• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی بمباری سے سیکڑوں نہیں، ہزاروں فلسطینی شہری روزانہ کی بنیاد پر مارے جار ہے ہیں اور ان کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ مگر پوری دنیا اسرائیل کو اس جارحیت سے روکنے میں ناکام اور بے بس ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ بنیادی سوال ہے، جس کا جواب وسیع تر تاریخی اور موجودہ عالمی تناظر میں حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔

دنیا کو یاد ہو گا کہ ’’ ایڈورڈ سنوڈن ‘‘ نامی ایک امریکی نوجوان نے 2013ء میں کچھ اہم خفیہ دستاویزات افشا ( Leak ) کی تھیں۔ ان دستاویزات سے انکشاف ہوا تھا کہ پوری دنیا کو کنٹرول کرنےکیلئے ایک ایسے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے ، جسے ’’ گلوبل سرویلنس پروگرام ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ اسے اردو میں عالمی نگرانی کا پروگرام کہا جا سکتا ہے ۔ ایڈورڈ سنوڈن امریکی سی آئی اے اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی ( این ایس اے ) میں کمپیوٹر انٹیلی جنس کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرتا تھا اور اس نے این ایس اے کی خفیہ دستاویزات کچھ صحافیوں کو دیں اور ان دستاویزات کی بنیاد پر ’’ دی گارجین ‘‘ اور ’’ واشنگٹن پوسٹ ‘‘ جیسے اخبارات میں شائع ہونے والی اسٹوریز نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ۔ ان دستاویزات کے مطابق اس پروگرام پر پانچ ممالک امریکا ، برطانیہ ، کینیڈا ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی انٹیلی جنس ایجنسیز (جنہیں فائیو آئیز ( Five Eyes ) کا نام بھی دیا جاتا ہے ) اور دنیا کی بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے اشتراک سے عمل درآمد کیا جاتا ہے ۔ ان دستاویزات سے ہی پتہ چلا کہ روئے زمین پر ہر شخص کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جا رہی ہے اور دنیا کے تمام معاملات کو چلانےکیلئے ایک میکنزم تیار کر لیا گیا ہے۔

ان دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد دنیا میں نیشنل سیکورٹی کو درپیش خطرات اور فرد کی پرائیویسی ختم ہونے کے بارے میں بحث چھڑ گئی لیکن یہ پروگرام اس بحث سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے ۔ ایک امریکی دانشور ڈاکٹر کیون بیرٹ نے اس پروگرام کی جو وضاحت کی ہے ، وہ اس پروگرام کے اصل مقاصد اور اہداف کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس پروگرام کا مقصد ’’ گلوبل سرویلنس اسٹیٹ ‘‘ یعنی عالمی نگرانی والی ریاست کا قیام ہے تاکہ ایسی صلاحیت حاصل کر لی جائے کہ دنیا کے ہر شخص کو اس کے بارے میں معلومات کے حوالے سے بلیک میل کیا جا سکے اور اپنے خلاف ہونے سے روکا جا سکے ۔ فرد اپنی پرائیویسی پر کمپرومائز کرکے اپنی پرائیویسی کا تحفظ کر سکے گا ۔ افراد پر ذہنی کنٹرول حاصل کرکے ہر ملک کا اپنی مرضی کا سیاسی ڈھانچہ بنایا جا سکے گا اور ہر ملک کی نیشنل سیکورٹی اس گلوبل سرویلنس اسٹیٹ کے مفادات کے تابع ہو گی ۔ ہر ایک کی نگرانی کی بنیاد پر جب عالمی آمریت قائم ہوگی تو اعلان کر دیا جائے گا کہ اب مزاحمت بے کار ہے۔

غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر دنیا کی خاموشی اور بے بسی اس گلوبل سرویلنس پروگرام کے اثرات کا نتیجہ ہو سکتی ہے ۔ بے گناہ شہریوں کے قتل عام پر کوئی مزاحمت نہیں ہے ۔ امریکا اور اس کے حواری اسرائیل کی سرپرستی کر رہے ہیں اور اسے مزید ہتھیار دینے کیلئے سارے وسائل خرچ کر رہے ہیں اور ایک ایسی جنگ کو بھڑکا رہے ہیں ، جس میں کوئی دوسرا فریق نہیں ہے ۔ فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کا مقابلہ ہی نہیں ہے ۔ بعض حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حماس نے اسرائیل پر پہلے جو حملہ کیا ہے ، اس میں حماس ٹریپ ہوئی ہے ۔ مسلم ریاستیں خصوصاً عرب ریاستیں اس نام نہاد ’’ جنگ ‘‘ کو روکنے کیلئے نہ تو مزاحمت کر رہی ہیں اور نہ ہی وہ سفارت کاری کر رہی ہیں ، جو انہیں کرنی چاہئے تھی ۔ وہ ’’ مسلم کارڈ ‘ بھی استعمال کرنے کے قابل نہیں رہیں۔

مذہبی انتہا پسندی کی آڑ میں مقبول ہونے والے ترکیہ کے لیڈر طیب اردگان کا عالم اسلام کا لیڈر بننے کا بخار بھی اتر گیا ہے ۔ ان ممالک کو یہ خوف بھی نہیں ہے کہ یہ سلسلہ غزہ یا فلسطین تک نہیں رہے گا بلکہ آگے بڑھ سکتا ہے ۔ یہ جنگ امریکا اور اس کے عالمی سامراجی اتحادیوں کے علاقائی اور عالمی منصوبے کا ایک حصہ ہے ۔ ڈاکٹر کیون بیرٹ کی یہ بات درست ثابت ہو رہی ہے کہ افراد کو کنٹرول کرکے ملکوں کے سیاسی نظام اور قومی سلامتی کے ایسے ڈھانچے بنائے جائیں گے، جنکےمعاملات ان سامراجی طاقتوںکے کنٹرول میں ہوں گے۔

روس، چین، ایران اور دنیا کے کئی دیگر ممالک اس گلوبل سرویلنس پروگرام سے نکلنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اپنے پروگرام مرتب کر رہے ہیں اور فائیو آئیز اور بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں پر انحصار کم کر رہے ہیں ۔ انہوں نے نہ صرف سوشل میڈیا سائٹس پر پابندی لگا رکھی ہے بلکہ اپنی سائٹس بھی بنائی ہیں تاکہ اپنے کلچر ، اپنی قومی سوچ اور اپنے سیاسی اور تاریخی دھاروں کا تحفظ کر سکیں اور نوجوان نسل کو اس گمراہی سے بچا سکیں ، جسے عالمی سامراجی میڈیا نوجوانوں کے ’’ انقلابی شعور ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے ۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے ، جہاں اس طرح کی کوئی کوششیں نہیں ہو رہیں اور یہ تمام سیاسی اور دیگر معاملات چلانے کیلئے اپنا کوئی میکنزم اپنا نہیں رہا ہے ۔ غزہ کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہمیں سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین