• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوگ کہتے ہیں کہ ادارے مضبوط ہوں تو افراد کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا، ترقی یافتہ و مہذب اقوام میں تو شاید زیادہ فرق نہ پڑتا ہو لیکن ہمارے جیسے ممالک میں افراد کے آنے جانے سے بہت فرق پڑتا ہے۔ ہماری یہ خوش بختی ہی کہی جائے گی کہ آج ہماری سپریم جوڈیشری کی سر براہی پر وہ شخصیت فائز ہے، قدرت نے جسے انسانیت، اصول پسندی اور اعلیٰ ظرفی سے مالا مال کر رکھا ہے جس میں نہ صرف یہ کہ جیو رس پروڈینس کی باریکیوں کو پرکھنے کی صلاحیت ہے بلکہ ان کے عملی انطباق کی بھی سوجھ بوجھ ہے ۔ ہم بلاشبہ بھنورمیں ڈوبنے جا رہے تھے کہ قاضی القضا ۃ ہمارا سہار ا بن کر آگئے ورنہ ماقبل چیف ججز کی ایک لائن ہے سمجھ نہیں آتی کہ بربادی کا بڑا سرٹیفکیٹ کس ”جانثار“ کو پیش کیا جائے۔ ‎?طاقتوروں کی خوشنودی یا ذاتی منفعت کیلئے آئین و قانون کے ساتھ کیا کیا کھلواڑ نہیں کیے گئے۔ صرف ایک قومی سیاستدان کو نیچا دکھانے اور عوامی مینڈیٹ کی طاقت کو مٹانے کیلئے قانون کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ سنگین غداری اور قتل جیسے گھناؤنے جرائم پر بھی سزا مکمل ہونے کے پانچ سال بعد کوئی بھی شخص الیکشن لڑسکتا ہے۔ سپریم جوڈیشری نے پاناماکیس کے پہلے مرحلے میں جو فیصلہ دیا تھا دوسرے مرحلے میں بغیر وجہ بتائے اسے تبدیل کردیا گیا آج فاضل ججز یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ جب آئین میں دیگر بڑے جرائم میں سزاؤں کی مدت کا تعین ہے تو نااہلی کی سزا تاحیات کس اصول کی بنیاد پر ہوسکتی ہے؟کیا تماشا ہوا کہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت تاحیات مقرر کرنے والے جج کے سامنے جب ٹھیک اسی نوعیت کا دوسرا کیس فیصل واوڈا کیلئے آیا تو انصاف کا دوہرا معیار قابل ِملاحظہ ہے، تب کہا کہ محض اتنی سی بات پر تاحیات نااہلی تو صریح ظلم ہے ۔بندہ پوچھے کہ یہی ظلم نواز شریف اور جہانگیر ترین پرکیوں ہوا تھا ‎؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب سوال اٹھاتے ہیں کہ 73ء کے آئین میں موجود آرٹیکل 62،63میں یہ ضمنی شقیں کس نے اور کیوں ڈالی تھیں؟ جواب ملا کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے صدارتی آرڈینس مجریہ 1985کے تحت یہ شقیں آئین میں ڈالیں اور مارشل لائی ڈنڈے سے انہیں منوایا تھا، اس پر قاضی صاحب نے سوال اٹھایا کہ ا س فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا اپنا کردار کتنا اچھا تھا؟‎

درویش یہاں یہ اضافہ کرنا چاہے گا کہ قرآنی آیات پڑھتے ہوئے جس شخص نے 90دن میں انتخابات کروانے کا پوری قوم سے عہد کیا اور پھر گیارہ برس سے بھی زائد اس قوم پر مسلط رہا یہاں و ہ بھی صاد ق و امین ہی نہیں مرد مومن مرد حق کہلایا‎ ۔منصف صاحب کی یہ آبزرویشن قابل فہم ہونی چاہیے کہ کسی بھی شخص کو اسلامی تعلیمات سے نا واقفیت یا کسی بھی نوع کے ایسے غیر اسلامی فعل کی انجام دہی پر کس طرح تاحیات نااہلی کی سزا سنائی جاسکتی ہے؟ کوئی بھی شخص چاہے کتنا بھی گناہ گار ہو خدا نے اس کیلئے توبہ و مغفرت کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند تو نہیں کردیا۔‎ جسٹس منصور صاحب کے الفاظ میں کوئی بھی ان تعلیمات سے ناواقف شخص محنت‎ کرکے پانچ برس بعد عالم بن سکتا ہے تو تاحیات سزا کیسے دی جاسکتی ہے؟قاضی صاحب کا یہ استدلال بھی تھا کہ امیدوار کیلئے 2002میں اہلیت کی شرط گریجویشن رکھی گئی تھی ایسی حالت میں اگرجناح صاحب بھی امیدوار بنتےتو نااہل ہو جاتے، سوال یہ ہے کہ اچھے اخلاق کا تعین کیسے ہوگا اور یہ بھی کہ ٹرائل کے بغیر سپریم جوڈیشری ایسا ڈیکلریشن کیسے دے سکتی ہے؟‎?درویش کی رائے میں تو ایسی مبہم شقیں جو ناقابل عمل بھی ہوں اور جن کا منفی ذہنیت والے غلط استعمال بھی کرسکتے ہوں انہیں کتاب آئین سے تحلیل کیا جانا ہی قرین انصاف ہے اور یہ فریضہ منتخب پارلیمنٹ کو اداکرنا چاہیے۔‎?اس وقت جب پارلیمنٹ کی طرف سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آچکا ہے اور ہمارے الیکشن کمیشن میں باضابطہ الیکشن ایکٹ بن چکا ہے، فاضل قانون دان ثاقب جیلانی صاحب کا یہ استدلال درست ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 232کے مطابق تاحیات نااہلی کو ختم کرتے ہوئے پانچ سالہ مدت کا تعین بھی ہوچکا ہے اور جسے کہیں چیلنج بھی نہیں کیا گیا؟ چیف جسٹس کے استفسار پرکہ کیا چاروں صوبائی حکومتوں میں سے کسی نے اسے چیلنج کیا ہے؟ تو انہیں چاروں صوبائی ایڈووکیٹس جنرلز نےمشترکہ طور پر بتایا کہ تمام صوبائی حکومتیں بھی اسے سپورٹ کرتی ہیں اور سپریم کورٹ خود فیصل واوڈا کیس میں اپنے پہلے فیصلے کو کارنر کرتے ہوئے برعکس فیصلہ دے چکی ہے تو اب اس حوالے سے کوئی نکتہ نہیں بچا جو اس ظالمانہ ذہنیت کو سپورٹ کرتا ہو لہٰذا 4جنوری کے فیصلے میں کوئی الجھاؤ نہیں دِکھتا دیگر مقدمات کا جائزہ اگلے کالم میں۔

تازہ ترین