• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتہ کی بات ہے۔ آپ بھولے نہیں ہونگے ۔ ناقص اور بے مقصد اور بیکار باتیں کبھی کبھار یادرکھنے سےآپ کے بھیجے کا کچھ نہیں بگڑتا۔منہ کا ذائقہ بدلنےکیلئے کبھی ترش کبھی کڑوی چیز بھی لوگ کھالیتے ہیں۔ اچھائی کی اہمیت تب اجاگر ہوتی ہے جب آپ کا پالا نامعقول ، فضول اور کاٹ کباڑ جیسے ردی محل اور مقام سے پڑتا ہے۔

پچھلی کتھا میری بپتا کی جھلک تھی۔ بپتا کو آپ آتم کتھا کہہ سکتے ہیں۔ آٹو بائیو گرافی بھی کہہ سکتے ہیں۔ چاہیں توآ پ بیتی بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ میں نے پہلی مرتبہ آپ کو اپنی آتم کتھا یعنی آپ بیتی کا پرتو یعنی جھلک دکھائی تھی۔ میں نے آپ کو اپنی نجی زندگی کی سرسری سیر کروائی تھی۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ کیسے ڈاکٹروں نے میری زندگی کی جدول یعنی طریق کار بدل کررکھ دیاتھا۔میرے روزمرہ کے معمولات کی کیسے پکڑ پچھاڑ کی تھی۔ پریشان کرنے جیسی سوچ سے پیچھا چھڑانےکیلئے ڈاکٹر روزمرہ کے چوبیس گھنٹوں میں سے بائیس گھنٹے مجھے دوائیں دیکر سلا دیتے ہیں۔ باقی دوگھنٹے ڈاکٹروں نے مجھے بھاگنے دوڑنے پرلگا رکھا ہے۔ ڈاکٹر چاہتے ہیں کہ بائیس گھنٹے روزانہ سدھ بدھ کھونے کے بعد جب میں ہوش میں آئوں تویہ نہ سوچوں کہ بائیس گھنٹے میں کہاں تھا اور کیا کررہا تھا؟ حال ماضی اور مستقبل کے بارے میں لگاتار سوچنے والوں کا فرمانا ہے کہ اگر لوگوں نے سوچنا ترک نہیں کیا تو عنقریب پاکستان کے پاگل خانوں میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں بچے گی۔ ملک کے پاگل خانوں میں تل دھرنے کی جگہ باقی رکھنےکیلئے میری آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ آپ بھی سوچنا چھوڑ دیں اور بھاگنا دوڑنا شروع کردیں۔میں نہیں جانتا کہ بھاگنے اور دوڑنے میں کیا فرق ہے۔ مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بھاگنے اور دوڑنے میں کوئی نہ کوئی بنیادی فرق ہے۔ میں ایک عرصہ سے دوڑ رہا ہوں۔ چونکہ میں محقق نہیں ہوں، اس لیے آج تک حتمی طور پریہ جاننے سے محروم رہا ہوں کہ دوڑنے اور بھاگنے میں کیا فرق ہے۔ لیکن پڑھے لکھے لوگوں کی آرا کا میرے پاس بیش بہا ذخیرہ ہے۔ دوڑتے ہوئے طرح طرح کے لوگوں سے علیک سلیک ہوجاتی ہے۔ اور وہ علیک سلیک ایک عرصہ سے چلتی آرہی ہے۔ ہم ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپاتے۔ اور سچ جانیے ہمارے پاس چھپانے کو کچھ ہے بھی نہیں۔ دل کھول کر ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ میری علیک سلیک ان لوگوں سے زیادہ قربت والی ہے جن لوگوں نے میری طرح ہندوستان کے ٹکڑے ہوتے ہوئے اور پاکستان بنتے ہوئے دیکھا تھا۔ تب ہم پیدائشی طور پر ہندوستانی یعنیBorn indian ہوتے تھے۔ وطن کا بٹوارہ ہونے کے بعد ہم تتربتر ہوگئے تھے۔ متعدد سیاسی پارٹیاں ہوتی تھیں۔ کچھ پارٹیاں ہندوستان کے بٹوارے کے حق میں تھیں۔ کچھ پارٹیوں نے سخت مخالفت کی تھی۔ تب طرح طرح کے نعروں میں ایک نعرہ عرف عام کی زبان پرتھا، وہ نعرہ تھا: خون پسینہ ایک کریں گے، لے کے رہیں پاکستان ۔کہیں سے بھی کسی نے کپتان عمران خان کا نعرہ نہیں سنا تھا : پاکستان کا مطلب کیا ؟ لااللہ الاللہ۔یہ نعرہ ایک پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی گئی مہم کے دوران بلند کیا تھا۔ اس نعرے پر اجارہ داری کبھی بھی عمران خان کی نہیں تھی۔بہرحال، یہ معلوم کرنےکیلئے کہ بھاگنے اور دوڑنے میں کیا فرق ہے، میں نے ایک بہت ہی معمر شخص سے پوچھا۔ حضرت ، بھاگنے اور دوڑنے میں کیا فرق ہے؟

وہ شخص عمر میں مجھ سے بہت بڑ الگتا تھا۔ وہ شخص سنچری کراس کرچکا تھا، یعنی ایک سوبرس کی عمر سے تجاوز کرگیا تھا، میں نے جب اس سے پوچھا کہ بھاگنے اور دوڑنے میں کیا فرق ہے، تب بزرگ نے مجھے غور سے دیکھنے اور پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ اگرتم بیرون ملک لوگوں کو ملازمت دلوانے کا جھانسہ دیتے رہے ہو ، توپھر تم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھاگ رہے ہو۔ اگرتم وزن کم کرنے اور اپنے سے تیس پینتیس برس چھوٹی لڑکی سے چوتھی شادی رچانے کے چکر میں ہو، تو پھر تم دوڑ رہے ہو۔کچھ اسی نوعیت کے جواب مجھے دوسرے علیک سلیک اور دعا سلام کرنے والوں سے ملے۔ پتہ چلا کہ جب ہم کسی مصیبت سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں تب ہم بھاگتے ہیں۔ اس مصیبت سے دور بھاگتے ہیں، میں بھی آپ سب کی طرح کبھی چھوٹا ساگگلو ہوا کرتاتھا۔ اسکول، پھر کالج اور پھر یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ نوجوانوں کو کمیونسٹ بنانے کی تحریک زوروں پرتھی۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ اس دور میں پتلون کے غرارے کی طرح چوڑے پائنچے اورکمیو نسٹ کہلوانا فیشن سمجھا جاتا تھا۔ قائد اعظم کو جو کہنا تھا وہ کہہ کرچلے گئے ۔مگر حکام وقت آئے دن پاکستانکیلئے سمت کا تعین کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ وہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ پاکستان میں ٹھوس جمہوری نظام ہونا چاہئے۔ یا اسلامی جمہوری نظام چلنا چاہیے۔ اسلامی سوشلزم کی بھی بحث چل نکلی تھی۔ ایسے میں حکام وقت کے کل پرزوں نے عوام پر نظریں گاڑ رکھی تھیں۔ ان میں کچھ کل پرزے بڑے سیانے یعنیIntelligent تھے۔ وہ ایسے لوگوں کے پیچھے پڑجاتے تھے جو کمیونسٹ کہلوانے میں آتے تھے۔ طلبا میں کمیونسٹ کا لیبل لگے ہوئے نوجوانوں کی فہر ستیں تیار ہونے لگیں۔ ایک فہرست میںکمبخت میں بھی تھا۔ سیانے سایے کی طرح ہمارا پیچھا کرتے تھے۔ گرل فرینڈ سے خفیہ مقام پر طے شدہ ملاقات سے پہلے سرکاری سیانے پہنچ جاتے تھے۔ باتھ روم میں بھی آپ پر نظر رکھی جاتی تھی۔ تب گھبرا کرہم نے بھاگ کر سیانوں سے پیچھا چھڑانے کی ٹھان لی۔ سیانوں کی آمد سے پہلے ہم بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ اس بھاگنے کو ہم دوڑنا نہیں کہتے تھے۔ دوڑنے کے اسباب کچھ اور ہوتے ہیں۔

تازہ ترین