• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے قیام اور ریاستی امور میں قائد اعظم ؒ کا کردار

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام تحریک آزادی کے دیگر قائدین کے ساتھ ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلسل جدوجہد اور قانونی جنگ کا ثمر ہے۔ بابائے قوم نے اپنی سیاسی و قانونی بصیرت کا مظاہرہ کرکے برِصغیر کے نقشے پر ایک آزاد مملکت پاکستان کا قیام ممکن کردکھایا۔ قائد اعظم کی طلسماتی شخصیت کا طرز عمل آئین پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 

آپ بڑے مدلل انداز میں پاکستان کی جدوجہد مختلف صورتوں میں زیربحث لائے اور ثابت کیا کہ پر امن آئینی جدوجہد ہی سب سے بہتر اور درست راستہ ہے۔ ’’جناح آف پاکستان‘‘ کے مصنف اسٹینلے والپرٹ نے قائد اعظم ؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مضبوط اعصاب کے مالک ا فراد ہی راکھ کے ڈھیر کوگلزار بناسکتے ہیں۔ ’’کچھ لوگ تاریخ کے دھارے کو تبدیل کردیتے ہیں،جبکہ ان میں سے بھی کچھ معدودے چند ہوتے ہیں، جو دنیا کے نقشے میں ترمیم کرتے ہیں۔ ان میں بہت ہی کم لوگ نئی قومیت پر ملک تعمیر کرنے کا سہرا سر پرسجاتے ہیں۔ جناح نے یہ تینوں کام کر دکھائے ‘‘۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں پانچ اہم امور سے روشناس کرایا۔ ایک متفق آئین، دوسرافوج میں اتحاد و یگانگت، تیسرا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح( جس کے بعد اپنی کرنسی چھاپنے کی راہ کھلی)، چوتھا مہاجرین کی بحالی اور پانچواں امن و محبت اور یگانگت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کےفروغ پر مبنی خارجہ پالیسی۔ اس کے علاوہ مملکت چلانے کے تین زریں اصول ’’تنظیم، اتحاد اور ایمان‘‘ مرتب کرتے ہوئے صرف کام،کام اور کام کو اپنانے پر زور دیا۔

قائد اعظم کی کراچی آمد

25دسمبر1876ء کو کراچی کے وزیرمینشن میں پیدا ہونے والےقائد اعظم محمد علی جناح اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اور خاص ملازمین کے ساتھ طویل عرصے کے بعد 7اگست1947ء کو دلّی سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے جہاز میں اپنی جائے پیدائش کراچی آئے تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ قائد کی جھلک دیکھتے ہی فضا قائد اعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔

قائد اعظم کی بحیثیت گورنر جنرل تقرری

پاکستان 14اگست1947ء کو معرضِ وجود میں آیا۔ اقتدار کی پر امن منتقلی کے لیے دارالحکومت کراچی میں آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں قائد اعظم نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا۔ اس موقع پر برطانیہ کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’پاکستان کا وجود میں آنا تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے۔ 

عزت مآب شاہِ برطانیہ اوراپنی طرف سے دلی مبارکبادپیش کرتا ہوں‘‘۔ قائد اعظم نے خیر سگالی الفاظ کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’’ہم دوستوں کی طرح رہے ہیں اور ہماری دوستی ہمیشہ رہےگی‘‘۔ اس موقع پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائداعظم کو نئے گورنر جنرل بننے پر نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ 15 اگست 1947ء کو لاہور ہائی کورٹ کےچیف جسٹس سرعبد الرشید نے قائد اعظم سے بحیثیت گورنر جنرل پاکستان حلف لیا۔

تقسیم ہند، فسادات اور ہجرت

ریڈکلف سرحدی کمیشن نے آسام، بنگال اور پنجاب کی مسلم ہندو اکثریت کے مطابق تقسیم کا کام مکمل کر کے رپورٹ 12اگست کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھجوا دی تھی۔ رپورٹ آتے ہی فسادات پھوٹ پڑے اور مسلمانوں نے اس تقسیم کو مسترد کردیا کیونکہ اس میں کئی مسلم اکثریتی صوبے ہندستان کے پاس تھے۔ 

اس مشکل صورت حال میں بانی پاکستان نے ہنگامی طور پرلاہور کا دورہ کیا۔ ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے عوام کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا،’’ اس نازک صورتحال میں اپنے جذبات پرقابو رکھیں‘‘۔ پاکستان آنے والے 80لاکھ لوگوں کی آباد کاری کے لیے قائد اعظم تمام کوششیں بروئے کار لائے۔ مہاجر کیمپوں کا دورہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا،’’ یہ مشکل گھڑی عنقریب ختم ہوجائے گی‘‘۔

ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ

تمام تنازعات میں ریاست جموں و کشمیر سب سے بڑاتنازع تھا۔ ریاست کی اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی، جس پر ایک ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی۔ مہاراجہ کے بھارت کی جانب جھکاؤ اور عوامی رائے کے برخلاف اس کے ساتھ الحاق نے مقامی آبادی کواکتوبر 1947ء میں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے پر مجبور کردیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ تاہم، بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث 70سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود یہ مسئلہ آج بھی حل طلب ہے۔

خارجہ پالیسی

قائد اعظم ؒ اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے حامی تھے، جس کے لیے 13اگست کو ایک نمائندہ امریکا بھیجا گیا۔ امریکا سے تعلقات استوار کرنے کا کام ابوالحسن اصفہانی کو سونپا گیا کہ وہ امریکا کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار کرنے کے لیے اپنی سفارتی کوششیں بروئے کار لائیں۔ قائد اعظم ؒ نے ایک وفد فلسطین بھی انٹر پارلیمینٹری ورلڈ کانگریس کے اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ کیا، جس کی سربراہی عبدالرحمٰن صدیقی نے کی۔

11مارچ1948ء کو سوئٹرزلینڈ کےایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئےقائد اعظم ؒ نےبھارت سے دوستانہ روابط پر زور دیتے ہوئے خارجہ تعلقات کی پالیسی امن و رواداری پر مبنی ہونے کی شنید دی۔ برطانیہ، امریکا، افغانستان، برما، سری لنکا، آسٹریلیا، فرانس، ترکی، چین، روس، سعودیہ عرب، ایران، عراق، یورپ کے تمام اہم ممالک سے خارجہ تعلقات کی بنیاد ’’امن و محبت اور رواداری‘‘ کے رہنما اصولوں پر رکھ کر ہمارے عظیم قائد نے ’’ پاکستان‘‘ کی صورت لافانی مملکت ہمارے حوالے کی۔

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان