• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خصوصی تحریر: شیری رحمان

محترمہ بینظیر بھٹو شہید بلاشبہ پاکستان کا روشن چہرہ تھیں اور شہادت کے بعد بھی پاکستان اور دنیا میں ان کا نام ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پاکستان ایک عالمی مرتبے کی رہنما سے محروم ہو گیا۔ یوں سب سے بڑا نقصان پاکستان کا ہوا ،اور سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو ہوا۔ وہ وفاق پاکستان کی علامت اور عوام کی امنگوں کا مظہر تھیں۔ وہ اگر آج ہوتیں تو ملکی حالات مختلف ہوتے۔ 

دہشت گرد یوں نہ دندناتے پھرتے ان کی شہادت سے بحیثیت قوم ہمیں بہت نقصان ہوا ہے۔ وہ واحد قومی رہنما تھیں جو پاکستان کا ایجنڈا آگے لے کر چل سکتی تھیں۔ وہ تمام دنیا میں جانی پہچانی شخصیت تھیں وہ دنیا بھر کے سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں کشمیری اور فلسطینی عوام کی کاز کے لیے نمایاں اور توانا آواز جسے خاموش کر دیا گیا۔

27دسمبر 2007 کا دن ہم اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک نہیں بھول سکے گے جب مسلم دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد بے دردی کے ساتھ قتل کر کے قوم کو ایک عظیم لیڈر سے محروم کیا گیا۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو ہم سے چھین کر صرف پیپلز پارٹی کو نہیں بلکہ عوام او ر پاکستان کو ایسا ناقابل تلافی نقصان دیا گیا جس کی قیمت ہم آج تک ادا کررہے ہیں اور کرتے رہے گے۔ 

دسمبر 2007میں ہم لو گ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی زیر قیادت انتخابات کی مہم میں زور وشور سے مصروف تھے، نا دن کا پتہ ہوتا تھا نا رات کا۔ محترمہ نے ویسے تو جلا وطنی میں ہی انتخابات متعلق اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا تھا لیکن واپس آتے ہی انہوں نے منشور، پارٹی ٹکٹس اور انتخابی مہم کا تمام تر کام اپنی نگرانی اور قیادت میں کیا۔ہم لوگ رات دیر تک انتخابی منشور، انتخابی معاملات اور دیگر امور پر ان کے ساتھ کم کرتے رہتے تھے اور وہ ہر چیز اور معاملے کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتیں تاکہ کوئی کمی نا رہ جائے۔ ان کی پہلی ترجیح پاکستان، عوام اور جمہوریت تھے۔ 

ہر پالیسی ایجنڈا اور منصوبے پر ان کا پہلا سوال ہوتا تھا کہ ’شیری اس میں ملک اور عوام کیلئے کیا فائدہ ہے؟‘ اس سال دسمبر میں شہید محترمہ بیظیر بھٹو کی یاد سے اس لئے بھی اداس ہو جاتا ہے کہ ہم انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں لیکن وہ ہمارے بیچ نہیں ہیں۔ لہٰذا اس سال ان کی کمی اور احساس ہر وقت اورہرموڑ پر محسوس ہو رہا ہے۔میں جب اقتدار کے ایوان، عالمی فورمز اور ملک کی ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی عام عورتوں سے ملتی ہوں تو سب ایک ہی بات کرتی ہیں، کہ اگر محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل نا کیا جاتا تو پاکستان میں رہنے والی ہر عورت کی، چاہے وہ شہر کی ہو یا دیہات کی، زندگی مختلف ہوتی۔ 

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ پاکستان اور دنیا بھر کی عورتیں محترمہ کی کمی زیادہ محسوس کیوں کرتی ہیں؟ کیوں کہ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں عورتوں کے حقوق کے لیے مثالی اقدامات کیے جن میں فرسٹ وومن بنک، وومن پولیس اسٹیشن اور یونیورسٹیز میں وومن اسٹڈی سینٹرز کا قیام، سرکاری ملازمتوں میں خواتین کے لیے 5 فیصد کوٹے کا اجرا، لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام، خواتین کی ترقی کے لیے وفاقی وزارت کے قیام جیسے اقدامات شامل ہیں۔ وہ نا صرف پاکستان بلکہ دنیا پھر کی خواتین کی رول ماڈل بن کر سامنے آئیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین کہتی ہیں کہ کاش اگر محترمہ حیات ہوتیں تو ملکی اور عالمی سطح پر عورتوں کا کردار مختلف ہوتا۔انہوں نے ملک میں پولرائیزیشن اور تقسیم کی سیاست کے خاتمے کیلئے اپنے مخالفین کے ساتھ 2007میں چارٹر آف ڈیموکریسی تشکیل دیا۔ سیاست کے اصول، قوائد و ضوابط طے کئے۔ مخالفیں کو بھی ضابطہ اخلاق سکھایا۔ شہید بی بی اختلاف اور مخالفت کے باوجود بھی ملکی مفادات اور آنے والی نسلوں کیلئے تمام شراکت داروں کو ایک ساتھ بٹھانے کا ہنر جانتی تھیںیہی وجہ ہے کہ آج ان کے ماضی کے مخالفین سمیت ہر شخص ان کا عزت سے نام لیتا ہے اور ان کی کمی کو محسوس کرتا ہے۔

شہید محترمہ بینظیر بھٹو مفاہمت اور رواداری میں یقین رکھتی تھیں جو اس وقت ملک کی سب سے اہم ضرورت ہے اور جس کا چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہر تقریر میں بات کرتے ہیں۔ وہ ایک نئی سوچ، نظریہ اور وژن لیکر ملک لوٹیں تھیں، پی ٹی آئی کی سابق حکومت نے پاکستان کے کیلئے سفارتی بحران پیدا کئے۔ 

خارجی سطح پر شہید بی بی کے بیٹے نے بطور وزیر خارجہ پاکستان کی سفارتی تنہائی کو ختم کیا تاہم اگر شہید محترمہ بینظیر بھٹو حیات ہوتیں اور ان کو2007میں ملک کی قیادت کا موقع ملتا تو آج پاکستان کا عالمی دنیا میں سفارتی اور خارجی مقام بہت ہی منفرد ہوتا، ہم شاید بہت سے فرنٹس اور فورمز پر آج دنیا کی قیادت کر رہے ہوتے۔ ملک کو آئین کے بعد اگر کسی شخص نے جوڑ کر رکھا تھا تووہ محترمہ ہی تھیں، کوئی شک نہیں وہ پاکستان کی زنجیر تھیں۔

وہ کئی بار جیل گئیں، ہاؤس اریسٹ رہیں۔ نظر بند رہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے کارکنان کو اپنی ڈھال نہیں بنایا، گرفتاریاں تو معمولی سی بات ہے محترمہ نے اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور دو جوان بھائیوں کی شہادتیں دیکھیں۔ ان کی دونوں منتخب اور آئینی حکومتوں کے خلاف سازش کی گئی۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے کارکنان کو یہ نہیں کہا کہ ملک کو جلا دو، اداروں کو جلا دو، ان کی شہادت کے بعد ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ایک بار پھر ثابت کر دیا تھا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی پاکستان کی زنجیر ہے، بھٹو نے ہمیشہ ملک کو جوڑا ہے، توڑا نہیں۔

اپنی لیاقت باغ کی تقریر میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو سے سوات میں دوبارہ پاکستان کا پرچم لہرانے کا وعدہ کیا تھا جو آصف علی زرداری کی حکومت نے پورا کیا۔شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا اگر قتل نا ہوا ہوتا تو پاکستان پر طالبان اور انتہا پسندوں کی امداد کا الزام نہ لگتا۔ محترمہ زندہ ہوتیں تو انتہا پسندوں کے خلاف فتح یاب ہو کر دنیا بھر کے دورے کرتیں دنیا بھر سے پاکستان کی خوشحالی کے لیے ترقیاتی منصوبے اور سرمایہ کاری لیکر آتیں۔ پاکستان کا بیانیہ دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا اور معاشی طور پر ملک خوشحال اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتا۔

آخر میں، شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو 16 سال قبل دن دہاڑے قتل کر دیا گیا تھا، اور ان کے قاتل ابھی تک”نامعلوم“ اور ناقابل سزا ہیں۔ کیس متعلق پیپلز پارٹی کی اپیلیں گزشتہ چھ سالوں سے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے سامنے زیر التوا ہیں، جن کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے 31 اگست 2017 کے فیصلے میں جن ملزموں کو سزا دی گئی وہ یا تو ضمانت پر باہر ہیں یا لاپتہ ہیں۔

شہید محترمہ بینظیر بھٹوقتل سے جڑا معمہ بدستور حل طلب ہے۔حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے بھٹو پھانسی ریفرنس پر 11سال بعد سماعت کے آغاز ہوا جس کا ہم نے خیر مقدم کیا ہے،صدر آصف علی زرداری نے 2011 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے حوالے سے ریفرنس دائر کیا تھا۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو قتل کیس بھی 16 سال سے حل نہیں ہوا، ہم عدالت سے اس کیس کی بھی باقاعدہ سماعت کی درخواست کر رہے ہیں۔ امید ہے پاکستان کی زنجیر بینظیر کے ساتھ انصاف ہوگا۔