حالیہ ماحولیاتی کانفرنس میںاہم فیصلے کیے گئے ہیں۔موسمیاتی کانفرنس عالمی موسمیاتی گورننس کے عمل میں ایک انتہائی اہم اجلاس تھا ۔ کانفرنس کے نتائج چین کی ماحولیاتی تہذیب کے تصور اور سبز اور کم کاربن تبدیلی کو فروغ دینے کے بارے میں اس کی سفارشات کے مطابق ہیں اور عالمی موسمیاتی تبدیلی کے عمل کے اگلے مرحلے کی سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ چین اور دیگر ممالک کی مشترکہ کوششوں سے دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی تک رسائی اور کمرشلائزیشن ایک حقیقت بن چکی ہے۔ چین کی کوششوں سے فوٹو وولٹک بجلی کی پیداوار کی لاگت میں 90فیصد اور ہوا سے بجلی کی لاگت میں 70 سے 80 فیصد تک کمی آئی ہے اور چین نے موسمیاتی تبدیلی کے عالمی ردعمل میں سبز اور کم کاربن ترقی کو فروغ دینے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ماحولیاتی کانفرنس میں ، 110ممالک نے قابل تجدید توانائی 3گنا بڑھانے کا عہد کیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کے لیے دنیا کے ممالک نے سر جوڑ لئے ہیں۔ماحولیاتی کانفرنس کوپ 28 کے دوران 110 سے زائد ممالک نے 2030 تک دنیا کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو تین گنا بڑھانےکے معاہدے پر دستخط کردیئے ہیں ، کانفرنس میں تیل اور گیس پیدا کرنے والی 50 کمپنیوں نے 2050تک کاربن فری ہونے کا اعلان بھی کیا ہے ،کاربن فری معاہدے میں سعودیہ اور امارات سمیت 29ممالک کی سرکاری کمپنیاں شامل ہیں، امریکا نے کوپ 28ماحولیاتی کانفرنس میں گرین کلائمٹ فنڈ کیلئے 3ارب ڈالر دینے کا وعدہ کرلیا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیاتی کانفرنس کے دوران عالمی ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کیلئے مختلف معاہدے اور وعدے کئے گئے ہیں۔ 110ممالک نے قابل تجدید توانائی کی پیداوار 300فیصد بڑھانے کا وعدہ بھی کیا ہے ، یہ ممالک رواں دہائی کے آخر تک عالمی قابل تجدید توانائی کی پیداواری صلاحیت کو کم از کم 11ہزارگیگا واٹ تک لانے کیلئے مل کر کام کرنے کا تہیہ رکھتے ہیں ، کانفرنس میں تیل اور گیس پیدا کرنے والی 50 کمپنیوں نے 2050تک کاربن فری ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے، سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی آرامکو اور متحدہ عرب امارات کی اے ڈی این او سی اُن 29 سرکاری کمپنیوں میں شامل ہیں جنہوں نے ایک غیر پابند معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس میں میتھین کا اخراج صفر کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔کوپ28 کے 117 ممالک نے دستخط کئے ہیں، اور2050 تک گرین ہاؤس گیسوں کے خالص صفر اخراج کو حاصل کرنے کے عالمی ہدف کیلئے ہوا، شمسی اور دیگر قابل تجدید توانائیوں کو بڑھانا انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ قابل تجدید توانائی کو تین گنا کرنا سرمایہ کاروں اور مالیاتی منڈیوں کو ایک بہت مضبوط پیغام دیتا ہے کہ پوری دنیا اس مقصد کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کوپ28ماحولیات کے معاہدے پر بات چیت کرنے والے تقریباً 200 ممالک کو جیواشم ایندھن کے مستقبل پر آئندہ سخت مذاکرات کا سامنا کرنا ہوگا دنیا اس بحران کا مقابلہ کر سکتی ہے اور اسے ضرور کرنا چاہیے۔امریکا عالمی ماحولیاتی فنڈ میں 3 ارب ڈالر کا حصہ ڈالے گا ، یہ 2014کے بعد امریکا کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کیلئے پہلا فنڈ ہے جس کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ آخری بار ترقی پذیر ممالک کے لئے فنڈ میں شراکت اس وقت کے صدر باراک اوباما کے دور میں کی گئی تھی، جنہوں نے 2014 میں 3 ارب ڈالردینے کا وعدہ کیا تھا۔دنیا کا سب سے بڑا کلائمیٹ فنڈ ترقی پذیر ممالک میں،پاکستان میں سولر پینلز یا ہیٹی میں سیلابوں سے نمٹنے اور تخفیف کے منصوبوں کے لئے گرانٹس اور قرضے فراہم کرتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں مدد کرنے کے مالی وعدوں کو پورا کرنے میں دولت مند ممالک کی ناکامی نے موسمیاتی مذاکرات پر تناؤ اور عدم اعتماد کو ہوا دی ہے۔ترقی پذیر ممالک جو موسمیاتی تبدیلی کے لیے سب سے کم ذمہ دار ہیں وہ زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک سے موسم کی شدت کے بڑھتے ہوئے بھیانک نتائج کو بھگتنے اور ان کے صاف توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی کے لیے تعاون کے خواہاں ہیں۔30نومبر سے شروع ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس 12دسمبر کو ختم ہو گئی ہے جس میں ماحولیاتی آلودگی کی روک و تھام کے لیے اہم فیصلے کئے گئے ہیں پاکستان کے حوالے سے ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ کے تدارک پر اقدامات کے لیے کوپ کانفرنس میں پاکستان کے نگران وزیراعظم بھی شریک ہوئے ، پاکستان میں گندم اور چاول کی فصل کی کٹائی کے بعد جو باقیات کھیتوں میں بچتی ہیں ان کو جلانے کی بجائے مشروم بنایا جا سکتا ہے جس میں انسانوں کے لیے بے شمار فوائد موجود ہیں ترقی یافتہ ممالک میں مشروم بنانے کیلئے بے شمار طریقے اپنا کر وہاں کے پاشندوں کو مشروم سے وٹامن اور دیگر ضروری صحت کے اجزا میسر ہوئے ہیں اگر ہماری حکومت مشروم کی تیاری کیلئے کسانوں کو زرعی اداروں کی مدد سے آگاہی مہم شروع کرے تو ہم فصل کی باقیات سے ملک کے باشندوں کیلئے مشروم تیار کر کے اسموگ سے بھی محفوظ رہ کرسکتے ہیں لیکن کسانوں کو اس طریقہ سے مشروم تیار کرنے کیلئے آگاہی مہم چلانا لازمی ہے۔
اسموگ کی وجہ سے دھان کی فصل کے بھوسہ کو جلانے پر حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے۔کسان بھوسہ کو تلف کیے بغیر اگلی فصل کاشت نہیں کر سکتا ۔ بھوسہ کو جلانے کی بجائے اس کو دیگر مقاصد کیلئے استعمال کرنا ممکن ہے اس کیلئے حکومت کسان کی مدد اور رہنمائی کرے تو یہ بھوسہ بہت کام کی چیز ہےکئی برس پہلے چاول کے کارخانہ مالکان چاول کے چھلکے یعنی’’تو‘‘ سے تنگ تھے پھر اس کا استعمال شروع ہوا تو یہ بکنے لگا۔ گلی ہوئی پرالی کے ذریعے مشروم کی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے کسانوں کی مناسب رہنمائی ضروری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)