• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طالبان کمیٹی کے ارکان نے جنوبی وزیرستان سے پشاور واپسی پر طالبان کی سیاسی شوریٰ سے بات چیت کی تفصیلات تو نہیں بتائیں لیکن جو چند مختصر اشارے دیئے ہیں انہیں کشیدگی اور بداعتمادی کے موجودہ ماحول میں حکومت طالبان مذاکرات کے حوالے سے امیدافزا قرار دیا جا سکتا ہے۔ طالبان نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہی ہوں گے جو ان کے سابقہ موقف اور طرزفکر میں ایک اہم تبدیلی ہے۔ کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے ان کے سامنے جو نکات رکھے تھے طالبان شوریٰ کو ان سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور اس کا جواب مثبت ہے، تاہم انہوں نے حکومت سے چند وضاحتیں طلب کی ہیں۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ حکومتی اورطالبان کمیٹیوں کی ا ٓئندہ ملاقات میں دونوں طرف سے سیزفائر کا فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے جس پر فوری طور پر عملدرآمد ہوگا۔ طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے درحقیقت گزشتہ پندرہ روز سے تشدد کی کارروائیاں بند کررکھی ہیں۔ اس دوران دہشت گردی کے جو واقعا ت رونما ہوئے ان سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ سکیورٹی فورسز نے بھی طالبان کے خلاف کارروائیاں بند کردی ہیں۔ یہ دس سالہ بدامنی ختم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے جس میں استحکام اس وقت آئے گا جب حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بامقصد اوربامعنی مذاکرات میں جامع شرائط کے تحت اس کی توثیق کی جائے گی۔ میڈیا میں طالبان کی جانب سے قیام امن کے لئے جن 15شرائط کا ذکر کیا جارہا تھا، طالبان کمیٹی کے ارکان نے ان کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ طالبان نے مذاکرات کے لئے کوئی پیشگی شرائط پیش نہیں کیں۔ اس حوالے سے طالبان کے ترجمان کا وہ بیان معنی خیز ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ حکومت ایسی شرائط عائد کرنے سے گریز کرے جن سے مذاکراتی عمل متاثر ہوسکتا ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ فریقین کو دوران مذاکرات تلخیوں پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہ ایک مثبت سوچ ہے اور مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے دونوں فریقوں کو اس پر عمل کرنا ہوگا۔ طالبان نے اگرچہ اب تک اعلانیہ کسی شرط کا اظہار نہیں کیا مگر وزیرستان سے فوج کے انخلا، طالبان قیدیوں کی رہائی اور نقصانات کے ازالے کیلئے جو باتیں ان سے منسوب کی جا رہی ہیں وہ مذاکرات کی رفتار پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح حکومت سے بھی طالبان سے پیشگی ہتھیار ڈالنے جیسی باتیں منسوب ہوتی رہیں۔ ایسے نازک معاملات پر مذاکرات کی میز پر ہی بات ہو تو زیادہ مناسب ہے۔ اب جبکہ مذاکراتی عمل نہایت حساس مرحلے میں داخل ہوچکا ہے تو تمام اختلافی امور مذاکرات کی میز تک ہی محدود کردینے چاہئیں۔ طالبان شوریٰ نے اپنی کمیٹی کو ابتدائی مطالبات پیش کردیئے ہیں جن پر حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں غوروخوض ہوگا۔ طالبان کمیٹی کے ارکان مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم دونوں پرامید ہیں اور انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ وہ طالبان اور حکومت کے مابین اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ قوم کو خوشخبری ملے گی اور دس سالہ بدامنی جلد ختم ہوجائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دونوں جانب سے مثبت اشارے ملے ہیں اور دونوں امن کیلئے مخلص ہیں تاہم کچھ عناصر مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں جن پر نظر رکھنا ہوگی۔ اس حوالے سے وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ وزیرستان طالبان کا گڑھ ہے۔ اگر حملوں میں ان کا ہاتھ نہیں تو پھر یہ تیسری قوت کون ہے جو مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتی ہے اور ان کی نظر سے پوشیدہ ہے؟ طالبان کو خود بھی اس کی نشاندہی کرنا ہوگی تاکہ ان کی طرف اٹھنے والی انگلیوں کا رخ حقیقی دشمن کی طرف مڑ سکے اور اس کا پیچھا کیا جاسکے۔ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ حکومت تخریب کاری کی اشتعال انگیز کارروائیوں کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرانے سے گریز کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کو سنجیدگی سے آگے بڑھا رہی ہے عوام اس عمل کی کامیابی کے منتظر ہیں تاکہ ملک امن و استحکام کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ سیاسی و عسکری قیادت اور طالبان سمیت ملک کے تمام بہی خواہوں کو اس عمل میں اپنا دانشمندانہ اور فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہئے۔

عدلیہ کے اختیارات کم نہ کئے جائیں
پچھلے چند برسوں میں پاکستانی قوم کی سب سے بڑی کامیابی عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری ہے۔ ملک میں جمہوریت کا تسلسل، جمہوری روایات کا استحکام اور آئین و قانون کی بالادستی اسی کا حاصل ہے۔ اس منزل کے حصول کے لئے ملک بھر کے لوگوں نے تاریخ ساز جدوجہد کی جس نے حکمرانوں کو عدلیہ کی آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد سے انتظامیہ کے من مانے اقدامات، آئین و قانون کی خلاف ورزیوں اور کرپشن وغیرہ کی روک تھام کے لئے عدلیہ اپنا کردار ماضی کے مقابلے میں زیادہ نتیجہ خیز طور پر ادا کررہی ہے۔ عدلیہ کا یہ کردار بتدریج ملک کے پورے نظام کی اصلاح کا ضامن ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اسے کسی مداخلت کے بغیر جاری رہنے دیا جائے۔ لیکن حکمراں طبقات میں اپنے فیصلوں کو کسی روک ٹوک کے بغیر نافذ کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر قدغنیں عائد کرنے کی زبردست خواہش پائی جاتی ہے جس کا اظہار پچھلے دور میں بھی ہوا اور آج بھی ہورہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ججوں کے انتخاب کے لئے قائم جوڈیشل کمیشن کے اختیارات کم کرکے پارلیمانی کمیٹی کو فیصلہ کن کردار دینے کے لئے قانون سازی زیرغور ہے۔ اس سوچ کا مقصد اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ بے باک اور جرأت مند شخصیات کا راستہ روک کر عدالتوں میں ایسے جج تعینات کیے جائیں جو حکمرانوں کی من مانیوں کی راہ میں حائل نہ ہوں اور حکومتیں آئین وقانون کو نظر انداز کرکے اپنے مرضی کے اقدامات کسی رکاوٹ ، گرفت اور احتساب کے بغیر کرنے میں آزاد ہوجائیں۔ عدلیہ کی آزدی کی تحریک میں مسلم لیگ (ن) کے قائد کی حیثیت سے وزیراعظم نواز شریف نے فیصلہ کن کردارا دا کیا تھا۔ اب اگر ان کے دور حکومت میں عدلیہ کے پر کاٹنے کی کوشش کی گئی تو پوری قوم کی جانب سے بھرپور مزاحمت کی بناء پر یہ کوشش تو ہرگز کامیاب نہیں ہوسکے گی لیکن عدلیہ کی آزادی میں میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کا تاریخ ساز کردار ضرور گہنا جائے گا۔ یہ سراسر خسارے کا سودا ہوگا لہٰذا اس سے مکمل اجتناب ہی بہتر ہے۔

کرکٹ بورڈ میں تبدیلی
وزیراعظم محمد نواز شریف نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف کی حیثیت سے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کو برطرف اور اس کی گورننگ باڈی کو تحلیل کر دیا ہے اور کرکٹ بورڈ کے معاملات کو چلانے کے لئے 8رکنی عبوری کابینہ تشکیل دے دی ہے جس نے نجم سیٹھی کو اپنا نیا چیئرمین منتخب کر دیا ہے اور وزیراعظم کی جانب سے یہ فیصلہ بگ تھری کے معاملے میں پاکستان کے موقف کو درست طریقے سے پیش نہ کر کے وطن عزیز کو دنیا بھر میں تنہا کرنے، سابق چیئرمین کی طرف سے مبینہ طور پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے اور عمومی بدانتظامی کو پیش نظر رکھ کر کیا ہے۔ برطرف چیئرمین ذکا اشرف نے اس اقدام کو جمہوری حکومت کے غیر جمہوری فیصلے سے تعبیر کیا ہے ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں نے بھی اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ذکاء اشرف کو 8ماہ کے دوران دوسری مرتبہ چیئرمین پی سی بی کے منصب سے برطرف کرنا نظر بظاہر عجیب لگتا ہے گزشتہ مئی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک رکنی بنچ نے ان کی تقرری کے خلاف ایک پٹیشن کو درست قرار دیتے ہوئے برطرفی کا حکومتی فیصلہ برقرار رکھا تھا لیکن پھر صرف 25دن کے وقفے کے بعد اسی عدالت کے ایک دوسرے بنچ نے پہلے بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ان کو اپنے منصب پر بحال کر دیا تھا۔ اب ان کو وزیراعظم کی ہدایت پر پھر عہدہ سے الگ کر دیا گیا ہےاس فیصلے کے پس پردہ محرکات کے بارے میں حکومتی موقف اوپر بیان کیا جا چکا ہے تاہم سابق چیئرمین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پی سی بی کے معاملات میں مداخلت اتنی بڑھ گئی ہے اور آئی سی سی کے ضوابط کا اس طرح تمسخر اڑایا جا رہا ہے کہ اب اس عالمی ادارہ کے پاس اس فیصلے کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے کا جواز موجود ہے لیکن بعض غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ پی سی بی کے معاملات کے بگاڑ اور پاکستان کے وقار کو پہنچنے والے نقصان کے پس منظر میںاس نوع کا کوئی قدم بہت پہلے اٹھا لیا جانا چاہئے تھا۔
تازہ ترین