• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیا سال نئی اُمّیدیں جگاتا ہے، نئے خواب دکھاتا ہے،کچھ نیا کرنے پر اُکساتا ہے۔نئے عزائم ہوتے ہیں، نیا جوش اور ولولہ ہوتا ہے،لیکن ہم پاکستانی ایسے وقت میں نئے برس میں داخل ہوئے ہیں جب بہت سے گمبھیر مسائل منہ پھاڑے سامنے کھڑے ہیں۔ اس وقت ہماری ریاست اور قوم کو جن چند اہم ترین چیلنجز کاسامنا ہے ،وہ درجِ ذیل ہیں:

سیاسی استحکام کا چیلنج، معیشت کو درپیش چیلنجز، خارجہ اوردفاعی امور کے چیلنجز، صحت، تعلیم اور روزگار کے شعبے کے چیلنجز، انصاف، قانون سازی، پارلیمانی امور، امن وامان اور ماحولیات کے شعبے کے چیلنجز۔

سیاسی استحکام اور نظام کا تسلسل دہائیوں سے ہماری اشد ضرورت ہے،لیکن ہم اس مطالبے سے اب تک منہ موڑے ہوئے ہیں۔ تاہم اب حالات کا جبر ہمیں اس کی مزیداجازت دیتا نظر نہیں آتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم یہ استحکام حاصل کرلیں تو ہمارے بہت سے مسائل کی شدّت بہت حد تک خود بہ خود کم ہوجائےگی۔ قرضوں کے بہت بھاری بوجھ، ناخواندگی، آسمان کو چھوتی منہگائی، بے روزگاری، بے انصافی، اقربا پروری، بدعنوانی، نااہلی، دہشت گردی وغیرہ جیسے مسائل نے ملک کی بنیادیں ہلادی ہیں۔ ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ کیا نئے سال میں ہم مسائل کی اس دلدل سے نکلنے میں کام یاب ہوجائیں گے؟

سیاسی استحکام کا چیلنج

2023ء کسی بھی لحاظ سے پاکستانیوں کے لیے اچھا سال نہیں تھا۔اس برس جہاں سیاسی اوراقتصادی عدم استحکام اپنے عروج پر رہاوہاں ملک میں دہشت گردی میں بھی شدّت آئی۔ پھر سیاسی عناصر اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی مسلسل تکرار نے ملک کو خانہ جنگی کی دہلیز پر پہنچادیا تھا۔ اس صورت حال میں جہاں ہماری معیشت بدترین حالات سے دوچارتھی وہیں ہم پر ممکنہ ڈیفالٹ کے بادل بھی منڈلا رہے تھے ۔ نیز پاکستان کو سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا بھی سامنا رہا۔

اگرچہ ملک میں فروری 2024میں قومی اور صوبائی اسمبلیزکے اراکین کے انتخاب کے لیے انتخابات ہونے ہیں، لیکن بعض حلقے اس ضمن میں شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔اور بعض حلقے نئی حکومت کے قیام کے بعد بھی ملک میں سیاسی استحکام آنے کے بارے میں زیادہ پُر اُمّید دکھائی نہیں دیتے۔

پاکستان میں اقتدار کے کھیل کی کہانی بہت اُلجھی ہوئی اور افسوس ناک پہلوؤں سے بھری پڑی ہے۔ 1990کی دہائی سے شروع ہونے والاکھیل کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ ہم ماضی میں جیسی جمہوریتوں اور آمریتوں کا سامنا کرچکے ہیں انہوں نے ہمارے سیاسی اور سماجی لباس کو تار تار کردیا ہے۔چناں چہ ہمارے ہاں مثالی جمہوری روایات کا فقدان نظر آتا ہے۔

دراصل یہ روایات چند برسوں میں نہیں بلکہ دہائیوں میں پنپ پاتی ہیں۔سیاسی استحکام ، جمہوری ادادروں کا تسلسل، وقت، حالات، تاریخ کا جبر ، سیاست دانوں کا ذہنی اور فکری معیاروغیرہ اس ضمن میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

آج اگر پاکستان میں ابتری، انتشاراور بے یقینی کی کیفیت ہے تو اس کا ذمے دار کسی ایک فرد، سیاسی جماعت یا کسی ایک ادارے کو قرار دینا شاید مکمل انصاف نہیں ہوگا۔عوام کا بھی اس میں کچھ حصہ ہے۔لیکن اندرون اور بیرون ملک سے درپیش چیلنجز ہمیں یہ چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ اب ہمیں بہت تیزی سے اپنی اصلاح کرنی ہو گی ، کیوں کہ اب جو طوفان ہماری جانب اُمڈ رہے ہیں وہ پہلے کی طرح تنکوں سے ٹلنے والے نہیں ہیں۔

آج پاکستان اور پاکستانیوں کا بنیادی سوال سماجی انصاف ، تبدیلی، ترقی اور خوش حالی کے اہداف کے حصول کا ہے۔ حقیقت میں خطرات کا دائرہ خِطّے کےاورعالمی حالات کے سیاق وسباق میں کثیر جہتی اندیشوں سے عبارت ہے۔ہمارا ازلی دشمن بھارت، پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کےلیےکمر بستہ ہے۔

وہ ہمیں دہشت گردی کے زمرے میں لپیٹنا چاہتا ہے۔ اس نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرکے اسے کشمیریو ں کے لیے جیل خانہ بنا دیاہے۔ مودی کی حکومت بھارت کو تیزی سے ہندوتوا کے فلسفےکی راہ پرلے جارہی ہے۔ اس نے متعصبانہ قوانین اور دیگر انتہاپسندانہ اقدامات کے ذریعے مسلمانوں کے گرد ہندو انتہا پسندوں کا گھیرا مزید تنگ کردیا ہے۔

معیشت بہتر بنانے کا چیلنج

آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک اس وقت تک اقتصادی طورپر مستحکم نہیں ہوسکتا جب تک وہاں سیاسی استحکام نہ ہو۔چناں چہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی اسٹیک ہولڈ رز خِطّےاور داخلی صورت حال کو اپنی سیاست کا محور بناتے ہوئے دوراندیشی پر مبنی فہم وفراست سے کام لیں۔ ہمارا بہت سا قیمتی وقت بے مقصد بلیم گیم میں ضایع ہو چکا ہے اورہورہا ہے۔

تناؤ کا اعصاب شکن عفریت چوبیس کروڑسے زاید ہم وطنوں کو حصار میں جکڑے ہوئے ہے۔عجیب کھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے۔ایک جانب ملکی معیشت کی بہتری کے دعوے ہیں اوردوسری جانب عوام بہ دستور شدید منہگائی اور بے روزگاری کی اندھی گلی میں دیواروں سے ٹکریں مار رہے ہیں۔وہ ایسا پاکستان بننے کے شدّت سے منتظر ہیں جس میں عوام کوآسودگی ملے، منہگائی اور بے روزگاری ختم ہو، سیاست میں مستقل ٹھہراؤکی کیفیت پیدا ہو، ملک سیاسی انتشار کی دلدل سے نکلے اور عوام اطمینان کا سانس لیں۔معیشت کے استحکام کے لیے اس وقت وسیع البنیاد مصالحت، خیر سگالی، دور اندیشی، مفاہمت، گلوبل وژن، داخلی استقامت اور سمت سازی کے ساتھ انقلابی، غیر روایتی اور دلیرانہ فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔

2023 کا بیشتر حصہ ملکی معیشت کے لیے اچھا نہیں رہا، ڈالر، بجلی،گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے ساتھ مارک اَپ کی بلند شرح نے عام آدمی اور کاروباری برادری کے ہوش اڑائے رکھے۔ تاہم سال کے آخر میں اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ تیزی اور پیٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمتوں میں کمی نے جمود توڑا ۔2023 کے دوران منہگائی عروج پر رہی، بجلی اورگیس کے نرخ بڑھنے سے پیداواری لاگت بھی بڑھ گئی، 22 فی صد شرح سود اور ڈالرکی شرح تبادلہ 300روپےکے لگ بھگ رہنے کے علاوہ ایل سیز بھی نہ کھلنے کی وجہ سے کاروبار جمود کا شکار رہا۔

عوام شدّت سے چاہتے ہیں کہ فروری میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت بے یقینی کا خاتمہ کرے،موثرحکمت عملی کامظاہرہ کرے، عوامی توقعات پوری کرنے پر اپنی ساری توانائی خرچ کرے، بلا امتیاز احتساب ہو اورجمہوری نظام مستحکم ہو۔ سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی خانہ جنگی کی نوبت تک نہ پہنچے، قوم کی امنگوں کا ادارک کیا جائے،ہر قسم کی الزام تراشی، شعلہ بیانی بند ہونی چاہیے تاکہ سیاسی اور اقتصادی اشتراکِ عمل کا نیا باب رقم کیا جاسکے،کیوں کہ ملک میں دس کروڑ سے زاد لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، بدعنوانی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں جنوری 2026 تک ہمیں چین جیسے دوست ممالک، عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک کا تقریباً 80 بلین ڈالر قرض ادا کرنا ہوگا۔

پاکستان کو درپیش اہم چیلنجز میں سے ایک توانائی کا بحران ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے صنعتی پیداوار کو متاثر کیا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار کو سست کر دیا ہے۔ کافی توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی کمی، پرانی ٹیکنالوجیز کے ساتھ، توانائی کی ناقابل اعتماد فراہمی کا نتیجہ ہے، جس سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

بے روزگاری کی بلند سطح اور کم روزگارکے مواقعے اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، روزگار کی منڈی ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کی آمد کو جذب کرنے سے قاصر ہے۔ ہنر مندی کی نشوونما کا فقدان اور معیاری تعلیم تک محدود رسائی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ پاکستان کے مالیاتی خسارے اور بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں نے اس کے اقتصادی استحکام کو متاثر کیا ہے۔

بجٹ کا بہت بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کیاجاتاہے، جس سے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں کے لیے کم وسائل رہ جاتے ہیں۔ عوامی فنڈز کی بدانتظامی اور بدعنوانی نے چیلنجز کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی سہولتوں سمیت ناکافی انفرا اسٹرکچر، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور بین الاقوامی تجارت میں مشغول ہونے کی ملک کی صلاحیت کو روکتا ہے۔

بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں ناکافی سرمایہ کاری بھی گھریلو رابطوں اور اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے ۔ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں قابل ذکر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، بہ شمول قابل تجدید توانائی کے ذرایع، جیسے شمسی اور ہوا سے حاصل کی جانے والی توانائی کے ۔ توانائی کے آمیزے کو متنوّع بنانا اور توانائی کی کارکردگی کو فروغ دینا صنعتی ترقی کو متحرک کرتے ہوئے زیادہ قابل اعتماد اور پائے دار توانائی کی فراہمی کا باعث بن سکتا ہے۔ تعلیم اور ہنر کی ترقی کو ترجیح دینا بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

ٹیکس جمع کرنےکا موثر طریقہ کار نافذ کرنا، فضول خرچی کو کم کرنا اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنا معیشت کو مستحکم کرنے اور ضروری شعبوں کے لیے وسائل پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

عالمی بینک اپنی تفصیلی رپورٹ میں بتاچکا ہے کہ نو برسوں میں پاکستان کی محاصل سے ہونے والی آمدن بیاسی ارب ڈالرز سے زاید ہوسکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نئے ٹیکس کے نفاذ اور ٹیکس کی شرح میں اضافے کے بغیر اس آمدن میں اضافہ ممکن ہے۔ 

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اگرمحاصل کی وصولی پچھہتّر فی صد تک بڑھ جائے تو پاکستان کی ٹیکس آمدن جی ڈی پی کے چھبّیس فی صد تک پہنچ سکتی ہے ۔ لیکن متعلقہ لوگ ممکنہ آمدن کا صرف آدھا ہی وصول کررہے ہیں۔دوسری جانب سابق گورنراسٹیٹ بینک شمشاد اخترکا موقف ہے کہ پائے دار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کےلیے پاکستان کو جی ڈی پی کاآٹھ فی صد سے زایدبنیادی ڈھانچے پر لگانا چاہیے۔

پاکستان کو اقتصادی ترقی میں دوسرے ممالک کی تقلید کرنی چاہیے۔ مقامی صنعتوں اور قومی معیشت کی ترقی کے لیے مواقعے پیدا کرنا ہوں گے۔ نئی حکومت کو کاروبار کرنے کی لاگت،خام مال کی درآمد اور شرح سود کو کم کرنا ہو گا۔ شرح سود میں اضافے کی وجہ سے پاکستانی صنعت باقی دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

ملک کے اقتصادی چیلنجزپےچیدہ اورگہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں، جن پر موثرطورسے قابو پانےکے لیے کثیر جہتی نقطہ نظراپنانےکی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت کا داخلی ذریعہ ریاست کے تمام اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسے کرنٹ اکاؤنٹ اور بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے۔ تجارت کا توازن پاکستان کے لیے سازگار نہیں۔ دیگر مسائل میں زرمبادلہ کے کم ذخائر اور روپے کی گرتی ہوئی قدر شامل ہیں۔ 

ناقص پیداواری صلاحیت اور کم سرمایہ کاری پر نظر رکھ کر ملکی آمدن کے ذرائع کومستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ توجہ زراعت، صنعت،کاروبار اور تجارت پر مرکوز رہنی چاہیے ۔ پاکستان کی معیشت کا تیسرا کمزور پہلو عام لوگوں پر بڑھتے ہوئے معاشی بوجھ سے متعلق ہے۔ منہگائی ، یوٹیلیٹیز اور روزمرہ کی گھریلو استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے عام آدمی کوایسے بحران میں دھکیل دیا ہے جس پر حکومتی ترجیحات میں زبردست تبدیلیوں کے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

سیاسی اور سماجی پہلوؤں کے ساتھ ایک اور معاشی مسئلہ انسانی فلاح و بہبود کو شدید طور پر نظر انداز کرنا ہے۔ نظر اندازکیےگئے شعبے،جو عام لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتے ہیں، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کےہیں۔ روایتی طور پر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم پر بہت کم وسائل خرچ کرتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں بھیڑ ہے اور وہ عام لوگوں کو ناکافی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ 

حکومتیں سرکاری اسپتالوں، خاص طور پر ضلع اور تحصیل کی سطح کے اسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے کی منصوبہ بندی اور منظم منصوبوں کو اپنانے کے بجائے صحت کی دیکھ بھال یا تعلیم کے لیے کچھ فیشن ایبل سکیمیں شروع کرنے میں زیادہ دل چسپی رکھتی ہیں۔ اسی طرح ریاستی تعلیمی ادارے فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ایک مربوط پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کا فقدان ہے جو شہر کے بیش تر حصوں کو آپس میں جوڑتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر نجی گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کی بھرمار ہے۔دوسری جانب پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے عوام پر اضافی مالی بوجھ پڑا ہے۔

پاکستان میں سماجی و اقتصادی عدم مساوات عروج پر ہے۔ آبادی کے امیر طبقوں اور غریب اکثریت کے درمیان فرق وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ایک جانب عالی شان بنگلوں ،کوٹھیوں، گاڑیوں، پوش شاپنگ ایریاز اور منہگے ریستورانوں کی تعدادبڑھ رہی ہے تو دوسری جانب ایسے لوگ ہیں جنہیں یہ یقین نہیں کہ وہ اپنے خاندانوں کو باقاعدگی سے کھانا فراہم کر سکیں گے۔ریاست کے انسانی بہبود کے پروگرام ناکافی ہیں۔ صدقات کی تقسیم عارضی حل ہے۔ غریب عوام کے لیے مستقل آمدن کے ذرائع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ہمیں انسانی وسائل کو بھی ترقی دینا ہوگی۔ ہمیں اب اس دھوکے سے نکل آنا چاہیے کہ قرض کی مے پی کر ہم آگے بڑھتے رہیں گے،کیوں کہ اب مسائل کی نوعیت اور جہتیں بہت بدل چکی ہیں۔ جاری خسارہ ،قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ،قرضوں پر سود کی ادائیگی،کرنسی کی بہت گری ہوئی قدر، برآمدات کے شعبے میں کوئی خاص بہتری نہیں، مینوفیکچرنگ کے شعبے کی زبوں حالی، عالمی منڈیوں میں ہمارے مال کے نرخ مسابقت کے قابل نہ ہونے وغیرہ جیسے مسائل بھی ہماری ترقی کا پہیہ روکے ہوئے ہیں۔

درجِ بالا شعبوں کو نظر انداز کرنے اور انسانی فلاح و بہبود پر بہت کم توجہ نے حکومتی نظام پر عام لوگوں کا اعتماد بہت کم کر دیا ہے۔ عوام میں یہ تاثرمستحکم ہوتا جا رہا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکم راں کون ہے، وہ محرومی اور عدم توجہ کا ہی شکار رہیں گے۔

اگر سیاسی راہ نما آپس کی چپقلشیںاورغیر مہذب رویہ ترک کر دیں تو پاکستان کے مسائل کے حل کی سمت بڑھنے کا امکان موجود ہے۔ انہیں اپنے طرزِ عمل میں تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور پائے دار ترقی کے حصول، پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات ، معاشرے کے بالا طبقے کی جانب سے ضرورت سے زیادہ کھپت پر قابو پانے،بیرونی ذرائع پر انحصار کم کرنے اور عام لوگوں کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرنے کے ضمن میں کام کرنےکےلیے ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیے ۔ اگر پاکستان میں سیاست اسی طرح جاری رہی تو ان میں سے کسی بھی ہدف کے پورے ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

دہشت گردی کا عفریت

پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اِس وقت اندرونی مسائل ہیں۔ دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی مسائل کے ضمن میں ملک غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی وجہ سے پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں نے دوبارہ سر اُٹھایا ہے اور گزشتہ چھ ماہ میں پاکستان کو دہشت گردی کی وجہ سے بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔

پاکستانی طالبان، ان کے اتحادیوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے باعث ریاست ایک دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ان مسائل کی وجہ سے آنے والے سال میں ریاست کی رٹ، قانون کی حکم رانی اور قومی وسائل پر بہت زیادہ دباؤ پڑسکتا ہے ۔ 2024 میں پاکستان کو وسیع النظر قیادت، فعال پارلیمان، پالیسیوں کی ساخت میں تبدیلی اور اشرافیہ کی جانب سے کسی حد تک قربانی دینے کی ضرورت ہو گی تاکہ سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے ایک دوسرے سے جڑے مسائل سے نمٹا جا سکے۔

2023 کے پہلے نو ماہ میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 386سکیورٹی اہل کاروں سمیت 1100 سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس عرصے میں2022کے مقابلے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 19فی صد اضافہ دیکھا گیا۔یہ سال عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کرنے والی پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے بدترین برسوں میں سے ایک رہا ۔ حملے تقریباً روز کا معمول بنے رہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ہونے والے اموات آٹھ برسوںمیں سب سے زیادہ ہیں۔

خاص طور پر شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں خودکش بم دھماکوں اور عسکریت پسندوں کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔2023 کے آغاز سے اختتام تک ہونے والی مجموعی اموات میں سے 92 فی صدان ہی دو صوبوں میں ہوئیں۔ پانچ ہفتے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل یہ سنگین صورت حال ہے۔

اگرچہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) مبینہ طور پر زیادہ تر حملوں میں ملوث رہی ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات داعش خراساں گروپ کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور سرگرمیاں ہیں۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے متعدد حالیہ حملوں کے تانے بانے اسی سے ملتے ہیں جس سے پاکستان کو درپیش سکیورٹی کےمسائل بڑھ رہے ہیں۔ سکیورٹی تنصیبات پر حالیہ حملوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروپ سخت سکیورٹی والے مقامات پر بڑی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔

ٹی ٹی پی کے کچھ دھڑوں اور داعش خراساں گروپ کے درمیان ابھرتے ہوئے گٹھ جوڑ سمیت کچھ بلوچ علیحدگی پسند گروپوں اور داعش خراساں کے درمیان بھی اسٹریٹجک اتحاد کی اطلاعات ہیں۔ واضح رہے کہ مختلف عسکریت پسند گروہوں کا اتحاد حفاظتی اداروں کے لیے صورت حال مزید پےچیدہ اور مشکل بنا دیتا ہے۔

قانون سازی اور قانون کے نفاذ کے چیلنجز

انصاف کے بعد احتساب اور پھر قانون سازی کے مسائل بھی نئی حکومت کے سامنے منہ کھولے کھڑے ہوں گے۔نیب کی جانب سے کیا جانے والا احتساب اب تو عدالتوں میں بھی مذاق قرار پانے لگا ہے،پھر اس سےکچھ خاص حاصل وصول بھی نہیں ہورہا۔

خارجہ اور دفاعی امور کے چیلنجز

پاکستان کو بیرونی محاذ پر بھی لاتعداد چیلنجز کا سامنا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی علاقائی، جغرافیائی سیاست کے بہ راہِ راست اثرات ہماری قومی سلامتی پر پڑ رہے ہیں۔ مغربی سرحد پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے ہماری قومی سلامتی سے متعلق خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اسلام آباد اور کابل کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات بھی کچھ اچھا خاکہ پیش نہیں کررہے ہیں۔

غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکینِ وطن کے انخلا اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے الزامات کے باعث اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر طالبان پاکستان کے مطالبات نہیں سنتے اور بڑے حملے جاری رہتے ہیں تو یہ صورتِ حال آئندہ عام انتخابات کو متاثر کرے گی۔

چین کے علاوہ خطّےکے زیادہ تر ممالک سے پاکستان کے روابط کوئی زیادہ اچھے نہیں کہے جاسکتے۔ ان ممالک میں افغانستان، ایران، بھارت اور بنگلا دیش شامل ہیں۔ عرب ممالک سے بھی، جو ہمارے دیرینہ حلیف ہیں، بہت زیادہ توقّعات وابستہ رکھنا دانش مندی نظر نہیں آتی۔ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر ہم ان کا ردعمل دیکھ ہی چکے ہیں۔

یہ درست ہے کہ خلیجی ممالک پاکستانی تارکینِ وطن کو روزگار فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ رہے ہیں،لیکن ہم نے انہیں اپنے اندرونی معاملات میں غیر ضروری طور پر ملوث کر کے خود کو خاصا نقصان پہنچایا ہے ۔ اس کے برعکس بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے عرب ممالک کے دوروں کے دوران بھارتی باشندوں کے لیے ہم دردیاں حاصل کر لی ہیں۔ اب وہاں ہر شعبے میں بھارتی تارکینِ وطن غلبہ حاصل کر رہے ہیں اور پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔اس کے علاوہ بھارت نے عرب ممالک کے ساتھ بڑے بڑے تجارتی اور اقتصادی معاہدے کرنے میں بھی کام یابی حاصل کی ہے۔

ادھر جو چہرہ امریکا کا اب سامنے آیا ہے اور سب دیکھ رہے ہیں، وہ بہت مختلف ہے۔ امریکا کا مسئلہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے ساتھ ہے۔ جس طرح سے امریکااب اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے وہ پہلے سے بہت مختلف ہے۔ 

پہلے وہ سپر پاور ہونے کے ناتےدنیا کے ایشوز کو سنبھالتااور انہیں نمٹاتا تھا،لیکن اب وہ خود ایشوز بنا رہا ہے اور پہلے سے موجودمسائل کو گمبھیر بنارہا ہے یا ان میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا۔پاکستان کے لیے فائدہ اس میں ہے کہ وہ امریکاکے ساتھ ایک حد تک تعلقات کو باہمی احترام کے تحت برقرار رکھے،کیوں کہ یہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہو گا کہ ہمارے تعلقات امریکا کے ساتھ خراب ہوں۔

جیو پالیٹکس

امریکا،اس کے اتحادیوں اور چین کے درمیان طاقت کے توازن کی نسبت میں کوئی بنیادی تبدیلی ہوتی نظرنہیں آرہی۔ ان کے درمیان جاری تزویراتی مقابلہ، اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی پے چیدگیاں اور ان کی وجہ سے جنوب مشرقی ایشیا کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی شاید پہلے ہی کی طرح رہیں گی۔امریکا اور چین پہلے ہی کی طرح با اثر علاقائی کردار رہیں گے جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم دونوں میں اعتماد میں کمی آچکی ہے۔

عالمی سیاست میں چین، افغانستان، اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے اردگرد ہونے والی پیش رفت ایک پے چیدہ پہیلی ہے۔ افغانستان سے متعلق چین کے حالیہ اقدامات اس کی اسٹریٹجک دور اندیشی کو ظاہر کرتے ہیں۔ کابل میں سفیر ژاؤ ژینگ کی تقرری طالبان کی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے میں بیجنگ کی دل چسپی اور طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم نہ کرنے کے باوجود، اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے چین کی سفارتی حکمت عملی خطے میں افغانستان کے وجود کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت اورچائنانیشنل پیٹرولیم کارپوریشن کے ذیلی ادارے کے درمیان25 سالہ اقتصادی معاہدے نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے۔2021میں طالبان کے قبضے کے بعد وہاں سفیر تعینات کرنے والے پہلے ملک کے طور پر، چین کا یہ اقدام افغانستان کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرنے کے ارادے کی علامت ہے ۔ اقتصادی اور دفاعی معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین ایشیائی ممالک کے لیے افغان چین اقتصادی تعلقات میں اس پیش رفت کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی کام یابی کے لیے افغانستان کا استحکام ضروری ہے، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ ایک مستحکم افغانستان سی پیک کےلیے ایک گیٹ وے کی سی اہمیت رکھتا ہے، جو چین کو بحیرہ عرب، مشرق وسطیٰ اور افریقا کی منڈیوں تک بہ راہ راست راستہ فراہم کر ے گا۔ 

لیکن چین، افغانستان میں بھی بی آر آئی جیسے منصوبے کا آغاز کرنے جا رہا ہے، جس کے تحت افغانستان سے ایران کی بندر گاہ، چاہ بہار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے چین ایک سڑک تعمیرکرے گا۔اس منصوبے سے متعلق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حالیہ منظر نامے میں پاکستان نے سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کی وجہ سے سی پیک پر کام میں سست روی کا مظاہرہ کیا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ چین، پاکستان کا متبادل ڈھونڈناچاہتا ہے؟

نئی حکومت پر لازم ہوگا کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو ذمے دارانہ طریقے سے چلائے،وہ دنیا کو باور کرائے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو نہ صرف اپنے ہاں امن چاہتا ہے بلکہ خِطّے میں بھی، اور خاص طور پر افغانستان میں مثبت کردار اداکر سکتا ہے اور اس کا خواہش مند بھی ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ ایسے میں یہ سوال کیا جاتاہےکہ کیا پاکستان کے لیے امریکا کو راضی رکھنا اہم ہے؟اس کے جواب میں ہمیں صرف یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کو کسی ملک کو راضی نہیں کرنا چاہیے بلکہ جمہوری ملک ہونےکے ناتے اپنے عوام کو راضی کرنا چاہیے ، کیوں مطمئن قومیں آگے بڑھنے کا راستہ ہر حال میں ڈھونڈ ہی لیتی ہیں۔ اگر آپ صحیح جگہ پر کھڑے ہوں اور آپ کو معلوم ہو کہ کس نکتے پر سمجھوتا نہیں کرنے میں پاکستان کا فائدہ ہے تو دنیا بھی سمجھ جاتی ہے اوروہ آپ پر بلا وجہ دباؤ ڈالنا بند کر دیتی ہے۔

شام،یمن اور قطر کے معاملے میں ہم نے ماضی میں مناسب پالیسی اختیار کی جس کی وجہ سے بعض جبینوں پر بل تو پڑے ،لیکن ہم بہت سے بین الاقوامی الجھاواور اندرونی خلفشار سے بچ گئے۔کسی بھی ریاست سے ہمارے تعلقات خوا ہ کسی بھی نوعیت کے ہوں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کسی کی پراکسی یا کلائنٹ ریاست نہیں ہے۔

ہمارا دنیا اور اس خطے میں ایک جیو پولیٹیکل مقام ہے۔ہمیں ترکی اور ملائیشیا سے تعلقات بڑھانے کے ضمن میں بھی یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے اور ان ممالک کے ساتھ تعلقات کی نئی منزلیں چڑھنا چاہیے۔

تمام تر تلخیوں اور بری یادوں کے باوجود بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کے دروازے بالکل کھل سکتے ہیں۔ لیکن یہ عمل دو طرفہ کوششوں کا متقاضی ہے نہ کہ یک طرفہ۔مذاکرات کے ذریعے اس سے بڑے بڑے مسئلے دنیا میں حل ہو چکے ہیں۔ اگر کشمیریوں کی امنگوں اور خواہشات کو مد نظر رکھیں تو ہمارے لیے یہ مسئلہ حل کرنا مشکل نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بھارت پوری دنیا کو اپنا نہایت گھناؤنا چہرہ دکھا رہا ہے۔

ہماری بقا کو سب سے زیادہ خطرہ بھارت سے لاحق رہتا ہے، لیکن دنیا کے حالات اس نوعیت کے ہوچکے ہیں کہ مستقبل قریب میں بھارت سے کسی بڑی جنگ کا خطرہ نظر نہیں آتا۔ البتہ اس کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں اور آئندہ بھی جاری رہ سکتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمیں ’’دہشت گردی‘‘ کے زمرے میں لپیٹنا چاہتا ہے۔لیکن وہ اب تک اس کوشش میں کام یاب نہیں ہوسکا ہے۔

بیرونی خطرات کے ضمن میں ہمیں اصل خطرہ خراب سفارت کاری سے ہے،جسے ہمیں لازما بہتر بنانا ہوگا ، ورنہ ہم عالمی برادری کے سامنے جیتے ہوئے کیسز بھی ہارجائیں گے۔

ماحولیاتی چیلنجز

ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے وہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے۔ وہ خطرہ ماحولیاتی ہے۔ اس ضمن میں شدید ہوتے ہوئے مسائل میں بڑھتا ہوا اسموگ، حد سے کہیں زیادہ آلودہ ہوا، کچرا ٹھکانے لگانے کے نظام کی بڑھتی ہوئی ناکامی ، سیلاب،فلیش اور اربن فلڈنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات اور خطرات، گلیشیئرز کا پگھلنا، موسموں کے انداز میں تبدیلی، شدید گرمی اور سردی کی لہروں کاوقفے وقفے سے آنا،پانی کی بڑھتی ہوئی قِلّت،کاشت کاری کے روایتی طریقے، زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزّلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور اس میں بہ تدریج اضافہ ہو رہا ہے، جس سے پاکستان کے دیگر مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

پاکستان چين اور بھارت کے بعد ان ممالک کی فہرست ميں تيسرے نمبر پر ہے جہاں آلودگی کے سبب سب سے زيادہ لوگ ہلاک ہوتے ہيں۔ دو دہائیوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ اوّلین دس ممالک کی فہرست میں پاکستان مسلسل موجود ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو 3800 ملین ڈالر زکا نقصان ہوچکا ہے۔ یہ ہی نہیں بلکہ اس وجہ سے سب سے زیادہ اقتصادی نقصانات اٹھانے والے ملکوں میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔

2012 میں حکومتی سطح پر قومی موسمیاتی پالیسی ترتیب دی گئی ،لیکن صد افسوس کہ سیاسی عدم دل چسپی کی بنا پر اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔پی ٹی آئی کی حکومت نے درخت لگانے کی مہم شروع کی ، جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔اب پاکستان کی فضائیں زہریلی ہو چکی ہیں۔ صاف، شفاف ہوا آلودہ ہو چکی ہے۔ ندیاں، چشمے اور دریا، بدبودار ہو چکے ہیں۔ زہریلی گیسز اور دھوئیں نے آسمان کے محفوظ خطوں کو پھاڑنا شروع کردیا ہے۔ 

خوف ناک بیماریاں، تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ملک میں فصلوں کی پیداوار، اناج کی غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ زمین، سیم اور تھورکا شکار ہو رہی ہے اور زمین کا کٹاؤ بڑھ رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کاشت کے اوقات اور نشوونما کے مراحل کے حساب سے مختلف فصلوں پر مختلف ہوتے ہیں ۔ درجہ حرارت تھوڑے عرصے کے لیے بڑھتا ہے تواس سے گندم کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

گردوغبار اور دھواں چھوڑتی گاڑیاں بھی ماحول میں ایسی گیسز بڑھانے کا سبب ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ جگہ جگہ ٹریفک جام، ٹو اسٹروک رکشوں، پرانی گاڑیوں کا دھواں اور ربڑ پگھلانے والی فیکٹریز بھی فضائی آلودگی کا باعث بن رہی ہیں۔ 

صنعتوں سے مضرِ صحت کیمیائی مادوں کا اخراج، شہروں اور دیہات میں آبادی کے نزدیک کھلے گندے نالے، نہروں، دریاؤں اور سمندروں میں بغیر ٹریٹمنٹ کےڈالا جانے والا آلودہ پانی ہیپاٹائٹس، پیچش، ٹائیفائیڈ اورکینسر جیسے امراض کا باعث بن رہا ہے۔زراعت میں استعمال ہونے والے زہریلے اسپرے ایک اور مصیبت ہیں۔

جنگلات کو آگ لگانے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے جنگلی حیات پر بھی اثر پڑ رہا ہے، جنگلی جانوروں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور کافی حد تک ان کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کا باعث بن رہا ہے۔جنگلات کی کمی سیلاب کا باعث بنتی ہے، کیوں کہ درخت زمین پر کیل کی مانند ہیں۔ پاکستان خِطّے میں کم جنگلات والے ممالک میں شامل ہے جس کا صرف چار فی صد جنگلات پر مشتمل ہے۔ 

اوزون کی تہہ فضائی آلودگی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے، جو زمین پر انسانی زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ساحلی علاقوں میں تِمر کے جنگلات میں کمی، خطرے کی جانب ایک اور قدم ہے۔جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم عالمی فنڈ ،ڈبلیو ڈبلیو ایف، نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں جنگلات میں کمی ہو رہی ہے، یعنی جنگلات پورے ملک کے رقبے کے چھ فی صد سے بھی کم ہیں۔ ٹمبر مافیامقامی پولیس کے ساتھ مل کر بے خوف وخطرکام کر رہا ہے جس وجہ سے وسیع پیمانے پر جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔

اگرچہ درجِ بالا کے علاوہ پاکستان کو کئی دیگر چیلنجز بھی درپیش ہیں، لیکن اگر ہم اس برس درج بالا مسائل پر قابو پانےیا ان کی شدّت مناسب حد تک کم کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں تو بہت سے دیگر مسائل کی جڑیں خود بہ خود کٹ جائیں گی۔