے درمیان اجنبیت کی ایک دیوار کھڑی ہو گئی اور ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بند ہو گیا، مگر رشتے داری کی وجہ سے ہم مکمل قطع تعلقی نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا، خوشی غمی کے موقعے پر کبھی کبھار دونوں گھرانوں کے افراد میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ تایا کا خاندان ہمارے گھر والوں سے شرمندہ تھا اور پھر ایک روزناصرہ کا رشتہ ساتھ والے گاؤں میں ہماری برادری ہی کے ایک زمین دار سے طے کر دیا گیا۔
شادی کا ہنگامہ جاری تھا۔ بارات آ چُکی تھی۔ مُجھے ناصرہ کا پیغام ملا کہ مَیں اُس سے ملوں۔ جب مَیں اُس سے ملا، تو اُس نے سب سے چُھپا کر ایک بند لفافہ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ساجد کو دے دینا۔‘‘ اور پھر اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
بارات دُلہن کو لے کر واپس جا چُکی تھی۔ ناصرہ کے گھر میں ہجر کا دُکھ تھا اور دُلہن کے آنسو سُرخ کپڑوں سے گر کر بھی خُشک نہیں ہوئے تھے۔ مَیں ساجد بھائی کو ڈھونڈتا ہوا گاؤں سے باہر بوڑھے برگد کے نیچے جا پہنچا۔ وہ وہاں شرمندہ شرمندہ سے بیٹھے تھے۔ مَیں نے پوچھا، ’’ساجد بھائی! آپ نے شادی میں شرکت کیوں نہیں کی۔ وہاں سب آپ کا پُوچھ رہے تھے۔‘‘ انہوں نے نظریں جُھکاتے ہوئے جواب دیا کہ ’’ مَیں نے ناصرہ کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ شاید ہماری شادی نہ ہو سکے، کیوں کہ مُجھے بیرونِ مُلک جانا ہے اور شاید وہاں مستقل رہایش اختیار کرنے کے لیے مُجھے کسی غیر مُلکی خاتون سے شادی بھی کرنا پڑے، لیکن مُجھ میں اپنے گھر والوں کے سامنے انکار کرنے کی جرأت بھی نہیں ہے اور وہ یہ سُن کر خاموش ہو گئی تھی۔‘‘
پھر کچھ دیر توقّف کے بعد ساجد بھائی نے مُجھ سے پوچھا، ’’تم سناؤ۔ کیسے آنا ہوا؟‘‘ ’’آپ کا ایک پیغام لے کر آیا ہوں۔‘‘ میں نے وہ لفافہ اُنہیں پکڑا دیا۔ ساجد بھائی نے فوراً لفافہ کھولا۔ اُس میں لکھا تھا کہ ’’ساجد! تم نے کبھی آخری چُوڑی ٹوٹ جانے کے بعد کلائی کا دُکھ محسوس کیا ہے۔ محبّت کا راز اور نارسائی کا دُکھ صرف رات ہی جانتی ہے۔ رات کی خاموش تاریکی ہی جانتی ہے کہ ماتم کا ماتم کیا ہوتا ہے۔ تم بھی جانتے ہو کہ مَیں تم سے کس قدر محبّت کرتی ہوں۔
عمرِ رواں وہی ہے، جو کسی دَر پر آ کر رُک جائے، ورنہ آدمی جی کر نہیں، تھک کر مَر جاتا ہے۔ تعلق کم زور پڑ جائے، تو لفظ اپنے مفہوم بدل لیتے ہیں۔ تم نے کہا تھا ناں کہ’’ تمہیں باہر جانا ہے۔واپسی میں برسوں لگ جائیں گے، توکیامَیں تمہارا نتظار کرلوں گی اورپھرتمہیں وہاں سیٹل ہونے کے لیے شادی بھی کرنی پڑے گی۔‘‘ تو مَیں نے جواب دیا تھا کہ ’’وصل کی رَیل ہجر کی پٹری پر نہیں چل سکتی۔ جس کی رگوں میں خُون دوڑتا ہو اور جس کے پاؤں سلامت ہوں، وہ لیٹر باکس نہیں ہوتا، جو ایک جگہ اِستادہ پیغامات اور خطوط کا منتظر رہے۔ انتظار کے موسم سے کئی موسم پُھوٹتے ہیں۔
برسات کی رُت بھی اُسی موسم سے جنم لیتی ہے، جس کی شدّت سے کچّی قبریں صفحۂ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ انتظار کے بادلوں سے صرف اشکوں کی بارش ہی برستی ہے۔‘‘ تم نے پوچھا تھا کہ’’ مَیں اُداس کیوں ہوں؟ ‘‘تو سُنو، اُداسی وقار کی علامت ہے اور چیخ پکار، گلے شکوے کم ظرفی کی نشانی۔ مَیں نے تمہارا خوف ختم کر دیا اور خُود ہی انکار کر دیا، تاکہ تم پر حرف نہ آئے۔ محبّت کے مقدّر میں ازل سے قُربانی لکھی ہے۔ قُربانی قُرب کا سبب بنتی ہے اور جس کو قُربِ حقیقی عطا ہو گیا، سمجھو اُس کی قربانی قبول ہو گئی۔
شاید یہ خُوش گُمانی مُجھے بھی ہے۔ اگر مزدور کی بیٹی چُھپ کر راج کُماری بننے کے خواب دیکھ سکتی ہے، تو میرے تو خواب بھی اپنے تھے اور اپنوں ہی کے دیے ہوئے تھے۔ آج تک کوئی ایسا دَر نہیں بنا، جو خوابوں کو روک لے۔ رات اور خاموشی بہت سے بھرم رکھ لیتی ہے۔ اپنی محبّت سے دست بردار ہونا آساں نہیں ہوتا۔ رات بَھر ایک تکیہ بھیگتا رہتا ہے۔
مال و زَر کے لالچ نے جمال والے ربّ کی دُنیا کو بہت بدصُورت بنا دیا ہے اور جب یہ مکمل بدصُورت ہو جائے گی، تو مِٹ جائے گی۔ خط پڑھ کر جلا دینا، یہ دُنیا جلے ہوئے خطوں کی وجہ ہی سےآباد ہے اور اس کی خُوب صُورتی اہلِ دل ہی سے قائم ہے ۔ بھرم کی کائنات ایک بار اُجڑ جائے، تو دوبارہ کبھی آباد نہیں ہوتی۔ دیکھو! میرے انکار نے تمہارا بھرم رکھ لیا ۔ یاد رکھنا، بھرم سے بڑھ کر کوئی خُوب صُورتی نہیں۔‘‘
فقط تمہارا بھرم…
ناصرہ