پروفیسر خالد اقبال جیلانی
اسلامی ریاست و حکومت کا اولین مقصد غلبۂ دینِ حق ہے، جسے قرآن کی اصطلاح میں ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر ‘‘کہاجاتا ہے۔ ’’امر بالمعروف‘‘ کے معنی ہیں اللہ کا حکم ماننا اور منوانا جسے عرفِ عام میں نیکی کا حکم دینا کہا جاتا ہے اور ’’نہی عن المنکر ‘‘ کے معنی ہیں اللہ کے حکم کی خلاف ورزی سے رُکنا اور روک دینا۔ اسے عام محاورہ میں برائی سے منع کرنا کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں کام کسی صاحبِ امر یا حاکم کے بغیر ممکن نہیں۔ اسلام کا منشاو مقصد یہ ہے کہ دنیا میں ایک ایسی جماعت قائم ہو جو انسانوں کو اُن زندگی کی غایت (یعنی حکم خداوندی کی اطاعت ) کے حصول کے قابلِ بنا دے، اسی کا نام عبادت ہے۔
انسان صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور دوسری تمام غیر خداوندی غلامیوں سے آزاد ہو کر اس کی نیابت اور تسخیر کائنات کا فریضہ ادا کر سکیں ۔ تسخیر کائنات کے متعلق قرآن عزیز میں 756 آیات ہیں اور اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم الشان عہد جو اس نے امت ِ مسلمہ سے کیا وہ یہ ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایمان اور عملِ صالح کے بدلے زمین میں نائبِ خدا بنائے جائیں گے، انہیں زمین میں تمکن (قرار و غلبہ) حاصل ہوگا اور خوف کے بعد امن نصیب ہوگا۔ ان کا فرض ہے کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ (سورۂ نور 55)
تسخیر کائنات اور نیابتِ الہٰی کے سلسلے میں سب سے پہلا مقام اور مرتبہ نبی اکرم ﷺ کا ہے۔ اس بعد صدیقین ،شہداء اور صالحین کا مقام ہے۔ انہیں اللہ کا بہترین رفیق کہا گیا ہے۔ اللہ کے انہی بہترین رفقاء میں سے ایک بہترین رفیق و صدیق غلبۂ دینِ حق کے راستے میں رسول اللہ ﷺ کے سب سے پہلے ساتھی اور صحابی حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے بچپن کے دوست تھے اور حضور ﷺ کی نبوت پر آزاد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے والے آپ ہیں۔
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے آپ کی شخصیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی، اُس کی طرف سے کچھ نہ کچھ جھجک ضرور محسوس ہوئی، مگر ابو بکرؓ ڈرے، نہ جھجکے‘‘۔ اسلام لانے سے پہلے ہی آپ عربِ جاہلیت کے معاشرے میں حُسن اخلاق، دیانت و امانت، سیرت و کردار اور خاندانی وجاہت میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ایک دولت مند اور صاحب ثروت تاجر تھے ، اپنی دولت سے ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مدد کرتے اور انسانیت کو فائدہ پہنچاتے رہتے تھے۔ آپ کا ایک اعزاز یہ بھی تھا کہ جاہلیت کے زمانے میں خون بہا کا مال آپ ہی کے پاس جمع ہوتا تھا۔ آپ علم الانساب کے بھی عالم تھے۔
ایمان لانے کے بعد قوتِ ایمانی کا یہ حال تھا کہ کسی صورت میں کمزوری کا شائبہ تک کبھی پیدا نہیں ہوا۔ معراج کی صبح جب رسول اللہ ﷺ نے بارگاہ ِ خداوندی میں حاضری کے واقعات بیان کئے تو کافروں نے آپﷺ کا مذاق اڑایا، کسی نے آپؓ سے کہا ! تمہارے دوست جو اللہ کی طرف سے وحی اترنے کا دعویٰ کرتے تھے، اب اللہ سے ملاقات بھی کر آئے ہیں۔ کیا تم اُن کی اس عجیب بات کو مان لوگے؟ صدیق اکبر ؓ نے فرمایا ۔’’ کیوں نہیں ! میں تو اس سے زیادہ عجیب باتوں کو مانتا ہوں ‘‘۔ اسی شانِ ایمانی پر دربار نبوت سے ’’صدیق ‘‘ کا لقب عطا ہوا۔
حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ خود جس خلوص و محبت سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہے، مگر اس کے بعد عمر بھر آپ نے جس طرح رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیا ، وہ بھی اپنی مثال آپ اور آپ کی صد یقیت پر شاہد ہے۔ روزانہ صبح و شام رسول اللہ ﷺ آپ سے اپنے مشن غلبۂ دینِ حق کے متعلق مشورہ لیتے اور آپ ہی کے تعلق اور اثرورسوخ سے حضرت عثمان بنِ عفان، زبیر بنِ عوام، طلحہ بنِ عبداللہ ، عبدالرحمن بنِ عوف اور سعد بنِ وقاص رضوان اللہ علیھم جیسے جلیل القدر صحابہ مشرف بہ اسلام ہو کر رسول اللہ ﷺ کی جماعت کے طاقتور ترین رکن بنے۔ اس کے علاوہ متعد د غلاموں کو آپ ؓ نے خرید کر کفارکے پنچۂ ظلم سے آزادی دلائی۔ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ دونوں مہمات میں آپ ؓ نے اللہ کی راہ میں نکلنے میں پہل کی۔
ہجرتِ مدینہ ایک بے مثال اور تاریخی رفاقت کا نمونہ ہے، جب رسول اللہ ﷺ اپنے رفیق سفر و حضر سیدنا صدیق اکبرؓ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور اذنِ ہجرت کی اطلاع دیتے ہیں ،صدیق اکبر ؓ عرض کرتے ہیں کیا یا رسول اللہﷺ مجھے بھی ساتھ چلنے کی اجازت ہے؟ ’’جواب ملتا ہے ،ہاں تیار ہو جاؤ ‘‘۔اس تاریخی اور پرخطر سفر کا تمام انتظام صدیق اکبر ؓ کے گھر سے ہوا۔جس کی تفصیل سے ہم سب واقف ہیں۔
پھر وہ خطر ناک ترین لمحات آئے کہ جب دشمن آپ ﷺ کی تلاش کرتے کرتے عین غارثور کے منہ پر آگئے ،حضرتِ صدیق اکبر ؓ اس وقت رسول اللہ ﷺ کی طرف سے فکر سے کانپ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے آپ ؓ کو تسلی کے لئے وہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ جو قیامت تک کے لئے اللہ نے قرآن میں محفوظ کر دیئے کہ ’’اے صدیق گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ واقعہ ہجرت نبوی غلبۂ دین حق کی جدوجہد کا اہم ترین مرحلہ ہے اور تاریخ اسلام میں فتح و صداقت اور غلبۂ حق کے باب کا آغاز ہجرت ہی سے ہوتا ہے اور صدیق اکبر ؓ ہجرت کی دو رکنی ٹیم کے اہم رکن تھے۔
واقعہ ہجرت ہی ریاستِ مدینہ کے قیام کی بنیاد بنا اور مدینہ میں اسلام کی حکمرانی اور اللہ کی حاکمیت قائم ہونے کے بعد جب کفار مکہ سے جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا اور غلبۂ دین حق کے لئے مسلح جدوجہد یعنی غزاوت کا آغاز ہوا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ شامل ، شانہ بشانہ شریک رہے اور اپنی بہادری و جاں نثاری کا پورا پورا ثبوت دیا۔اس طرح رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رفاقت کا پورا حق ادا کیا۔ پھر غزوہ ٔتبوک میں تن من دھن کی قربانی کی ایک لازوال مثال بن گئے۔
اس احسان اور محبت کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کا صدیق اکبرؓ کی شان میں صرف ایک فرمان ہی کافی ہے کہ آپ ﷺ نے مدحتِ صدیقیت کرتے فرمایا۔’’ دنیا میں مجھ پر جس کسی نے جو بھی احسان کیا ، میں نے اسے اس کا بدلہ اس دنیا میں دے دیا ،ماسوائے ابو بکر ؓ کے کہ اُن کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ جن کا بدلہ میں حشر کے دن اللہ سے دلواؤں گا۔ ‘‘( فرمانِ رسول اللہ ﷺ) اب اس کے بعد مزید کسی فضیلت کی گنجائش ہی نہیں۔ ہر چند کہ آپ ؓ کی فضیلت میں بے شمار مستند احادیث و روایات ہیں۔
آپ کا عہدخلافت مختصر ہونے کے باوجود تاریخ ساز رہا۔ آپ نے خلافت کا منصب سنبھالتے ہی سب سے پہلا حکم رومیوں سے انتقام لینے کے لئے رسول اللہ ﷺ کا تیار کردہ لشکر حضرت اسامہؓ ہی کی سربراہی میں روانہ کیا جنہیں رسول اللہ ﷺ ہی نے امیر لشکر مقرر کیا تھا اور اس کی روانگی مؤخر کرنے کے مشورے کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی امیر لشکر کی تبدیلی قبول کی۔ آپ نے مرتدین اور منکرین و معانین زکوٰۃ کے خلاف تاریخ ساز جہاد کیا اور ارتداد کے اس فتنے کا خاتمہ فرمایا جس سے فتوحات اسلامی کا نیا دروازہ کھل گیا۔
فتنۂ ارتداد ہی کے حوالے سے آپ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کا بھی قلع قمع کیا۔ اس عزم صدیقی ؓ کا حکیمانہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ مالک بن نویرہ، مسلیمہ کذّاب، اسود عنسی قتل ہوئے اور دین حق کا غلبہ واضح ہو گیا۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اسلامی ریاست کی سرحدوں میں وسعت کے لئے مختلف اطراف مہمات روانہ کیں، مختلف بادشاہوں اور سرداروں کو اسلام کی حاکمیت قبول کرنے کے لئے خطوط لکھے۔ اس کے نتیجے میں اسلامی فتوحات کا آغاز ہوا۔آپ کے بے شمار فضائل میں سے ایک فضیلت بھی ہے کہ آپ جہاں ایک طرف رسول اللہ ﷺ کے خسر جیسے رشتے کے حامل ہیں تو دوسری طرف یارِ غار ہونے کے ساتھ رفیق ِمزار رسالت بھی ہیں۔