• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ ہفتے گزرے، پڑھنے والوں سے علی افتخار جعفری کی صحت یابی کے لئے دعا کی استدعا کی تھی۔ دعائیں بہت کی گئیں، مستجاب نہیں ہوئیں۔ نو فروری کو رات کے پہلے پہر سوگوار دوستوں نے یہ سورج اپنے ہاتھوں زمیں کے سپرد کر دیا۔ غرفۂ کمال ابھی ادھ کھلا تھا۔ عمر عزیز کے چوالیس برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔ اظہار کے لئے غزل کا پیرایہ چنا تھا۔ انتخاب کا معیار ایسا کڑا کہ بیس برس کی ریاضت کا حاصل ایک مجموعہ ’’مٹی ملے خواب‘‘۔ ضخامت سو صفحات سے بھی کم۔ غالب نے اپنے کلام کے انتخاب میں جو احتسابی روایت قائم کی تھی، اسی کا اتباع کیا۔ شعر میں کسی قدر مشکل پسند سمجھے جاتے تھے مگر یہ رنگ اپنی بلند پروازی کی دھاک بٹھانے کے لئے نہیں اپنایا تھا۔ مضمون کی ندرت اور بندش کی چستی تو کسی بھی پختہ گو شاعر کے ہاں مل جائیں گی۔ علی افتخار نے مشرق و مغرب کے جدید شعری نظریات سے فیض اٹھایا تھا اور جدید روایت میں تخلیق کی کٹھنائیاں سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں زبان و بیان کے بارے میں غیر محتاط رویہ ایسا ہی ناروا تھا جیسا سخن دانی کے زعم میں تخلیق کے شعوری تقاضوں سے بے اعتنائی۔ ’’ان کا خیال تھا کہ تخلیق کار قادرالکلام نہیں ہوتا۔ قادرالکلام تو محض آلات ہنر کا استعمال جانتا ہے، اسے فن کے ان اعلیٰ اور وسیع تر تقاضوں سے کیا واسطہ جو تخلیق کار کی جان کا روگ ہوتے ہیں۔ افریقہ سے واپسی پر غزل کے علاوہ نظم بھی کہنے لگے۔ علالت سے محض دو ہفتے قبل ایک محفل میں پانچ نظمیں سنائیں۔ یہ زمیں آسمان تھی پیارے!
علی افتخار ہفت زباں تھے۔ عربی لہجوں کے رموز پر ڈاکٹر نعمان الحق سے بات ہوتی تھی۔ فارسی کی نزاکتوں پر محمد خالد سے صحبت ہوتی تھی۔ اردو لسانیات کے ضمن میں عارف وقار سے استفادہ کرتے تھے۔ جدید شاعری پر ابرار احمد سے تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ انگریزی میں ایسی استعداد کہ بہت سے افسروں کی ڈرافٹنگ کا شہرہ جعفری صاحب کے قلم کی تراوش تھا۔ ذاتی کاوش سے تھوڑی سی فرانسیسی بھی اٹھا لی تھی۔ پنجابی اور سرائیکی کا ذکر تو تحصیل حاصل کا مضمون ہو گا۔ مطالعے کے موضوعات وسیع تھے۔ والدین بدایوں کی مٹی تھے۔ ایک روز بدایوں کا ذکر تھا۔ خاکسار نے بھانپ لیا کہ اب حسب معمول بدایوں کی آڑ میں اس ہیچ مداں کے وطن مالوف گوجرانوالہ پر ناوک اندازی کی مشق ہو گی۔ میں نے طرح دے کر ملّا عبدالقادر بدایونی کا معروف مصرع پڑھا
اے صبا از من بگو اہل بدوّن را سلام
کھل اٹھے۔ گوجرانوالہ کا ذکر موقوف ہو گیا اور بات تصوف سے ہوتی ہوئی موسیقی کے گھرانوں کی طرف نکل گئی۔ علی افتخار نے ذکاوت کی حدوں کو چھوتی ہوئی ذہانت پائی تھی، ترشے ہوئے ناک نقشے کی کشش کو نفاست طبع سے مہمیز کیا تھا۔ خوش لباس تھے مگر نمائش کی سطحیت نہیں تھی۔ احساس کی شدت اور فکر کی گہرائی پر زندہ دلی کا پردہ ڈال رکھا تھا۔ دوستوں کی دل آسائی کے لئے محفل آرائی کو بہانہ کیا تھا۔ گلدستہ احباب کی بندش کی گیاہ تھے مگر دوستوں کے انتخاب میں بھی وہی پیمانہ تھا جو شعر کے لئے روا رکھا تھا۔ بے تہہ اور کم سواد شخص کی موجودگی میں اپنے خول میں سمٹ جاتے تھے۔ پنجاب کے ایک بنجر قدیم ناممکن قصبے میں کسی برخود غلط سیاستدان نے سواری کرنا چاہی۔ یہاں ایسے تملق کو دخل ہی نہیں تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے بال و پر کاٹ دیئے۔ بڑی خوشدلی سے ابتلا کے دن کاٹے۔ ایک ٹی وی چینل پر ادبی پروگرام شروع کر دیا۔ خدوخال میں کاٹ تھی اور لہجے میں استقلال۔ گفتگو کے بادشاہ تھے۔ ہنستے کھیلتے مشکل وقت کٹ گیا۔ عزت کے ساتھ واپسی ہوئی۔
پولیس کے محکمے میں نیک نام ہونا سنگلاخ زمیں میں شعر کہنا ہے ۔ علی افتخار میں فرض شناسی، معاملہ فہمی اور حسن انتظام کا ایسا جوہر تھا کہ یہ اعزاز بھی ان کے ہاتھ رہا۔ قابلیت کا یہ معیار کہ چند برس قبل دوران ملازمت تربیت کے لئے پولیس اکیڈمی پہنچے تو ساٹھ سالہ ریکارڈ توڑ ڈالا۔ تھانہ ثقافت کے شناور تھے اور طبعاً اس سے نفور کرتے تھے۔ ٹریفک پولیس کے ریڈیو ’راستہ‘ کی نیو رکھی ۔ ٹریفک لائسنس کے شعبے میں بھیجا گیا تو پولیس کے سربراہ نے فخر سے کہا کہ لائسنس لینے کے لئے رشوت دینے کی ضرورت نہیں رہی۔ ہم نے علی افتخار کو وہاں تعینات کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی امن فورس میں میعادی خدمت کے لئے سوڈان گئے تو ان کی کارکردگی کے چرچے دور دور تک پہنچے۔ ابھی علی افتخار کی مفارقت کا زخم ایسا ہرا ہے کہ ان پر مرتب بات کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس شخص اور شاعر پر بہت بات ہو گی۔ وہ اپنے کلام میں اس کا اہتمام کر کے رخصت ہوا ہے۔ ابھی ان کے اشعار کا ایک مختصر سا انتخاب دیکھ لیجئے۔ خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ دوست نوازی کی جھونک میں مبالغہ کیا ہے یا اس دعوے میں کوئی وزن ہے۔
میں اپنے جسم سے باہر نکلنے والا ہوں
یہ موت ہے کہ محبت، مجھے نہیں معلوم

اب کسی اور خرابے میں صدا دے گا فقیر
یاں تو آواز لگانا میرا بے کار گیا

اوّلیں چال سے آگے نہیں سوچا میں نے
زیست شطرنج کی بازی تھی سو میں ہار گیا

یہ جو مٹی تن باقی کی لئے پھرتا ہوں
چھوڑ جائوں گا کہیں یہ بھی خزانہ سرِ راہ

حد سے حد یہ ہے کہ مٹی میں ملا دے گا مجھے
اور رکھا ہے زمانے کی کرامات میں کیا

میں تیری جنت موعود کی ہوس میں ، عبث
ہوائے لذت جاں خاک میں ملائے رہا

اٹھنے والے ہیں صف اہل ہنر سے ہم لوگ
دہر میں کاوشِ کم مایہ ہنر ہونے کو ہے

آگہی دائو پہ ہے، اب مجھے پر کھولنے دے
تجھ پہ جبریل کے شہپر کی حقیقت تو کھلے

سروں پہ ڈال رہے ہیں دیار خواب کی خاک
زمیں سے اپنی محبت عجیب ہے کہ نہیں

تم اگر شہر قبا پوش میں عریانی کو
باعث ننگ سمجھتے تو نہ مارے جاتے

اپنے ساماں میں تصاویر بتاں ہیں نہ خطوط
کچھ لکیریں ہیں ، کف دست ہے ، پیشانی ہے

ہو خجالت نہ کسی کو سر ویرانۂ طور
آگ اپنی بھی لئے جاتے ہیں سامان کے بیچ

عمر گزر گئی مگر رات بسر نہیں ہوئی
حالانکہ تجھ سا معجزہ شامل حال بھی رہا

کاش رکھتے وہ مری بے پروبالی کی خبر
آسماں کو تہ ِ منقار سمجھنے والے

بنانے والے، ترے موسموں کی خیر نہیں
بکھرنے والے بہاراں پہ خاک ڈالتے ہیں

اٹھ گئے ارض ہنر سے ترے عشووں کے اسیر
اے سخن اب ترے پیچاک کسے ڈھونڈتے ہیں
تازہ ترین