• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قبلہ نواز شریف کا میرا مسئلہ نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ’’اُنہیں چاہتا کوئی اور ہے‘‘میرا سبجیکٹ بھی نہ ہونے کا سبب یہ نہیں کہ اُنہیں رٹا لگا کر میں فیل ہو سکتا ہوں نہ پاس۔ اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ میاں صاحب کوئی غیر اہم قیادت ہیں، لمحہ موجود میں شاید سب سے اہم قیادت ہیں!نہ سبجیکٹ، نہ وجہ، تو ہے کیا یہ سب ؟ سادہ سی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے بعد پی ڈی ایم نے معیشت کا وہ بھٹہ بٹھا دیا کہ رہے نام اللہ کا، کسی پارٹی کے ترجمان تجزیہ نگار کے بجائے اگر کوئی حقیقی ماہر معاشیات 2018تا حال کی معاشی بگاڑ کی کڑی سے کڑی ملا کر سمجھائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم عرف شہباز شریف معاشی ٹیم ٹکے کی نہ تھی۔ پہلے تحریک انصاف نے آئی ایم ایف تعلقات خراب کئے پھر پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کے برعکس ایک سو اسی کے زاویہ سے آئی ایم ایف کی زلف کی اسیری کو کامیابی کی ضمانت سمجھ لیا۔ ان دو حکومتوں کے دو مختلف انداز کے غیر سنجیدہ رویوں نے مایوسی کی اس اندھیر نگری کو جنم دیا کہ پھر تیسری طرف دیکھنے کی ’’حب الوطنی‘‘کو بروئے کار لانا ’’ سرکارِ عالی‘‘ کی مجبوری بن گئی تو اس ازسرِ نو سرکار نوازی کی ٹھان لی گئی!

اس سرکار نوازی نے پہلے پاپولر تھیم کی آبیاری کی یہاں کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔ یوں رات کاٹی خدا خدا کر کے تو خیال آیا کہ بقولِ شخصے مِکسڈ اچار ہی کا ذائقہ دیکھ لیں، جب یہ اچار سیدھا گلے میں پھانس کی طرح لگا اور پھرہضم بھی نہ ہوا تو مہربانوں کا خیال پھر پرانے خیالوں میں جا گُھسا۔ یہاں لمحہ بھر کیلئے سوچتے ہیں، اور متبادل تھا بھی کیا؟ ایم کیو ایم ؟ اے این پی؟ مولانا فضل الرحمٰن ؟ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس؟ جماعت اسلامی ؟ پیپلزپارٹی ؟ ہاں تو پھر کیا ؟ ان سوالوں کا جواب ملے گا نہیں، پھر بھی جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پہلے تھوڑا سا غور اس پر کہ 2018 میں عمران خان کیلئے اقتدار تراشا گیا ، یہ غلط ہوا تھا۔ پھر تراشے ہوئے پتھر کے صنم مندر میں بھگوان بن کر بیٹھ گئے ، یہ اس سے بھی زیادہ بُرا ہوا۔ خان یہ سمجھ بیٹھا کہ میں نہیں تو پھر کوئی نہیں ! یہ وہ سوچ ہے جہاں سے معاشی اور جمہوری ڈیڈلاک شروع ہو گیا،کامران جمہوریت، معیشت میں باکمال اور طنطنہ میں سپر ، امریکہ میں جب ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ زعم ہوگیا کہ پاپولر صدر بل کلنٹن کی بیوی، کامیاب ترین وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی قوت کو میں نے شکست سے دو چار کردیا تو آئین اور روایات کو بھی شکست دینے کے درپے آگیا ۔ یہاں سے قسمت کی دیوی اس سے روٹھنا شروع ہوئی اور پے در پے رسوائی مقدر بنتی چلی گئی۔ آخر پچھلے دنوں کولوراڈو سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن 2024 میں حصہ لینے پر پابندی لگادی۔ فرض کیجئے پابندی ہٹ بھی جائے لیکن ایک دفعہ تو ٹرمپ بری طرح داغدار ہوگیا جسے مغربی جمہوریت نظرانداز نہیں کرے گی۔

صاف ستھری سیاست اور فرشتگی اگر بانی پی ٹی آئی کی منشاء تھی پھر اقتدار فراہم کرنے والے ’’محسنوں‘‘ سے بگاڑنے کے بجائے کسی نئی رُت اور روایت کو تراشنے کی سعی عمل میں لائی جاتی۔ عدم اعتماد تحریک کا مقابلہ کرکے اصولی جنگ پارلیمان میں لڑی جاتی۔ کیا کوئی حقیقی ڈیموکریٹ مکالمہ کے مقابل زباں بندی و تالا بندی لاتا ہے؟ وزیراعظم کی کرسی پر براجمان کوئی اپوزیشن لیڈر سی زبان اور کوچہ و بازار میں اپوزیشن لیڈر سی شعلہ بیانی کرتا ہے؟ سیاسی حکمت ریاستی خیر مانگتی ہے یا ذاتی ؟ اس سیریز پر اسٹیٹس مین کو غور کرنے کی ضرورت ہے جارہانہ حکمتِ عملی سے لاٹری پی ڈی ایم کی نکلی نقصان ریاست اور عوام کو ہوا۔ پھر پی ڈی ایم کی غیر منصفانہ پالیسیوں سے نقصان عوام کو ہوا ۔ یہی نہیں واقعی آپ مقبول ترین لیڈر ہیں، دبانے کی پاداش میں مزید ابھرے ، حکومت سے نکالنے کے تناظر میں مزید نمایاں ہوئے ، ملا کر دیکھیں تو دو پاپولر فیز کے حامل قرار پائے ۔ کُل ملا کر دیکھیں، اور ایک پاپولر فیز الیکشن 2018 والی بھی شامل کرلیں تو اس ہیٹ ٹرک فیز اور فیض سے ملک و ملت کیلئے معاشی ، معاشرتی ، خارجی اور تعلیمی مقصدیت جیسی کامیابیاں ملیں یا عوام رُل گئے اور رگڑے گئے؟صداقتِ عامہ ہے کہ ریاستی ترقی کے نمایاں اشاروں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بڑھوتری ، معاشی بناؤ ، ترقیاتی معاملات ، داخلی ٹھہراؤ اور خارجی امور میں بہتری کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اور یہ سب عمرانی دور 2018تا 2022 تک تو کہیں نظر نہیں آئے تاہم مخالفین چور مخالفین ڈاکو کی پوسٹ ٹرُتھ اور گیس لائٹنگ سے متشکل مائنڈ سیٹ بہت دکھائی دیا جس سے شخصی فائدہ تو ممکن ہے ہوا ہو مگر قومی نہیں ہوا۔ مقبولیت کا زیور کاٹے کانوں کو اور چبھے شہ رگ پر پھر ایسے بناؤ سنگھار کا فائدہ کیا ؟ اس کے برعکس میاں نواز شریف کا ڈیویلپمنٹ ، انسدادِ دہشت گردی ، انرجی سیکٹر میں ترقی وغیرہ کے عملی بیانئے کوچہ و بازار میں دِکھتے ہوں تو پھر سرکار عالی کا یو ٹرن بھی تو بنتا ہے صرف بانی پی ٹی آئی ہی کا نہیں !

بہرحال مقبول و غیر مقبول آسیب سے نکل کر افادیت کی برکت کو بھی دستک دینا فرض ہو گیا ہو شاید، یاد ہوگا عالمی منڈی میں پٹرول اور کوکنگ آئل کی ریکارڈ مہنگائی، آسمان کو چھوتا ڈالر 2008 تا 2013 تک پاکستانی معیشت کی چُولیں ہلاتا رہا، دہشت گردی کا تحفہ الگ ملا، آصف علی زرداری کے اُس دور میں زرخیزئ آئین سازی، مکالمے کا پروان چڑھنا، مفاہمتی باغ و بہار ، اپوزیشن ممبران کیلئے گرانٹس کے فوائد، خارجی کامیابیاں، این ایف سی ایوارڈ روایت، سی پیک کی عملاً ابتدا ، تنخواہوں میں تاریخی اضافہ، کئی اداروں کو پرافٹ پر چھوڑنے کا اعزاز بھی زرداری حکومت کے سنگ رہا،گویا پچھلے 23 سالوں کا جائزہ لیں تو کارکردگی فلور پر نوازشریف طرز سیاست میرا سبجیکٹ یا مسئلہ نہیں یہ قومی ضرورت یا نیشنل سبجیکٹ ہے!

تازہ ترین