• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنگلہ دیش میں " عام انتخابات " سات جنوری کو منعقد ہو رہے ہیں اور ان انتخابات کے نتائج بھی وہ ہی جاری کئے جاینگے جو اس سے قبل شیخ حسینہ واجد کی وزارت عظمیٰ کے تحت منعقد کئے گئے انتخابات کے جاری کئے جاتے رہے ہیں ۔ ان انتخابات میں وہ کیسے کامیاب ہوتی رہی ہیں اس کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کو دکھاتا چلوں کہ جب 2014 میں شیخ حسینہ واجد نے انتخابات کا ڈرامہ کیا تو اس میں کل 300 نشستوں میں سے153نشستوں پر امید وار بلا مقابلہ ہی کامیاب ہوگئے جبکہ باقی 147 نشستوں میں سے بھی دس سے کم نشستوں پر کسی دیگر کی کامیابی کا اعلان کیا گیا ۔ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ یہ آمرانہ رویہ شیخ حسینہ واجد تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کے والد شیخ مجیب الرحمن کی سیاسی فکر کااس میں مکمل رنگ ڈھنگ نظر آتا ہے۔ شیخ مجیب جب سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بنگلہ دیش کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے تو انہوں نے اقتدار تاحیات برقرار رکھنے کیلئے اسی نوعیت کے اقدامات کرنا شروع کردئیے تھے اور جس کسی نے بھی ان کی مخالفت کی ، انہوں نے پھر اس کی پروانہیں کی کہ ماضی میں وہ انکے خیالات کا کتنا حامی تھا ، میجر جلیل اور سراج شیکدار کے ساتھ روا رکھا جانیوالا سلوک انکے اس رویے کی بھرپور عکاسی کرتا تھا بلکہ سراج شیکدار کے قتل کے بعد تو انہوں نے بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بڑے تکبر سے کہا تھا کہ سراج شیکدار اب کہاں ہے ؟ انہوں نے یک جماعتی نظام حکومت قائم کرتے ہوئے " بکسال" کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی ، بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ اور اسکے علاوہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی اور قوم کو نعرہ دیا " ایک نیتا ایک دیش، شیخ مجیب بنگلہ دیش " اب جس کسی نے بھی انتخابات میں حصہ لینا تھا ،سیاست کرنا تھی بس شیخ مجیب کی قیادت کو تسلیم کرکے کرناتھی ۔ ظاہر سی بات ہے کہ رائے عامہ نےاس آمرانہ رویے کیخلاف ہونا ہی تھا اور اس ناراضی کو ظاہر کرنیوالا سب سے بڑا ہتھیار اس وقت ماسوائے اخبارات کے اور کوئی نہیں تھا، شیخ مجیب نے تمام اخبارات پر پابندی عائد کر دی حالانکہ انیس سو پچھتر میں کیے گئے انکے اس اقدام سے قبل انکی حکومت بار بار یہ اعلان کر چکی تھی کہ وہ پریس کی آزادی کو منہدم نہیں کرےگی جب انہوں نے بکسال بھی قائم کرلی اور اپنے سوا سب کو غیر قانونی قرار دے دیا، پریس کا بھی گلا گھونٹ دیا تو تب بھی انکی تسلی نہ ہو ئی اور انہوں نے کرسی کو مضبوط کرنے کی غرض سے یہ فیصلہ کیاکہ ان کو تاحیات صدر قرار دے دیا جائے، اگست 1975 میں وہ اپنے سر پر یہ تاج سجانے کیلئے اپنی دانست میں تمام ضروری اقدامات کر چکے تھے اور اتنے بے فکر تھے کہ اپنے قتل کی رات کو جب ڈھاکہ میں ٹینک داخل ہوئے اور ان کو فون پر اطلاع دی گئی کہ غیر معمولی فوجی سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ میری حفاظت کیلئے آ رہے ہیں ۔ بہر حال آمریت جب ہر دروازہ بند کر دیتی ہے تو پھر آمر کسی بھی انجام سے دوچار ہو سکتا ہے اور شیخ مجیب اس انجام کا شکار ہو گئے۔ تاحیات آمریت کے مسلط کرنے کی اسی خواہش اور روش پر شیخ حسینہ بھی اپنے والد کی مانند گامزن ہیں ۔ بنگلہ دیش میں انتخابات کے انعقاد کیلئے نگران حکومت کے قیام کا قانون تھا جس میں یکطرفہ فیصلے کرنے کی صلاحیت موجود تھی اور اس صلاحیت سے ڈر کر ہی شیخ حسینہ واجد نے دو ہزار گیارہ میں نگران حکومت کا قانون ختم کرتے ہوئے حکومت کے تسلسل کا قانون نافذ کیا اور پھر اسکے بعد انتخابات چاہے 2014 کے ہوں یا 2018 کے بنگلہ دیش میں ایک ہی طریقہ کار اختیارکرکے نتائج حاصل کئے گئے، وہ اپنے والد کی مانند بکسال تو قائم نہیں کرسکیں مگر انتخابی نتائج میں300میں سے صرف 7نشستوں پر اپنے مخالفین کی کامیابی کا اعلان کرنے دیا اور عملی طور پر یک جماعتی نظام حکومت قائم کردیا ، بکسال وجود پا گئی ۔ اور اب سات جنوری دو ہزار چوبیس کو وہ اسی نوعیت کی انتخابی کامیابی حاصل کرنے کا اعلان کر دیں گی۔ اس سارے عمل میں ان کو انڈیا کی غیر معمولی مدد حاصل رہی سابق بھارتی صدر پرناب مکھر جی نے اپنے عہد وزارت خارجہ کا ایک واقعہ اپنی کتاب کولیشن ایئرز میں رقم کیا ہے کہ انہوں نے حسینہ واجد کی جانب سے بنگلہ دیشی آرمی چیف کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ حسینہ واجد کو اقتدار میں آنے دے تو حسینہ واجد آپ کو آرمی چیف کے عہدے سے بر طرف نہیں کریں گی، اس ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیشی معاملات میں انڈیا کا اثر و رسوخ کس حد تک ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ تاحیات آمریت کی خواہش رکھنے والے خود تو ڈوبتے ہی ہیں ساتھ میں اپنی قوم کی لٹیا بھی ڈبو دیتے ہیں۔

تازہ ترین