مولانا حافظ عبدالرحمٰن سلفی
بلاشبہ،امام الانبیاء ،سیدالمرسلین، خاتم النبیین، سرورکونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے تمام صحابۂ کرامؓ ہی ہمارے سروں کے تاج ہیں، لیکن جو اعزاز اور سر بلندی سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے نصیب میں آئی، وہ کسی اور کے حصّے میں نہ آسکی۔ پیدائش کے وقت والدین نے آپ کانام عبدالکعبہ ”کعبہ کا بندہ“ رکھا، مگر اسلام قبول کرلینے کے بعد نبی کریم ﷺ نے آپ کا نام بدل کر عبداللہ ”اللہ کا بندہ“ کردیا، ابوبکر آپؓ کی کنیت ،صدیق اورعتیق لقب تھے۔ آپؓ زیادہ تر اپنی کنیت اور لقب صدیق سے مشہور ہوئے ۔ ایمان کی دولت سے سر فراز ہونے کے بعد اپنا مال ودولت، اسلام کی اشاعت اور مظلوم مسلمان غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کرتے رہے۔
اسلام کے پہلے مؤذّن سیدنا بلالؓ کو بھی حضرت صدیق اکبرؓ ہی نے اُن کے ظالم آقا اُمیہ سے خرید کر آزاد کیا تھا۔ ہجرتِ مدینہ کے سفر میں صدیق اکبر ؓ ہی حضور کریم ﷺ کے رفیق سفر تھے، دورانِ سفر کئی بار ایسے جذبہ محبت والفت کے مظاہر سامنے آئے کہ جن کی مثال مشکل ہے، پھر غارِثور میں نبی کریم ﷺ کی خاطر داری کا اعزاز بھی نصیب ہوا، غار کے اندر تمام سوراخ بند کرنے کے بعد جب ایک سوراخ بند نہ ہوسکا اورنبی کریمﷺ آپ ؓ کے زانو پر سرِاقدس رکھ کر سوگئے تو کیڑے مکوڑے اور سانپ بچھو سے حفاظت کے لیے اُس ایک سوراخ پر صدیق اکبرؓ نے اپنی ایڑی رکھ دی، اُس میں ایک سانپ تھا جس نے انہیں ڈس لیا، شدتِ تکلیف کے باوجود پہلو نہ بدلا کہ آپﷺ بے آرام نہ ہو جائیں، مگر آنسوؤں کے چندقطرے بے اختیار نکل کرنبی کریم ﷺ کے چہرۂ مبارک پر جاگرے، جس سے آپ ﷺ جاگ گئے،وجہ پوچھی اور پھر آپ ﷺ نے اپنا لعابِ دہن آپ کے پیر کے زخم پر لگایا جس سے اسی وقت تکلیف کافور ہوگئی۔
حضرت ابوبکرؓ کی صحابیت اورشرف کی گواہی قرآن کریم نے دی ہے کہ جب وہ دونوں غار میں تھے۔ آیت صاف بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ صدیق اپنے لیے خوف زدہ نہ تھے، بلکہ نبی ﷺکے حوالے سے بے چین تھے کہ کہیں دشمن آپ ﷺ کو نقصان نہ پہنچادیں۔
مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے دو یتیم بچوں سے خریدی گئی زمین کی قیمت بھی حضرت ابوبکرؓصدیق نے ادا کی۔ اس طرح قیامت تک مسجد نبوی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے لیے صدقۂ جاریہ کاباعث بنی رہے گی۔سماجی اور رفاہی خدمات کے ساتھ ساتھ دیگر دینی و مذہبی سرگرمیوں میں بھی حضرت ابوبکرؓ پیش پیش تھے، غزوۂ بدر ہو یااُحد ، خیبر ہو یا دیگر معرکے، آپ نبی کریمﷺ کے ساتھ ساتھ تھے۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر ؓ اپناسارا مال ومتاع لے کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے، جب نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے ؟ تو عرض کیا، اُن کے لیے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کا نام چھوڑ آیا ہوں ، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا یہ ایثار دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ آپ سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔
نبی کریم ﷺکے وصال کے بعد جب صدیق اکبرؓ کی خلافت پر مسلمان جمع ہوئے اور بیعت عام ہوئی تو اس کے بعدصدیق اکبرؓنے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا کہ لوگو، اللہ کی قسم، نہ میں کبھی امارت کا خواہاں تھا، نہ اس کی طرف مجھے رغبت تھی اور نہ کبھی میں نے خفیہ یاظاہراً اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے دعا کی، لیکن مجھے خوف ہواکہ کوئی فتنہ نہ برپا ہوجائے، اس لیے اس بوجھ کو اٹھا نے کے لیے تیار ہوگیا، امارت میں مجھے کوئی راحت نہیں، بلکہ یہ ایسا بوجھ مجھ پر ڈالا گیا ہے کہ جس کی برداشت کی طاقت میں اپنے اندر نہیں پاتا اور اللہ کی مدد کے بغیر یہ فرض پورا نہیں ہوسکتا۔ کاش میری بجائے کوئی ایسا شخص خلیفہ مقرر ہوتا جو اس بوجھ کو اٹھانے کی مجھ سے زیادہ طاقت رکھتا ،مجھے تم نے امیر بنایا، حالانکہ میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں، اگر اچھا کام کروں تو میری مدد کرنا اور غلطی کروں تو اصلاح کرنا ۔جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں، تم میری اطاعت کرنا اور اگر میں ان کےخلاف کرو ں تو میرا ساتھ چھوڑ دینا“۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے عہدِخلافت میں لشکر اُسامہ ؓ کی روانگی ، فتنۂ ارتداد، منکرین زکوٰۃ اور جھوٹے نبیوں کی سرکوبی کے بعد عرب میں امن واستحکام کے ساتھ ساتھ ایران پر فوج کشی کا حکم دیا، اسی طرح شام اور روم کی طرف بھی پیش قدمی کی اور فتوحات کاسلسلہ جاری رہا۔ اپنی وفات سے قبل وصیت فرمائی کہ بیت المال سے ان ڈھائی برس میں جتنا روپیہ بطور وظیفہ مجھے ملتا رہا، وہ سب میری زمین بیچ کر واپس بیت المال میں جمع کرایا جائے، مجھے پرانے کپڑوں میں ہی سپرد خاک کردیا جائے کہ نئے کپڑے کے زندہ زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں ۔٦٣ برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے۔ حضرت عمرؓنے نمازِ جنازہ پڑھائی اور حضوراکرمﷺ کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔