جسٹس ایس اے رحمان
برّ صغیر پاک و ہند کی انتہائی قد آور شخصیت و سر سید ثانی تحریک پاکستان کے عظیم رہنما سید سلطان محمد شاہ آغاخان سوم نے بابائے قوم کو ان کی زندگی میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ونسٹن چرچل ، مہاتما گاندھی، اور جواہر لال نہرو، قائد اعظم ان سب سے عظیم ہیں، ان میں کوئی بھی کردار کی مضبوطی کے لحاظ سے قائد اعظم محمد علی جناح کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے اسی بات کو دوسرے انداز میں کہاتھا۔ اورنگزیب عالمگیر کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما تھے۔ بلا شبہ بانیٔ پاکستان ایک عہد آفرین شخصیت، عظیم قانون دان، بااصول سیاست دان اور بلند پایہ مدبر تھے۔ ان میں غیر معمولی قوت عمل ، غیر متزلزل عزم، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا۔
انہوں نے اپنی اٹل قوت ارادی، دانش وارانہ صلاحیتوں ، فہم و ادراک اور انتہائی مضبوط فولادی اعصاب کی مسلسل اور انتھک محنت سے مسلمانان پاک و ہند کے گلے سے صدیوں کی غلامی کا طوق اتار ااور پاکستان جیسی مملکت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ آج بانیٔ پاکستان کا یوم پیدائش ہے۔ اس موقع پر جسٹس ایس اے رحمان کی قائد اعظم سے چند ملاقاتوں اور وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے قائد کی ایک دلچسپ گفتگو کا احوال، نذر قارئین ۔
جون 1947ء میں تقسیم ہند کا منصوبہ سرکاری سطح پر زیرعمل تھا۔ مسلم لیگ اور کانگریس کے اکابر کی اپنی اپنی جماعت کے مفاد کی نگہداشت کے لیے شب و روز مساعی اوج پر تھی۔ اس سلسلے میں راقم کو مسلم لیگ کی جانب سے بکارر خاص نئی دہلی طلب کر لیا گیا۔ بادی النظر میں تو مجھے محض تقسیم کمیٹی کی ایک ذیلی کمیٹی، یعنی ’’توطن کمیٹی‘‘ کے رکن کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا، لیکن دہلی میں اپنے میزبان چوہدری محمد علی سے (جو تقسیم سے متعلق راہبر کمیٹی میں لیگ کے نمائندہ تھے) معلوم ہوا کہ لیگ کی جانب سے میری طلبی کی اصل غرض و غایت بعض آئینی مسائل پر اس خاکسار سے مشاورت تھی۔
ان دنوں ایک آئینی بل کا مسودہ برطانوی پارلیمنٹ میں آنے والا تھا، جس کا مقصد حکومت ہند کے آئین میں چند عبوری تبدیلیاں کرنا تھا، اس مسودے سے متعلق لیگ اور کانگریس دونوں سے استصواب رائے بصیغہ راز عمل میں آیا، چنانچہ وائسریگل لاج میں ایک کمرہ چوہدری محمد علی اور راقم کی تحویل میں دے دیا گیا۔ آئینی ترمیمات کا مسودہ راقم کے سپرد ہوا، اس کا مطالعہ کر کے مجھے اس پر تحریر کرنا تھا، لیکن مسودہ وائسریگل لاج سے باہر لے جانے کی اجازت نہ تھی۔
بعد از غور و خوض میں نے اپنا تبصرہ لکھا اور اسے قائداعظم کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے قریباً ساڑھے بارہ بجےدن اورنگزیب روڈ پہنچا۔ اطلاع کرانے پر فوراً میری طلبی ہوئی۔ قائداعظم نے مسودہ پڑھا اور ایک دو جگہ لفظی تبدیلی کی۔ ارشاد ہوا کہ مسودے کو دوبارہ ٹائپ کروا کے انہیں ایک مرتبہ پھر دکھا دیا جائے۔ ساتھ ہی بکمال شفقت فرمایا کہ میرے لیے وقت کی کوئی پابندی نہ ہوگی، بلکہ جب بھی ضرورت محسوس ہو، آ کر اطلاع کردوں تو فوراً مجھے طلب فر مالیں گے۔
میں واپس آیا وائسریگل لاج میں اسٹینو سے دوبارہ مسودہ ٹائپ کروایا، اس بھلے آدمی نے اس کام کی تکمیل میں ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا۔ جب میں دوبارہ مسودہ لے کر قائداعظم کی رہائش گاہ پر پہنچا تو دن کے دو بج چکے تھے۔ ان کے ذاتی سیکریٹری مسٹر خورشید سے معلوم ہوا کہ قائداعظم چند لمحے پہلے دوپہر کا کھانا نوش فرما کر اپنی خوابگاہ میں بغرض استراحت جا چکے ہیں اور اب ان کے آرام میں مخل ہونا ممکن نہ ہوگا۔
میں نے قائد کے سیکریٹری مسٹر خورشید کو مطلع کیا اور ان سے کہا کہ وہ میری آمد کی اطلاع کرا دیں اور فیصلہ خود قائداعظم کی صوابدید پر چھوڑ دیں۔ اُنہوں نے ایسا ہی کیا ، میں ڈرائنگ روم میں بیٹھ گیا۔ چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ قائداعظم کے قدموں کی چاپ بالائی منزل کی سیڑھیوں پر سنائی دی اور دوسرے لمحے وہ مسکراتے ہوئے ڈرائنگ روم میں تھے۔
اب پھر مسودے کی عبارت دہرائی گئی اور ایک آدھ لفظی ترمیم کا مشورہ ملا۔ حکم ہوا کہ صاف شدہ مسودہ آخری صورت میں ان کے ملاحظے سے گزرے۔ میں واپس گیا اور ارشاد کی تکمیل میں تین بجے سہ پہر کو پھر حاضر خدمت ہوا۔ اب کے مسودے کی منظوری مکمل ہوئی اور آپ نے ارشاد فرمایا: ’’میرا خیال ہے یہ مراسلہ اب کافی زوردار ہے۔ کہیے آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ میں نے بصد ادب اتفاق کیا تو فرمایا: ’’اب یہ مراسلہ آپ خود جا کر وائسرائے کے ذاتی سیکریٹری کو پہنچا آئیں ،تاکہ اسے انگلستان بھیجا جا سکے۔‘‘ مجھے اس بارے میں کیا عذر ہوسکتا تھا، چنانچہ میں لفافہ سربمہر کروا کے سر جارج ایبل کے سپرد کر آیا۔
اس واقعے میں قارئین قائداعظم کے عظیم کردار کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ باوجود پیرانہ سالی کے، آپ نے ذاتی ملازم پر منصبی ذمے داری کو فوقیت دی۔ سخت کوشی کے ساتھ ساتھ ان کی عادت عزم و احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کام کے ہر مرحلے پر جزئیات کار میں بھی ذاتی طمانیت کا اہتمام کرتے تھے۔
ان کی اس خصوصیت کے طفیل ان کا لکھا اور ان کا کہا، دونوں ہی سیاسی دنیا میں قطعی اور اٹل ہوتے تھے۔ وہ اپنے مخلصوں سے مشورہ طلب کرنے میں دریغ نہ کرتے تھے، لیکن بغیر غائر مطالعے کے، سرسری رائے کے اظہار کو ناپسند فرماتے تھے۔ خود محنت شاقہ کے خوگر تھے اور اسی نوع کی محنت کی دوسروں سے توقع رکھتے تھے۔
انہی ایام میں ان سے قرب کا ایک اور موقع میسر آیا۔ ایک روز چوہدری محمد علی اور میں اپنے کمرے میں مصروف کار تھے کہ گورنمنٹ ہند کے سیکریٹری قانون سر جارج اسپنس کمرے میں داخل ہوئے۔ چند لمحے بعد قائداعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان ہمارے کمرے میں تشریف لے آئے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے سر جارج اسپنس کو اس غرض سے طلب کیا ہے کہ وہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں ان مجوزہ ترمیمات کی تشریح کریں، جو بھارت اور پاکستان کے آئینی ڈھانچے کی بنیاد بننے والی تھیں۔ سب حضرات بیٹھ گئے اور سر جارج نے تفصیل کے ساتھ مجوزہ ترمیمات پر روشنی ڈالی۔
یہ کام اختتام کو پہنچا ہی تھا کہ غیر متوقع طور پر خود وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن تشریف لے آئے اور آتے ہی اپنی روایتی شگفتگی کے انداز میں فرمایا: میں امید کرتا ہوں یہاں ہر صاحب کو آسودگی ملی ہوگی۔ مجھے افسوس ہے کہ اس سے بہتر مکانیت آپ صاحبان کے لیے مہیا نہ ہوسکی۔‘‘ پھر قائداعظم کے قریب بیٹھ گئے اور ان سے ایک دلچسپ گفتگو کا آغاز کیا۔ میں کوشش کروں گا کہ حتی الوسع دونوں اکابر کے اصلی الفاظ، جہاں تک حافظہ کام کرتا ہے، پیش کرسکوں۔
(م سے مائونٹ بیٹن اور ق سے قائداعظم ہے)
م: مسٹر جناح! مجھے اس بات سے مایوسی ہوئی ہے کہ آپ مجھے بطور گورنر جنرل قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ میں تو گھر (برطانوی سرکار) کو لکھ چکا تھا کہ مجھے دونوں نئی ریاستوں کا مشترکہ گورنر جنرل نامزد ہونے کی امید ہے، لیکن مجھے افسوس ہے کہ آپ اس پر راضی نہیں ہیں۔
ق: لارڈ مائونٹ بیٹن! جب بھارت نے آپ کو اپنا گورنر جنرل نامزد کردیا تو ہمارے لیے مشکل ہوگیا کہ ہم بھی آپ کو گورنر جنرل کا عہدہ پیش کریں۔
اب بھی ہم یہ پسند کریں گے کہ آپ دونوں ملکوں کے گورنر جنرل سے بالاتر گورنر جنرل ہوں، جو برطانوی سرکار کی نمائندگی کر کے دونوں ملکوں کے درمیان منصفانہ تقسیم کا اہتمام کرے۔
م: لیکن برطانوی سرکار سوئے قسمت سے اس قسم کی تجویز سننے کی بھی روادار نہیں۔
ق: لارڈ مائونٹ بیٹن! کیا آپ جانتے ہیں کہ کیوں بھارتیوں نے آپ کو گورنر جنرل کا عہدہ پیش کیا ہے؟ اس لیے کہ وہ آپس میں اتفاق نہیں کرسکے کہ کون ان میں سے اس عہدے پر فائز ہو۔
گفتگو کا باقی حصہ میرے حافظے میں محفوظ نہیں رہا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ شگفتہ روی کے مظاہرے کے علی الرغم لارڈ مائونٹ بیٹن اس بات پر سخت خفا ہیں کہ لیگ کے اکابر نے انہیں دونوں ملکوں کے مشترکہ گورنر جنرل کی منزلت بخشنے سے انکار کردیا تھا۔
اس واقعے کے ایک دو دن بعد چوہدری محمد علی مجھے ایک شام خان لیاقت علی خان کے ہاں لے گئے۔ باتوں باتوں میں قائد ملت نے چوہدری صاحب سے استفسار کیا۔ ’’آپ نے انہیں بتا دیا ہے کہ نہیں؟‘‘ چوہدری صاحب نے جواب دیا کہ نہیں۔ اب یہ راز کھلا کہ مجھے بنگال سرحدی کمیشن میں لیگ کے نمائندہ رکن کی حیثیت سے کلکتہ جانا ہوگا اور یہ کہ لیگ کی جانب سے دوسرے نمائندہ رکن کلکتہ ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس محمد اکرم ہوں گے۔ میں اپنے ساتھ مختصر سامان لے کر گیا تھا، کیونکہ میرے اندازے کے مطابق دہلی کے قیام میں طوالت کا امکان نہ تھا۔ نئی صورتحال کے پیش نظر لاہور فون کیا گیا اور یوں مزید سامان کی فراہمی کے بعد میں کلکتہ جانے کے لیے تیار ہوگیا۔
روانہ ہونے سے قبل میں پھر قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوا، تاکہ نئی ذمے داری سنبھالنے سے پہلے ان کی دعائوں کا توشہ ساتھ لےجا سکوں۔ اس ملاقات میں قائداعظم نے سرحدی کمیشن کے دائرہ عمل پر اظہار خیال کیا۔ کمیشن کے امور حوالہ میں سے اہم ترین یہ امر تھا کہ شمال مغربی اور جنوب مشرقی خطوں میں مسلم اکثریت کے علاقوں کا تعین کر کے دونوں نئے ملکوں کی حد بندی کرے گا، لیکن یہ امر ’’دیگر عوامل کے تابع‘‘ تھا۔
یہ شرط بعد میں کمیشن کے صدر سر ریڈ کلف کے ہاتھوں میں مطلق العنانی کا حربہ ثابت ہوئی۔ کمیشن میں دو نمائندے کانگریس اور دو لیگ کے تھے، ظاہر ہے کہ ان دو جماعتوں کے نمائندے حدبندی کے معاملے میں متفق النظر نہ ہوسکتے تھے، لازماً خط حد کی کشید کا اختیار ان نمائندوں کے اختلاف رائے کی صورت میں دست صدر میں مرکوز تھا۔ صدر کے لیے لازم نہ تھا کہ وہ اپنے قطعی فیصلے کی تائید میں کوئی دلائل بھی پیش کرے، لہٰذا اس ضمن میں وہ کسی یقین افروز طریق کار سے بے نیاز تھے۔
قائداعظم کا خیال تھا کہ شرائط حوالہ کے تحت ہم پاکستان کے لیے آسام کے ان مسلم اکثریت کے چند چھوٹے چھوٹے علاقوں کا مطالبہ کرسکتے ہیں، جو بنگال کی شمالی سرحد سے ملحق ہیں۔ میں نے جھجکتے ہوئے شبہ کا اظہار کیا کہ‘ غالباً ’’سلہٹ اور کاچار کے علاوہ آسام کے کسی اور علاقے سے ہمیں کچھ ملنے کی امید کم ہے، لیکن قائداعظم مصر تھے کہ ہم یہ مطالبہ زوردار انداز میں کریں۔
میں نے انہیں یقین دلایا کہ ہم اس بارے میں امکانی کوشش کریں گے۔ میرا خدشہ بعد میں صحیح ثابت ہوا اور جناب صدر کا حرف آخر اس ضمن میں ہمارے خلاف نکلا، نہ صرف یہ بلکہ صاحب صدر کا فیصلہ سلہٹ اور کاچار کی نسبت بھی ہمارے واضح حقوق کی پامالی پر منتج ہوا۔ قائداعظم نے برطانوی بار کی روایت کے پیش نظر جو توقعات سر ریڈ کلف سے وابستہ کی تھیں، موہوم ثابت ہوئیں۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کمیشن کے کام کے سلسلے میں میرا قیام 5 مئی 1947ء سے 8 اگست 1947ء تک کلکتہ میں رہا۔ آخری تاریخ سے قبل صدر نے لیگ اور کانگریس کے نمائندہ ارکان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ نشستوں میں خاص بنگال کے علاقوں کی حد بندی سے متعلق گفت و شنید مکمل کر لی تھی۔ سلہٹ اور کاچار کے خطوں کی نسبت گفتگو دہلی میں ہوئی تھی۔ 9 اگست کو ہم کلکتہ سے عازم دہلی ہوئے۔ 11 اگست کو دہلی میں سر ریڈ کلف کے ساتھ ہماری آخری نشست ہوئی۔
جس دن ہم کلکتہ سے روانہ ہوئے، اسی دن میں نے ایک مراسلہ سر ریڈ کلف کے دہلی کے پتے پر روانہ کیا تھا۔ اس مراسلے کے ذریعے ان کی توجہ چند اہم امور کی طرف دلائی گئی تھی۔ مشرقی اور مغربی بنگال کی درمیانی حد سے متعلق جن عبوری خیالات کا اظہار کلکتہ میں ان کی طرف سے ہوا تھا، میں ان سے مضطرب تھا اور میں نے ان سے اپیل کی تھی کہ ان حقائق کی روشنی میں جو مراسلے میں درج تھے، وہ اپنا نقطہ نظر بدلیں۔ جب ہم دہلی پہنچے تو ان کا جواب مجھے اپنی قیام گاہ پر ملا۔
میں نے اسی دن ایک وضاحتی خط انہیں لکھا اور دوسرے ہی دن ان کا جواب موصول ہوا، جس میں انہوں نے مجھے مطلع کیا تھا کہ حتی الامکان علاقہ ندیا کے دریائوں سے متعلق میرے زاویہ نگاہ سے قریب تر ہونے کی کوشش کی ہے اور اب وہ اس بات کے قائل ہوگئے ہیں کہ ’’ماتا بھنگا‘‘ دریا کو مشترکہ حد تسلیم کر لیا جائے۔
یہ بات میرے لیے قدرے باعث اطمینان تھی، کیونکہ اس تبدیلی کے بغیر حدبندی سے مشرقی بنگال کا کچھ اور علاقہ بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتا۔ بہرحال انہوں نے ’’بارہ ست‘‘ سب ڈویژن کا الحاق (جو مسلم اکثریت کا علاقہ تھا) شہر کلکتہ کے ساتھ مناسب سمجھا، کیونکہ ہگلی دریا سے متعلقہ گلٹی آئوٹ فال منصوبے کی خاطر اور کلکتہ کے مفادات کی حفاظت کے لیے ان کی رائے میں یہ اقدام لازمی تھا، تاہم ان کا شاہکار فیصلہ سلہٹ اور کاچار سے متعلق تھا۔
11 اگست کو بحث و تمحیص کے دوران جناب صدر کی توجہ میں نے پہلے سے تیارکردہ ایک بڑے نقشے کی طرف دلائی، جس میں مسلم اکثریت کے علاقے سب ڈویژن وار دکھائے گئے تھے۔ اس نقشے سے واضح ہوتا تھا کہ سلہٹ کے جنوبی حصے میں، جو شمالی بنگال سے ملحق تھا، تین تھانے ہندو اکثریت کے تھے، جو ہر طرف سے مسلم اکثریت کے خطوں میں گھرے ہوئے تھے۔ ان کے شمال میں بدرپور اور کریم گنج کے وسیع مسلم علاقے تھے، جو ان تھانوں کو مغرب کی طرف سے بھی بھارتی رقبے سے علیحدہ کر رہے تھے۔
جنوب میں شمالی بنگال کا مسلم علاقہ اور مشرق میں کاچار کا ’’حیلہ کندی‘‘ سب ڈویژن پھیلا ہوا تھا، جو مسلم اکثریت پر مشتمل تھا۔ میں نے دلیل پیش کی کہ سلہٹ کے ’’بدر پور اور کریم گنج‘‘ کے رقبے اور ’’حیلہ کندی‘‘ کا سب ڈویژن اکثریت کے اصول کے تحت ہمارے تھے اور ان کے محل و قوع کے باعث سلہٹ کے جنوبی حصے میں تینوں ہندو تھانے جغرافیائی جبرئیت کے باعث پاکستان سے ملحق رہنے چاہئیں۔
سرریڈکلف نے فوراً کہا۔
’’ہا! اس نتیجے سے مفر کی کوئی صورت مجھے نظر نہیں آتی۔‘‘ اس قطعی رائے کے اظہار کے بعد میں مطمئن ہوگیا، لیکن جب بعد میں فیصلہ ہوا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ حضرت نے مذکورہ بالا تین تھانے اور ان کے ساتھ لگتا ہوا سلہٹ کا کچھ حصہ تو بے شک ہمارے پلے میں ڈالا تھا، مگر ساتھ ہی بدرپور اور کریم گنج کا بیشتر حصہ اور حیلہ کندی کا سارا سب ڈویژن بھارت کی نذر کردیا۔
ہماری آخری گفتگو اور فیصلے کے درمیان وقفے میں جو پوشیدہ عوامل ان کے ذہن پر اثرانداز ہوئے، وہ مختلف قیاس آرائیوں کا موضوع بنے رہے۔ یہ امر کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق پنجاب کی حد بندی کے سلسلے میں بھی حضرت نے آخری لمحے میں پاکستانی رقبے میں تخفیف کردی تھی، اس شبہ کو تقویت دیتا ہے کہ یہ رویہ کسی اونچی سطح پر سازش کا نتیجہ تھا، لیکن ان تمام کیسوں اور خامیوں کے باوجود ایک سچے مومن کی طرح قائد اعظم، جو زندگی بھر اپنے قول کا مکمل پاس کرتے رہے، اپنے پہلے سے اعلان کردہ مؤقف سے نہ ہٹے کہ کمیشن کا جو بھی فیصلہ ہو گا، وہ اسے قابلِ قبول سمجھیں گے۔
٭…٭…٭…٭…٭
قائد کی زندگی کے پانچ ادوار
قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی پانچ ادوار میں منقسم ہے۔ بیس سالہ پہلا دور 1876 سے1896 تک کا ہے، جب انہوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ دس سال کا دوسرا دور 1896 سے لے کر 1906 تک کا ہے، جب انہوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے اپنی وکالت کا لوہا منوایا اور ان کی شہرت دور دور تک پہنچی۔
پھر دس سالہ تیسرا دور 1906 سے1916 تک کا ہے، جب وہ زیادہ تر کانگریس سے وابستہ رہے۔ 20 سال پر محیط چوتھا دور1916سے 1936 تک کاہے،جب وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششیں کرتے رہے۔
تقریباً گیارہ سالہ پانچواں دور1937سے لے کر 1948 تک کا ہے، جب انہوں نے وکالت چھوڑ کر تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کی قومی تنظیم اور پاکستان کے حصول و قیام کی جدوجہد پر صرف کیے۔ 15 اگست 1947 کو قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے اور اس کے تقریباً ایک سال بعد 71 سال 8 ماہ اور 18 دن کی عمر پاکر 11 ستمبر1948 کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ قائداعظم کی زندگی ہمیشہ کسی نہ کسی نصب العین کے حصول کے لیے مصروف کار رہی۔
قائداعظم نے چالیس برس (1896 سے1936 تک) وکالت کی اور ایسی شہرت اور نام وری پائی کہ پورے ہندوستان میں کسی نے اس وقت تک حاصل نہیں کی تھی۔ 1936-37 میں انہیں اندازہ ہونے لگا تھاکہ ان کی قوم انتہائی خطرات میں گھرتی جارہی ہے۔ 21 جون 1937 کو علامہ اقبال نے ان سے کہا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے رہنمائی کی امید رکھے۔‘‘ جناح اس سے تقریباً چار سال قبل، جب مسلمان راہ نماوں نے انہیں لندن میں تار ارسال کیا تھا، قوم کے اس حق اور اپنے فرض کا بخوبی اندازہ کرچکے تھے۔
مسٹر جناح اورقائد اعظم ۔ایک جسم ،دو انسان
مسٹر جناح اورقائد اعظم ،ایک جسم میں دو انسان کی مانند تھے۔قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد پاکستان کی تشکیل اور اس کےلیے اصول و قوانین وضح کرنا تھا جس کی وجہ سے ان کے اندر کا انسان عام طور پر باہر نہیں نکل پاتا تھا۔
ممتاز حسن نے، جو قائد اعظم کے بہت قریب رہ کر ان کی مصروفیات کا مطالعہ بھی کرتے تھے، قائد اعظم اور مسٹر جناح کے درمیان ایک بڑا فرق محسوس کیا تھا۔
ایک انسان کے دو روپ دیکھ کر وہ لکھتے ہیں:’’اکثر اوقات قائداعظم کی شخصیت، محمد علی جناح کی ذاتی زندگی پر چھائی رہتی تھی۔ اس ایک ہی شخص میں موجود دو شخصیتوں کا احساس جس قدر مجھے 1948ءکی آخری ملاقات کے دوران ہوا ، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔قائد نے مجھے ایک سرکاری کام کےلیے بلایا تھا۔
جب تک سرکاری کاغذات ان کے سامنے رہے، انہوں نے مجھ سے محض اسی معاملے پر گفتگو کی۔ میری تجویز پر کڑی نکتہ چینی کی۔ ایک سوال کے بعد دوسرا ، دوسرے کے بعد تیسرا ، غرض یہ کہ سوالات کی بو چھاڑ کردی۔ آخر جب پورے طور پر مطمئن ہوگئے تو کاغذات پر دست خط فرمائے‘‘۔
’’پھر قائد کے چہرے پر فی الفور تبسم نمودار ہوا اور انہوں نے اس ملاقات میں پہلی بار میرا مزاج پوچھا۔ پھر ہنس ہنس کر باتیں کیں اور بڑی شفقت سے رخصت کیا ‘‘۔
’’مجھے محسوس ہوا کہ میں نے ایک ہی ملاقات میں قائداعظم محمد علی جناح، گورنر جنرل پاکستان کو بھی دیکھا اور ان سے بہت ہی مختلف ایک اور انسان یعنی مسٹر محمد علی جناح کو بھی ، جو اپنے جونیئرز اور پرانے مداحوں سے اس قدر محبت سے پیش آتا تھا‘‘۔
’’ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی ذاتی زندگی ان کی سیاسی زندگی میں چھپ گئی تھی اور محمد علی جناح مشکل ہی سے قائداعظم کے اندر سے باہر آتے تھے۔ شدید مصروفیت ، صحت کی خرابی ، کام کے دباؤ اور ایک بہت بڑی ذمے داری کہ انہیں جلد سے جلد اپنا مشن، یعنی مسلمانوں کے لیے الگ وطن حاصل کرنا ہے ، انہیں سیروتفریح ، ہنسی مذاق یا زندگی کے لطیف پہلوؤں میں دل چسپی نہیں لینے دیتی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قائداعظم نے ایک بڑے مقصد کے لیے اپنی ہر خوشی قربان کردی تھی‘‘۔