• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان میں بے انتہا غربت تھی، 1960تک ان کے بچے خوراک کی قلت کا شکار تھے، یہ بچے لاغر اور کمزور پیدا ہوتے تھے۔لہٰذا ان کے قد چھوٹے، ہڈیاں کمزور، وزن کم اور رنگ پیلے تھے، جاپانی اس دور میں 24 گھنٹے میں صرف ایک کھاناکھاتے تھے، پاکستان نے 1957میں چاولوں سے بھرا ہوا ایک بحری جہاز ٹوکیو بھجوایا،جہاز پر جاپان کی امداد کیلئے پاکستان کا تحفہ لکھا ہوا تھا اور پورے جاپان نے ہاتھ جوڑ کر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا، جاپانیوں کو آج بھی پاکستان کا یہ احسان یاد ہے۔جاپان دنیا کے ان4 ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن کے ساتھ پاکستان کے تعلقات شروع دن سے حیران کن رہے، ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن پاکستان اور بھارت کو 15 اگست 1947 کو آزادی دینا چاہتے تھے۔اس کی وجہ جاپان تھا، جاپان نے 1945میں 15 اگست کو امریکا کے سامنے سرنڈر کیا تھا۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی خواہش تھی15اگست1947کو جب پورا برطانیہ یوم فتح منا رہا ہوتو بھارت اور پاکستان کی پیدائش اس وقت ہوتا کہ ہر سال جب ان دونوں ملکوں کے لوگ آزادی کی تقریبات منائیں تو اس وقت جاپانی افسردہ ہوں اور یہ کھیل تاابد جاری رہے۔یہ منصوبہ جب قائداعظم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فوراً انکار کر دیا، قائد کا کہنا تھا ''ہم اپنا یوم آزادی کسی دوسری قوم کے یوم شکست پر نہیں رکھیں گے'' جاپانی آج تک پاکستان کا یہ احسان نہیں بھولے، دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد جاپان نے تاوان ادا کرنا شروع کیا۔یہ آج بھی امریکا کو ہر سال 10 بلین ڈالر ادا کرتا ہے، پاکستان کا اس تاوان میں چھٹا حصہ تھا، قائداعظم نے اس وقت اپنا یہ حصہ بھی جاپان کو معاف کر دیا تھا ۔ ہماری دریا دلی صرف جاپان تک محدود نہیں تھی، ہم نے1950کی دہائی میں جرمنی کو5کروڑ روپے قرض دیا تھا، پولینڈ کے متاثرین کو پناہ دی تھی، چین کا دنیا کے ساتھ رابطہ کرایا تھا، پی آئی اے دنیا کی پہلی ائیرلائن تھی جس نے چین کی سرزمین کو چھوا تھا اور ماؤزے تنگ اور چو این لائی نے ائیرپورٹ آ کر ہماری فلائٹ کا استقبال کیا تھا۔ہم نے ماؤزے تنگ کو ذاتی استعمال کیلئے جہاز بھی گفٹ کیا تھا، یہ جہاز آج بھی چین کے میوزیم میں پاکستان کے شکریہ کے ساتھ کھڑا ہے، ہم نے اپنے ترک بھائیوں کی قیام پاکستان سے پہلے بھی مدد کی تھی اور قیام کے بعد بھی، ہم نے استنبول میں پہلا بوئنگ طیارہ اتارا تھا اور ترکی نے اس کے لیے ائیرپورٹ پرنیا رن وے بنایا تھا، ہم نے مراکو، تیونس اور الجزائر کی آزادی میں بھی مرکزی کردار ادا کیا، چین اور امریکا کا پہلا رابطہ اور ہنری کسنجر اور صدر رچرڈ نکسن کے چین کے پہلے دورے کا انتظام بھی ہم نے کیا تھا، چین میں لوہے کا پہلا کارخانہ پیکو کی طرز پر لگا تھا اور چو این لائی اسے دیکھنے کیلئے اپنے ماہرین کے ساتھ 1960کی دہائی میں لاہور آئے تھے، ایران کی ترقی اور یورپ اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا، فلسطین کیلئے پہلی عالمی آواز بھی ہم نے اٹھائی تھی، شام، اردن اور مصر کی سفارت کاری، آزادی اور بحالی میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا، سعودی عرب میں 1970 تک پاکستان سے زکوٰۃ جاتی تھی اور سعودی شہری خانہ کعبہ میں پاکستانیوں کے رزق میں اضافے کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔یو اے ای کی ترقی میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا، دنیا کی چوتھی بہترین ائیرلائن ایمریٹس کا کوڈ (ای۔ کے) ہے، اس کا ''کے'' کراچی ہے، یہ ائیر لائن کراچی سے اسٹارٹ ہوئی تھی، ہم نے انھیں جہاز بھی دیا تھااور عملہ بھی، سنگا پور ائیرلائن اور پورٹ دونوں پاکستانیوں نے بنائیں، ملائیشیا کا آئین تک پاکستانی وکلاء نے لکھا تھا، جنوبی کوریا کی گروتھ میں محبوب الحق کے5 سالہ منصوبے کا اہم کردار تھا، بھارت 1990کی دہائی میں پاکستان سے بجلی خریدتا رہا اور من موہن سنگھ نے ''شائننگ انڈیا'' کا پورا منصوبہ پاکستان سے لیا تھا۔دنیا کی تین بڑی انجینئرنگ فرمز نے1960ء کی دہائی میں کنسورشیم بنا کر منگلا ڈیم کی ''بڈ'' کی تھی اور ہارورڈ یونیورسٹی کی انجینئرنگ کلاس کے طالب علم جہاز بھر کر مطالعے اور مشاہدے کیلئے منگلا آتے تھے اور اس منصوبے کوحیرت سے دیکھتے تھے۔ پھر اس ملک پر ایک ایسا دور آیا جس میں ہم ایک ارب ڈالر کیلئے دنیا کےدروازے پر بھکاری بن کر بیٹھے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ ہم نے کبھی سوچا ہمیں ماننا پڑے گا ہم نے بڑی محنت اور جدوجہد سے اس ملک کو برباد کیا ہے، ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، ہمیں چند بڑے فیصلے کرنا ہونگے۔ہمیں سب سے پہلے سیاسی انجینئرنگ بند کرنا ہوگی، ملک میں5 سال بعد الیکشن ہوں اور یہ فری اینڈ فیئر ہوں، کوئی بھی سیاستدان2یا 3سے زیادہ مدت تک وزیراعظم نہ رہ سکے،ہم فوری طور پر آبادی کنٹرول کریں اور 30سال کی عمر تک تمام لوگوں کو ہنر مند بھی بنائیں، کام کو لازم قرار دیدیا جائے اور جو شخص کام نہ کرے۔ پولیس اسے گرفتار کرے اور اپنی نگرانی میں اسے کام پر چھوڑ کر آئے اور اس کی آدھی تنخواہ بحق سرکار ضبط کر لی جائے اور آخری مشورہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک ہی بار بیٹھ کر اگلے 20 سال کا قومی منصوبہ تیار کر لیں اور پھر کوئی شخص اسے چھیڑنے کی جسارت نہ کرے اور جو کرے اسے قرار واقعی سزا دی جائے، آپ یقین کریں ہم ان چند اقدامات سے ایک بار پھر عزت اورآبرو کی شاہراہ پرآ سکتے ہیں۔

تازہ ترین