قائداعظم محمد علی جناح 71سال کی عمر میں پاکستان اور پاکستانیوں کو داغِ مفارقت دے گئے۔ وہ ایک انتہائی ذہین وکیل، ایک کھرے سیاستدان اور ایک مہربان رہنما تھے۔ انکی زندگی، وژن اور کارنامے قابلِ تقلید ہونے کے ساتھ ساتھ رہنمائی کے بیشمار مواقع کے حامل ہیں۔ قائد نے پاکستان جیسے ناقابلِ یقین معرکے کو ممکن بنایا، قائد کی رہنمائی اور انکے افکار ہمیں خوشحالی اور ترقی کی گم کردہ منزل واپس دلا سکتے ہیں۔ قوم کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم المرتبت انسان کا شکریہ ادا کرے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط پر عمل پیرا ہونا اس کا بہترین طریقہ ہے۔ داخلی اور خارجی دونوں طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کا راستہ قائداعظم کی زندگی اور طرزِ عمل میں پوشیدہ ہے۔
قائد کے بعد، افسوس کہ انکی جگہ لینے والا کوئی دوسرا نہیںتھا ۔جس سیاسی و سماجی نظام کی انہوں نے آبیاری کی تھی، اس کا نقشہ ہی بدل دیا گیا اور کچھ سال بعد اسکا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ قائداعظم بنیادی طور پر جمہوریت پسندتھے۔ انکی تقریریں اور فرمودات اداروں کی افادیت و اہمیت کے حوالے سے مکمل رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ پختہ یقین رکھتے تھے کہ، ’’جمہوریت کی بدترین شکل بہترین آمریت سے کہیں زیادہ بہتر ہے‘‘۔ انکا جمہوریت کا تصور جدید ترقی یافتہ فلاحی اسلامی ریاست پر مبنی تھا۔ قائد کے پیش نظر، مغربی جمہوریت کے تصورات اور اسلامی اقدار کے مابین غیر متصادم امتزاج کا نظریہ تھا ۔ حکمرانی کے قوانین جو قرآن اور شریعت کے اصولوں کی ترجمانی کرتے ہیں، پاکستان کیلئےاب بھی بہترین نمونہ ہیں۔ قائد کے پاکستان میں اشرافیہ، جاگیرداری، سرمایہ داری اور آمریت کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ باہمی ترقی پر یقین رکھتے تھے ۔ انہوں نے کبھی طاقت کے بے دریغ استعمال کی حمایت نہیں کی۔وہ مثبت مکالمے، دلیل اور فطری انصاف پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ وہ اکثریت کی رائے کا احترام کرنے کے اصول پر سختی سے کاربند رہے۔آج کئی دہائیوں بعد بھی جمہوریت ہی پاکستان کیلئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ متعدد فوجی آمریتوں، کرپٹ حکومتوں اور پرتشدد سماجی و سیاسی تحریکوں کے بعد بھی، نجات اسی آسان حل میں مضمر ہے۔ اکثریت کی حقیقی نمائندگی ہی حقیقی ترقی تک پہنچا سکتی ہے۔
قائد اعظم کو جدیدیت اور اصلاحات سے پیار تھا۔وہ برصغیر میں جدید ترین نظریات کے حوالے سے سب سے زیادہ مشہور تھے۔ جب وہ لندن سے اپنے وطن واپس آئے تو وہ سب سے اچھا لباس پہننے والے، انتہائی نامور اور ماہر وکیل تھے۔ نہ صرف لباس میں، بلکہ اپنے خیالات میں بھی وہ انتہا کے نفاست پسند تھے ۔ 1920ء اور 30کی دہائی میں دنیا استعمار کی ناانصافیوں سے آگاہ ہو چکی تھی۔ غلامی کی زنجیریں کمزورپڑرہی تھیں۔قائدِ اعظم محمد علی جناح کو اس کا علم تھا انہوں نے برصغیر کی آزادی کیلئے جدوجہد شروع کر دی۔ وہ اتحاد اور ہم آہنگی پر یقین رکھتے تھے۔ وہ اپنی مشرقی اسلامی اقدار کے سچے پیرو کار تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ، ان کی تقاریراور طرز عمل ان کے جدید تشخص کو ظاہر کرتے تھے۔ قائد مسلم امہ (ملت اسلامیہ) کی اصلاح پر یقین رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان ان میں سے ایک ایسی روشن خیال قوم بنے، جواسلام کی اقدار کو نئے معنی بخشے اور مغرب سے کہیں بہترہو۔ پاکستان میں بہت سے دھڑے اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مذہب اور ہماری روایات ہی ہیںجو ہمیں آگے بڑھا سکتی ہیں۔ مناسب اصلاح اور جدت کے بغیر، ایک فلاحی ریاست کا خواب ہمیشہ ایک خواب رہے گا۔
قائد کانگریسی ہندوؤں کے مظالم کے نتیجے میں پاکستان کے مطالبے پر قائل ہوئے۔ قائد نے محسوس کیا کہ انگریز سے آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمان غالب ہندو آبادی کے رحم و کرم پر ہونگے، شایدانہیں ہندو دیوتاؤں کے سامنے جھکنے پر بھی مجبور ہونا پڑے۔ چنانچہ، وہ ''دو قومی نظریہ'' کے شدید حامی بن گئے۔ ایک ایسا نظریہ جس کی ہندوؤں نے زور شور سے تردیداور مخالفت کی، آج تک اس کی من گھڑت تشریح کی جاتی ہے۔ آج یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ قائد بالکل درست تھے، برصغیر کے مسلمان ہندو نظریہ کے تحت کبھی آزادا نہیں رہ سکتے تھے۔ کشمیریوں پر ظلم، بابری مسجد کی مسماری، مسلمانوں کے انسانی حقوق کی معطلی، دہلی کے مسلم مخالف ایجنڈے، اکثریتی مسلمانوں کی مضحکہ خیز اقلیتی حیثیت اور نریندر مودی سرکار کا انتہا پسندانہ رویہ ''دو قومی نظریہ'' کی سچائی کا زندہ ثبوت ہے۔ برصغیر کے حوالے سے گاندھی کا ورژن صرف کاغذات میں موجود ہے۔ یہی صورتحال ہندوستان میں سکھوں سے متعلق بھی ہے۔ ہم پاکستانیوں کے پاس، قائد اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور اس نعمت کی اہمیت کا احساس کرنے کی ٹھوس وجہ ہے جو پاکستان کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔قائد مذہبی آزادی پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ قائد نے دنیا کے سامنے پاکستان کی منفرد شناخت کے کئی منصوبے مرتب کیے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیلئے ان کا وژن اخلاقیات، انصاف اور برابری پر مشتمل تھا۔ قائد نے ہمارے لئے کیارہنما اصول چھوڑ ے؟ انہوں نے 12 اکتوبر 1945 کو کہا:
''مجھے امید ہے کہ یہودی اپنے مذموم منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے اور میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکہ ان کی پشت پناہی ترک کر دیں پھر میں دیکھوں گا کہ یہودی یروشلم کو کس طرح فتح کرتے ہیں۔ لوگوں کی خواہشات کے خلاف پہلے ہی یہودی، جو نصف ملین سے زیادہ ہیں، یروشلم میں رہائش پذیر ہیں۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ دوسرے کون سے ملک نے ان کو رہائش دی ہے؟ اگر اب تسلط اور استحصال کیا جاتا ہے تو، وہاں نہ امن ہو سکے گا اور نہ جنگ کا خاتمہ ہوگا‘‘۔آج تاریخ نے ان کی باتوں کوسچ ثابت کر دیا ہے۔
طاقت، دولت اور اثر و رسوخ، ایمان، انصاف اور بھائی چارے کے نظریات کو سبوتاژ نہیں کر سکتے ۔ قائد کو 1945 میں بھی فلسطینیوں کی حالت زار کا اندازہ تھا۔ ہرگزرتے سال کے ساتھ، ہم اپنے قائد کی عظمت اور ان کے ہمارے لیے چھوڑے گئے زریں اصولوں سے زیادہ واقف ہوتے جا رہے ہیں۔ خدا ہمارے قائد کی روح کو سکون بخشے اور ہمیں ان کے خوابوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو انہوں نے ہمارے لئے دیکھے تھے۔
(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)