• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منصوبوں کا موہن جو داڑو، وقت کی گرد میں دفن ہوگیا

31دسمبر 2023ء کے سورج نے جب پردہ شب سرکایا تو بکھری ہوئی روشنی اور خنک صبح میں منیر نیازی کی دل گیر آواز کی گونج سماعت سے ٹکرائی

وقت کس تیزی سے گزرا روز مرہ میں منیر

آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے

واقعی ایسا لگا کہ سال کے بارہ ماہ کا سفرپلک چھپکتے گزر گیا۔ شاید اسی تناظر میں افتخار عارف نے کہا تھا۔

کوئی تدبیر کرو، وقت کو روکو یارو

صبح دیکھی ہی نہیں شام ہوئی جاتی ہے

******************

اسی سمے اقبال کی آواز اُبھری

تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا

******************

ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات

ذہن میں مجاز بھی در آئے

اے غم دل کیا کروں۔ اے وحشت دل کیا کروں

تب ایک بے نام خلش روح پر محیط ہوتی چلی گئی اور ایک غیر معمولی دکھ آنکھوں میں نمی لے کر ابھرنے لگا۔ ہم نے تو چاہا تھا کہ فقط یوں ہوجائے کہ ملک کے حالات سدھر جائیں، لیکن کچھ نہ ہوا۔23 نے 24 کا لبادہ اوڑھ لیا۔ نقاش فطرت نے صبح کی روپیلی کرنوں کا سونا بکھیر دیا۔ نئی صبح طلوع ہوچکی۔ خواہشوں کے پرندے اندھی شاخوں پر جاگ رہے ہیں۔ 

اس لمحے گلزار گنگنانے لگے، سر پہ ایک پرندہ وقت کا میرے ساتھ اڑتا رہتا ہے، یاد دلاتا رہتا ہے، کتنا سفر طےکر آئے ہو، کتنا سفر اب کرنا ہے،لیکن یہ سفر تو ابد تک جاری رہے گا۔ سوال تو یہ ہے کہ سال گزشتہ میں کیا منصوبے بنائے تھے، ان پر کتنا عمل درآمد کیا تھا؟ اس مختصر سوال کا معنی خیز جواب یہ ملا کہ، منصوبوں کا موہن جو داڑو، وقت کی گرد میں دفن ہوگیا۔

سال کے 365 دن فیصلے کرنے ، ہر صبح انہیں توڑتے ہر روز ایک نئے داغ شکست کے ساتھ طلوع ہوتے دیکھا، ایسا لگا 2023ء میں،

چاند نکلا۔ نہ تارے فروزاں ہوئے

لوگ راہوں میں یونہی ٹھکتے رہے

درد خیرات تھا، یونہی بٹتا رہا

اشک خوں نے کی ضبط کی داستاں

حوصلوں کو ندامت ہوئی ہار کر

موت ہنستی رہی قہقہے مار کر

آدمی آدمی کا شکاری ہوا

بوئے گل تھی رہی سرگرداں رات بھر

پھول نکلے مگر خون میں ڈوب کر

اب تو یہ کیفیت ہے کہ، امید کا خون پی چکے ہیں۔ آلام کے بے شمار کھٹمل حقیقت تو یہ ہے کہ جب ہم کبھی ایام گزشتہ یا سال گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہیں تو لیل و نہار کے مرقد پرنصب ہمارے ماضی کی تاریخ کے تمام کتبے ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔تاریخ کے اس مسلسل عمل کے نتیجے میں سارا منظر نامہ ہی دھندلا دھندلا نظر آتا ہے۔

وقت کےستم بھی عجیب ہوتے ہیں۔ انسان کی معمولی سی لغزش غیر معمولی سانحات ۔لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات پر منتحج ہوتے ہیں، لیکن ہم اس حقیقت سے بے خبر رہتے ہیں کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ وقت کی گرد میں اٹے 2023 کے اوراق جو ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، لیکن ہمارے رگ و پے میں زہریلے ناگ کی طرح پیوست ہیں۔ اس سال کے دکھ درد اور کرب کی تصویریں عیاں کرتی ہیں کہ پورا سال ہی چیختے دھاڑتے روتے پیٹتے شام الم میں گزرا۔ ایسا لگا کہ زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں۔ لیکن۔ کیا جرم ہے پتا ہی نہیں۔ 

آنکھوں کے سامنے سارے منظر کسی فلم کی طرح چل رہے ہیں۔ یقیناً وقت دکھائی نہیں دیتا مگر پھر بھی کیا کیا دکھا دیتا ہے۔ گرچہ 2023 ء میں ہم تیز شعاعوں کی طرح محو سفر رہے لیکن ایسا سفر جس کی منزل نہ پہلے پتا تھی نہ اب معلوم ہے۔ اپنے گھر میں بھی اجنبی سے ہوکر رہ گئے۔ سب سہارے تجارتی نوعیت اختیار کر گئے۔ آرزوئیں مات کھا گئیں۔ خواہشیں حسرتوں کا روپ دھار کر دہلیز ہی پر سر رکھ کر دم توڑتی رہیں۔ منزلوں کی جستجو نے ہمیں سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا اور بے بس انسان دربدر خاک بسر ہوگئے۔ سچ تو یہ ہے ک جب مسافت کٹ جاتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ سفر کی دھول ہی ہمارا پیرہن ہے۔ 

لاوے سے کہساروں کا سینہ تو پھٹ جاتا ہے مگر مسلسل شکست دل کے باعث انسان پر جو بے حسی طاری ہوتی ہے وہ اس سے کوئی اثر قبول نہیں کرتا اور جب کوئی معاشرہ بے حسی کا شکار ہوجائے تو وہاں انسانیت کی توہین، تذلیل اور بے حرمتی کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن واقعات عام ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد المیہ یہ ہوتا ہے کہ شامت اعمال کے نتیجے میں وہاں ہر طرف ذلت، بے برکتی، بے توقیری، بے غیرتی، بے حیائی، بدحالی اور بدنیتی کے کتبے آویزاں ہوجاتے ہیں۔ خوف و دہشت کی اس فضا میں اب بھی درو دیوار حسرت و یاس کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔

گلشن ہستی میں نسیم اور صبا کے بجائے باد سموم کے بگولے اُٹھتے رہے۔ 2023 کے منظرنامے میں یہی کچھ بلکہ اس سے بھی بدتر نظر آیا۔ہر طرف اضطراب اور ایک عجیب گومگو کی سی کیفیت تھی۔ سیاست کے دریچے کوچۂ عدالت میں کھلتے رہے۔ چھوٹے چھوٹے سانحات ہمیں خواب غفلت سے بے دار نہ کرسکے۔ ہر محاذ پر لڑائی جھگڑوں کے ساتھ اتحاد بنتے بگڑتے رہے۔ خون بہتا رہا اور سیاست دان اقتدار کی جنگ میں باہمی احترام اور رواداری کا خون کرتے ، اس سے یک سر غافل رہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے کس قسم کی فصل کاشت کر رہے ہیں۔ امروز کے لمحوں کی قدرو قیمت کا احساس کرنے کے بجائے فردا کے سود و زیاں کا خیال کرتے رہے۔ 

بات سمجھ سے بالاتر ہی محسوس ہوتی ہے کہ آخر سال گزشتہ میں ایسا کیا ہواکہ زمین نے اناج اُگانے ہی سے انکار کردیا تھا یا پھر اقتدار کے پچاری اپنے ضمیر کو زندہ درگور کرکے ہوس زر کی تگ و دو میں کچھ اس طرح ملوث ہوگئے کہ نہ تو خلق خدا کے حقوق کا ہی خیال رہا نہ اپنی عاقبت کا۔ گرچہ معیشت کا سفینہ ہچکولوں سے سنبھلنے لگا۔ کاروباری سرگرمیوں کو تازہ آکسیجن بھی ملی لیکن بھوکے ننگے عوام آٹا، گھی، ٹماٹر، پیاز کے تعاقب میں صبح سے شام تک خجل خوار ہوتے رہے، یوں مہنگائی کے عفریت نے رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا۔

اس وقت ناروے، سوئیڈن اور ڈانمارک دنیا کی مثالی رفاہی ریاستیں ہیں، جہاں ضرورت مندوں خاص کر عمر رسیدہ لوگوں کو گرم جرابوں سے لے کر سیاہ تلخ کافی کے ڈبے بھی احترام کی مٹھاس کے ساتھ دیے جاتے ہیں، وہاں انسان کے انسان سے رشتے کم زور ضرور ہیں لیکن ریاست کے ہر شہری سے رشتہ بڑا ہی مضبوط ہے لیکن ہمارے ملک میں تو زندگی وبال بن گئی۔ عوام اپنے ہی گلی محلوں میں خوف، بے یقینی کے ماحول میں سانس لیتے رہے۔ شاید اسی کیفیت کے تصور سے اقبال نے کہا تھا کہ، غلامی سے بدتر ہے بے یقینی۔ سال گزشتہ میں ملک کی فضا تھی ہی کچھ ایسی۔ 

جہر کی لامتناہی بارشوں میں، نفرتوں کی آکاس بیل، جہالت کے شاداب پودوں پر کچھ اس طرح پروان چڑھی کہ اب اسے پودوں کی قطع و برید کے بغیر نکال پھینکنا ناممکن ہے۔ ماحول میں کشیدگی، طبیعت میں کدورت، ذہن میں انتشار اور روح میں کلفت کچھ اس طرح رچ بس گئی کہ نہ احساس ندامت رہا نہ زخموں کا علاج۔ سال کا سارا منظر خاموشی اور بے حسی کے گرد میں اَٹا ہوا نظر آتا ہے۔تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک کہر زدہ مستقبل ،ٹوٹے ،پھوٹے خواب ،مایوسیاں ،ناکامیاں ،عوام خصوصاً نوجوان کو جکڑی رہیں۔

گزرا سال تمام خوبیوں اور خرابیوں کے ساتھ رخصت ہوا اور بجھتی ہوئی آنکھوں سے نئے سال کے سورج کو طلوع ہوتا دیکھا ۔2024ء انتخابات کا سال ہے۔ اقتدار کے لیے جنگ خوف ناک دور سے گزر رہی ہے ،عجیب تماشا لگا ہے۔ سیاسی خلفشار میں محاذآرائیوں، بیانیوں کے باعث پاکستان کو درپیش مسائل سے ہمارے لیڈر تو بے خبر نظر آرہے ہیں۔ پانی سر سے گزر رہا ہے۔ بات مبہم استعاروں سے آگے جارہی ہے۔ فیصلہ کن موڑ آنے کوہے لیکن ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا اور ہم سب دیکھیں گے۔ فیض کی نظم باربار پڑھنے کے بعد، پھر پڑھیے اور سوچیےکہ ہم بھی دیکھیں گے، یہی فیض کی نظم کا عنوان ہے۔

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوح ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہل حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

جب ارض خدا کے کعبے سے

سب بت اٹھوائے جائیں گے

ہم اہل صفا مردود حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

اٹھے گا انا الحق کا نعرہ

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے گی خلق خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو