• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎ہمارے ملک کے ممتاز صحافی جو حلقوں کی سیاست پر خاص نظر رکھتے ہیں اپنی بات دھڑلے سے اور ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں ،بارہا اس ناچیز کو ان کے ساتھ حیران کن حد تک نظری و فکری اتفاق رائے محسوس ہوتا ہے لیکن بعض اوقات ڈسکشن میں ایسے ایشوز بھی آجاتے ہیں جن میں ترجیحات کا تفاوت ابھر آتا ہے مثال کے طور پر بھٹو اور نواز شریف کا تقابل کرتے ہوئے وہ ہمیشہ بھٹو کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے بھٹو کو بڑی قومی شخصیت قرار دیتے ہیں اُن کا استدلال ہوتا ہے کہ بھٹو صحیح معنوں میں عوامی لیڈر تھا جو عوامی کاز کیلئے پھانسی پر جھول گیا ، لہٰذا عوام اسی کو یاد رکھتے ہیں جو قربانی دیتا ہے اسکے بالمقابل وہ لیڈر جو جیل جانے اور قربانی دینے کی بجائے جدہ کے محلات یا لندن کے ایون فیلڈ میںجا بسے اور ماحول سازگار ہونے پر لوٹ آئے تو لوگ ایسے لیڈر کو بزدل یا موقع پرست خیال کرتے ہوئے عوامی قائد کا رتبہ نہیں دیتے ۔ ‎ان دنوں ہماری سپریم جوڈیشری نے جس طرح نصف صدی بعد بھٹو کا کیس ”جوڈیشل مرڈر“ کہتے ہوئے اٹھایا ہے اس پر بھی ہمارے ممدوح ذی شان کا استدلال ہے کہ ضیائی سیاہ تاریخ کی درستی ہونی چاہیے اس لیے کہ تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافیاں انصاف کے ایوانوں میں ہوئی ہیں اور پھر جن لوگوں نے یہ ظلم ڈھایا تھا مولوی مشتاق سے لے کر انوارالحق اور ضیاء الحق تک ان سب کو اس دنیا میں ہی قدرت کے انتقام کا نشانہ بننا پڑا، مولوی مشتاق کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کردیا اہل جنازہ بیچاری میت کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے انوار الحق بھی آخری عمر میں تنہائی کا شکار ہوکر رخصت ہوئے عالمی عدالت انصاف میں بھی بری طرح ہارے۔ ‎یہ درویش پورے تقدس و احترام کے ساتھ عرض گزار ہے کہ کسی بھی تاریخی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے محض اسکی زندگی کے اختتام کو پیش نظر نہیں رکھنا چاہیے، دنیا میں نیک و بد کے ان کے کردار کے بالکل برعکس واقعات موجود ہیں۔

‎یہ زندگی انسان کیلئے قدرت کا خوبصورت ترین عطیہ ہے ہم سب کو حتی المقدور اس سے پیار کرتے ہوئے اس کی حفاظت کرنی چاہیے زندہ رہیں گے تو کچھ کریں گے ورنہ مرنا کون سا مشکل ہے؟اصل چیز انجام یا اختتام نہیں کتاب حیات کے وہ تمام ابواب ہیں جن میں ہماری کارکردگی کا اندراج ہوتا ہے انسانی کاوش یہ ہونی چاہیے کہ اس کتاب میں انسانیت سے محبت و خدمت کے ابواب ہوں؟ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہم سب نے اپنی نئی نسلوں کیلئے کو ن سا رویہ یا اسوۃ حسنہ چھوڑ کر جانا ہے ہم نے اپنے بچوں کیلئے پھولوں کا چناؤ کرنا ہے یا کانٹوں کا؟ مسلط کیے گئے یا تھوپے گئے دی اینڈ کے بالمقابل پسند کیے گئے انجام و اختتام میں فر ق جان کر جیو۔ ‎دوریش بنیادی طور پر مولوی ہے اس لیے بات کہیں اور چلی گئی عرض ِ مدعا یہ ہے کہ ہم بھٹو اور نواز شریف کے طرز عمل کا تقابل ضرور کریں لیکن ہمیشہ یہ پیش نظر رہے کہ ہماری نئی نسلوں کو امن، ترقی، سلامتی اور محبت بھری زندگی ملے، یہ تو ایک گڈ لک تھی کہ اس شخص کو محترمہ بے نظیر جیسی باصلاحیت بیٹی میسر آگئی جس نے مردہ بھٹو کو زندہ کردیا۔ ہم میں سے شاید اندر سے کوئی ایک شخص بھی نہیں چاہے گا کہ اسے اس نوع کی زندگی ملے جس میں انا پرستی، غرور و تکبر کی رعونت اس حد تک بھری ہو جس نے زندگی بھر اپنے سیاسی مخالفین کا جینا حرام کیے رکھا ہو، وہ وہ القابات جاری فرمائے ہوں کہ الامان الحفیظ اورپھر جس طرح وہ شخص بر سر اقتدار آیا اور جس طرح ہٹایا گیا ایک عوامی جمہوری ذہن اسے آئیڈیل قرار دینا تو دور کی بات قبول بھی کیسے کرسکتا ہے؟مانا کہ ٹرائل میں مسلمہ قانونی ضوابط نہیں اپنائے گئے اس لیے سزا عمر قید میں تبدیل ہوسکتی تھی لیکن نواب محمد احمد خاں کا مرڈر جس طرح ہوا ہے اس کے پیچھے کون تھا؟ قانونی موشگافیوں سے ہٹ کر جائزہ لیں تو اصلیت تک پہنچنے میں کوئی اشتبا ہ نہیں ، لہٰذا گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے کیا یہ بہتر نہیں کہ جو لوگ زندہ ہیں اور ان کیساتھ بے انصافیاں ہوئی ہیں یا اگر کہیں ہورہی ہیں، ہم اس کا مداوا یا تلافی کیلئے کچھ کریں کیونکہ اگر نصف صدی قدیمی مقدمہ اٹھے گا تو پھر اس نوع کے ایک سو ایک مزید مقدمات پر بھی اسی نوع کے تقاضے ناقابل عمل و فہم نہیں گردانے جاسکیں گے پھر درویش یہ چاہے گا کہ تمام آمروں کے کیسز بھی ری اوپن فرمائیں!

تازہ ترین