ماہ دسمبر میں ہماری قومی تاریخ کے اہم واقعات ہوئے جنہیں ہم کئی کبھی نہیں بھلا نہیں سکے نہ ہی بھلا سکیں گے ۔16دسمبر1971ء کو قائد اعظم کا پاکستان دو لخت ہو گیا ,52سال بعد بھی مورخ ’’سقوط ڈھاکہ‘‘ کے اصل اسباب بیان کرنے کی بجائے اپنی اپنی عینک سےواقعات کو دیکھ اور قلمبند کر رہے ہیں۔ تاحال کوئی مورخ حتمی طور اس بات کا تعین نہیں کر سکا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کا اصل ذمہ دارکون تھا؟ اس سانحہ کے بیشتر کردار اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ میں شاید راولپنڈی اسلام آباد کا واحد صحافی ہوں جس نے زمانہ طالبعلمی میں ایوب خان کے خلاف تحریک کے دوران اس وقت کے مشرقی پاکستان ہائوس (بعدازاں کچھ عرصہ کیلئے سپریم کورٹ اس عمارت میں منتقل ہو گئی اب سپریم کورٹ نے یہ عمارت ایک نجی میڈیکل کالج کو کرایہ پر دے دی ہے) میں نے ’’بنگلہ بندو ‘‘ شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کی جو ایوب خان کی طلب کردہ گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے دیگر بنگالی لیڈروں کے ہمراہ قیام پذیر تھے۔ ایوب خان نے ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی کی قیادت کے مطالبے پر شیخ مجیب الرحمن کو، جو اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار تھے، رہا کر دیا تھا میں اور عبدالرشید شیخ (پیپلز پارٹی) گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کے عہدیدار تھے ہمیں شیخ مجیب سے ملاقات کی خواہش مشرقی پاکستان ہائوس لے آئی، وہ ایک متاثر کن شخصیت تھے۔ شیخ مجیب الرحمن نے1966میں 6نکات پیش کئے تھے اور اسی حوالے سے ہی اگرتلہ سازش کو شہرت ملی، اس وقت 6نکات کا ذکر غداری اور پاکستان کو دو لخت کرنے کی سازش تصور کیا جاتا تھا، تاہم اگر 6نکات کی بنیاد پر آئینِ پاکستان بنتا تو نہ صرف پاکستان ایک کنفیڈریشن میں تبدیل ہو جاتا بلکہ عملاً پانچ ریاستوں میں منقسم ہو جاتا، پاکستان کو متحد رکھنا ممکن نہ رہتا۔ پاکستان کے دونوں حصوں کی سیاسی قیادت کوئی سیاسی تصفیہ کرنے میں ناکام رہی، شیخ مجیب الرحمن کی بغاوت کچلنےکیلئے ریاستی طاقت کا بے رحمانہ استعمال بنگلہ دیش کے قیام میں معاون ثابت ہوا۔ اگر شیخ مجیب 6نکات پر نظر ثانی کرنے پر اور ذوالفقار علی بھٹو شیخ مجیب کو وزیر اعظم کے طور پر قبول کر نے پر آمادہ ہو جاتے تو پاکستان متحد رہتا لیکن ذوالفقار علی بھٹو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کی بجائے اقتدار میں شیئر مانگ رہے تھے جبکہ شیخ مجیب 6نکات سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں تھے۔ سیاسی کشمکش کے نتیجے میں فوجی کارروائی ہوئی 35ہزار افراد پر مشتمل فوج کو بھارت کی 5لاکھ فوج کے سامنےسرنڈر کرنا پڑا جب کہ مکتی باہنی کی شکل میں پورا مشرقی حصہ مسلح افواج سے لڑ رہا تھا۔ جب حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پبلک کی گئی تو میں وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کا واحد اخبار نویس تھا جو کیبنٹ ڈویژن میں ایک ماہ سے زائد عرصہ تک کمیشن کا مطالعہ کرتا رہا اس کمیشن میں عسکری شکست کی تحقیقات تو کرائی گئیں لیکن سیاسی شکست کے باب کو نہ چھیڑا گیا حالانکہ پاکستان کے دو لخت ہونے کی بنیادی وجہ سیاسی تصفیہ میں ناکامی تھا۔ میں 1994ء میں سارک ممالک کے پریس کلبز کی پریس کانفرنس میں راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کی نمائندگی کیلئے ڈھاکہ گیا تو مجھے وہاں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے ملاقاتوں کا موقع ملا میں نے ڈھاکہ میں ان بنگالی اور بہاری پاکستانیوں کو تلاش کیا جن کے دلوں میںآج بھی پاکستان رچا بسا ہوا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم، فضل القادر چوہدری کے صاحبزادے صلاح الدین، مشتاق کھنڈکر سے ملاقاتیں کیں ڈھاکہ کینٹ میں مقیم کرنل فاروق سے بھی ملاقات کی جن کے بارےکہا جاتا تھا کہ انکی قیادت میں شیخ مجیب الرحمن کو قتل کیا گیا، بیگم حسینہ واجد کی حکومت نے پاکستان کی فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں جماعت اسلامی کے متعدد رہنمائوں کو پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا۔ حکومتی سطح پر جہاں سانحہ مشرقی پاکستان کی مصدقہ تاریخ مرتب کرنی چاہیے وہاں ان شہداء کی یادگاریں تعمیر کرنی چاہئیں جو متحدہ پاکستان کیلئے مر مٹے۔
آج سے9سال قبل آرمی پبلک اسکول پشاور میں زیر تعلیم طلباء کو جس بے دردی سے تہ تیغ کیا گیا اسے ہم بھلا نہیں پائے، ان بچوں کے والدین آج بھی اس غم کی کسک محسوس کر رہے ہیں، اگرچہ دہشت گردی کے اس واقعےمیں ملوث کئی افراد نشان عبرت بن چکے ہیں لیکن پاکستان میں آج بھی بعض لوگ دہشت گردوں کے بارے میں دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ہمیں بحیثیت قوم دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس رکھنی چاہیے پاکستانی معاشرے میں دہشت گردوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
27دسمبر 2007ء کولیاقت باغ میں جلسہ عام میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا، بظاہر بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کا نشانہ بنا یا گیا لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بے نظیر بھٹو کا قتل ایک سیاسی قتل تھا، میں جولائی2007ء کو آل پارٹیز کانفرنس کی کوریج کے لئے لندن گیا تو وہاں بے نظیر بھٹو سے ملاقات کا موقع ملا، انہوں نے انٹرویو کے دوران اس بات کا انکشاف کیا کہ وہ اکتوبر2007کو پاکستان واپس آ رہی ہیں، برطانیہ مقیم آصف بٹ اور میں نے اکٹھے انٹرویو کیا، میں نے آصف بٹ سے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی جان کو خطرہ ہے وہ پاکستان واپس نہیں جائیں گی لیکن وہ ایک بہادر خاتون تھیں، وہ پرویز مشرف کی دھمکی کے باوجود پاکستان واپس آ گئیں تو کراچی میں ان کے جلوس میں بم دھماکہ ہو گیا لیکن وہ بال بال بچ گئیں، انہوں نے جان کی پروا کئے بغیر 27دسمبر2007ء کو لیاقت باغ کے جلسہ عام سے خطاب کیا، جہاں 16اکتوبر 1951 میں چند قدم کےفاصلے پر لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا تھا۔ کمپنی باغ کا نام اسی حوالے سے لیاقت باغ رکھ دیاگیا تھا ۔ اس سے 5کلومیٹر دور ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔ آج پھانسی گھاٹ کا نام و نشان مٹا دیا گیا ہے۔ پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو کے قتل کی نیت سے آنے بیت اللہ محسود کے بھجوائے گئے دہشت گردوں بارے میں بروقت رپورٹ ملی تھی لیکن حیرت ہے کہ پرویز مشرف بینظیر بھٹو کی حفاظت کا انتظام نہ کر سکے! آج17سال گزرنے باوجود بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا سراغ مل سکا اور نہ ہی انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکا ہے۔