• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’پیگماٹائٹ‘‘ یہ نایاب پتھروں اور غیرمعمولی عناصرکے حصول کا ایک اہم وسیلہ ہے

نایاب پتھروں یا انمول نگینوں کی تلاش اور پھر حصول کے حوالے سےصدیوں بلکہ ہزاروں سال کی جہدِ مسلسل کے بعد بنی نوع اِنسان کی دریافت آج اس منزل پر کھڑی نظر آتی ہے جہاں بعض نایاب پتھروں کی تخلیق کے پوشیدہ حقائق آشکار ہو چکے ہیں۔ 

اس نقطۂ ناظر سے زیرزمین آگ سے تشکیل پانے والی موٹی دانے دار آتشی چٹان ’’پیگماٹائٹ‘‘ (Pegmatite) کو ارضی مظاہرے کے اعتبار سے بہت دلچسپ اور کانکنی کے حوالے سے دُنیا بھر میں بڑی فوقیت حاصل ہے، کیوں کہ زمانۂ قدیم سے یہ نایاب پتھروں (نگینوں) کا ماخوذ رہا ہے۔ لیکن فیلڈ سروے کے دوران ان پتھروں کا کھوج لگانا ایک بہت ہی دقّت طلب اور صبر آزما کام ہوتا ہے، کیوں کہ اس قسم کے پتھروں کی تخلیق انفرادی طور پر براہ راست کسی ٹھوس جسم کی شکل میں نہیں ہوتی بلکہ یہ منجمد آتشی جسم مثلاً بیتھولیتھ (Batholith) کے ٹھوس اور منجمد ہونے کے بعد اس کے اندرونی جسم میں باقیاتی محلول کے ساتھ موجود گیسوں کے انجکشن کے توسط سے ہوتا ہے۔

جسے گیسوں کا دخول (Pneumatolytic) طریقہ کہتے ہیں۔ یہاں پہ نیما (Pneuma) یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی گیس کے ہوتے ہیں۔جہاں تک ’’پیگماٹائٹ‘‘ اور اس میں موجود انمول پتھروں کی تخلیق کا تعلق ہے تو یہ حتمی طور پر زمین کی عمیق گہرائی (سطح زمین سے کئی کلومیٹر نیچے) میں ناہموار ٹھوس حالت یا پھر ’’پھلی نما ساخت‘‘ (Pool-Like) کی طرح منجمد شدہ آتشی جسم میں قلم پذیر ہوتی ہیں۔ 

جو باقیاتی محلول کے معرفت عمل میں آتی ہے، چونکہ یہ باقیاتی محلول ’’گرینائٹ‘‘ چٹان کی پگھلی ہوئی حالت ہوتی ہے اور اس محلول سے ’’پیگماٹائٹ‘‘ کی تخلیق ہوتی ہے، جس کی وجہ سے یہ بھی ’’گرینائٹک‘‘ نوعیت کی ہوتی ہے۔ (کمپوزیشن کی بنیاد پر) یعنی اس قسم کے میگما میں کوارٹز، فلسپار اور ابرق لازمی طور پر موجود ہوتے ہیں جسے مجموعی طور پر ’’فیلسک‘‘ (Felsic) کہتے ہیں۔ درجۂ حرارت میں کمی کے ساتھ یہ تمام معادن (90 فی صد) اپنے اپنے مطلوبہ درجۂ حرارت پر قلم پذیر ہو جاتے ہیں۔ 

یہ غیر طیران پذیر مرکبات ہوتے ہیں لیکن دُوسری طرف طیران پذیر (Volatile) اجزاء مثلاً :پانی ، بھاپ، فلورین، کلورین اور فاسفورس اسی طرح ٹھوس جسم کے مرکز میں موجود ہوتے ہیں جو مائع کی لزوجیت (Viscosity) کو کم کر دیتے ہیں، جس سے محلول میں موجود آئن کی حرکت پذیری (Mobility) بڑھ جاتی ہے۔ یہ تمام اجزاء مائع حالت میں اسی طرح مقید ہوتے ہیں ،جس طرح زمین اپنی تخلیق کے بعد ٹھوس حالت میں آنے کے باوجود ابھی تک اس کا مرکز مائع تا نیم مائع حالت میں موجود ہے، جس کی اصل وجہ بالائی دبائو کو قرار دیا گیا ہے۔ 

زیر زمین توانائی میں اضافے کی وجہ سے پانی میگما میں حل ہو جاتا ہے اور ایک حد تک یہ دبائو کی زَد میں ہوتا ہے جیسے کولڈ ڈرنک کی بوتل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس اندرونی دبائو کی وجہ سے مقید ہوتی ہے لیکن جیسے ہی بوتل کے ڈھکن کو کھولا جاتا ہے تو اندرونی دبائو میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور گیس بُلبلے کی صورت میں فرار ہونے لگتی ہے۔ 

ٹھیک اسی طرح زیرزمین دباؤ میں مسلسل اضافہ ہونے کی وجہ سے میگما کسی کمزور زون سے سطح زمین پر لاوا کی شکل میں پھوٹ پڑتا ہے ،جس کے دوران لاوا اور پہلے سے بنی ہوئی آتشی جسم کے درمیان تعامل بھی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے تخلیق ہونے والی آتشی جسم میں بھی تفرق پیدا ہو جاتا ہے، جسکے سبب دو پہلوئوں کو نظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ 

اس کے پہلے پہلو سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ میگما میں موجود جو بنیادی چٹان ساز مرکبات ہوتےہیں پہلے ہی منجمد ہو کر گہرائی میں ’’بیتھولیتھ‘‘ کی صورت اختیار کرکے ’’گرینائٹ‘‘ چٹان کی تخلیق کرتے ہیں جب کہ دوسرے مرحلہ میں آتشی جسم کے مرکز میں موجود باقیاتی محلول جو طیران پذیر اشیاء پر مشتمل ہوتے ہیں۔

میگمائی تفرقات کے آخری مرحلہ میں ’’انجکٹ‘‘ ہو کر موٹے اور خوبصورت قلموں پر مشتمل چٹان کی تشکیل کرتے ہیں جو ’’پیگماٹائٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس میں کوئی ترتیب وار معدنی تہہ موجود نہیں ہوتی بلکہ افقی زونل تقسیم جیسی تہیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً پاکستان کے شمالی علاقوں اور خصوصی طور پر روس کے علاقے ’’مرزنکا‘‘ (Murzinka) کے علاقے میں موجود ’’پیگماٹائٹ‘‘ میں اس کا بیرونی زون گرینائیٹ چٹان پر مشتمل ہے، جس کے حدود میں زیادہ تر ہلکے رنگ کے بہت سے کسے (Packed) ہوئے موجود ہوتے ہیں۔ 

مرکز کی طرف اس کا تبادلہ ایک دُوسرے میں پیوست ’’گرافک گرینائٹ‘‘ زون میں موجود قلموں سے ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور ساتھ ہی موٹے دانے دار کوارٹز بھی موجود ہیں جب کہ اس کی مرکزی زون کی جانب خلاء کی موجودگی پائی گئی ہے، جس میں بہت ہی قیمتی اور انمول پتھروں کی دیدہ زیب قلمیں نظر آتی ہیں جن میں زمرد (Emerald)، نیلم (Sapphire)، پکھراج (Topaz) اور یاقوت (Ruby) خصوصی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ان پتھروں میں ’’زمرد‘‘ کی تاریخ بہت قدیم ہے، کیوں کہ ہزاروں برس سے اِنسان اس نگینے کو زیورات میں استعمال کر رہا ہے۔ یہ پتھر اپنی چمک دمک میں اپنی مثال آپ ہے۔ فیلڈ سروے سے حاصل کرنے کے بعد اگر یہ بالکل خالص ہوتا تو اس کا رنگ گہرا سبز ہوتا ہے۔ 

اگر اسے ’’الٹراوائلٹ‘‘ شعاعوں کے کیپ میں دیکھا جائے تو اس کے رنگ میں کوئی فرق نہیں پڑتا جب کہ نقلی ہونے کی صورت میں اس کا رنگ سُرخ نظر آنے لگے گا۔ اس کے کمپوزیشن میں کروم، میگنیز، ایلمونیا اور بیرلیم شامل ہوتا ہے۔ اس کی ایک شاخ ہوتی ہے ’’زبرجد‘‘ (Beryl) جسے فیلڈ سروے کے دوران ماہرین ارضیات تلاش کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ،کیوںکہ اس میں بیرلیم دھات پائی جاتی ہے جو دُنیا کی سب سے ہلکی اور مستحکم ترین دھات ہوتی ہے۔ اس دھات کو جب ’’ریڈیم‘‘ کے ساتھ ملا دیا جائے تو اس میں نیوٹران اور الیکٹرون پیدا ہوتے ہیں جو ایٹم بم کی تیاری میں خاص اجزاء ہوتے ہیں۔

یہ 2050 ڈگری فارن ہائٹ تک نہیں پگھلتی اور لاکھوں سال تک ویسی کی ویسی رہتی ہے جب کہ نیلم بھی نیلے رنگ کا ایک قیمتی پتھر ہے جو بہت سے رنگوں میں دستیاب ہوتا ہے۔ سوائے سُرخ رنگ کے۔ ان میں سب سے زیادہ قیمتی نیلم وہ ہوتا ہے جس کا رنگ گہرا اور شوخ نیلا ہوتا ہے۔ ٹائی ٹینیم اور لوہے کی قلیل مقدار کی موجودگی اسے نیلے رنگ کا خوبصورت نگینہ بنا دیتا ہے ،جس کے اندر سے ایک روشنی پھوٹتی نظر آتی ہے، جس سے ایسا لگتا ہے جیسے اندر کوئی روشنی پھوٹ رہی ہو۔ اس قسم کے نیلم کو ’’نجمی نیلم‘‘ کہتے ہیں۔

پیگماٹائٹ کے جسم میں ’’پکھراج‘‘ اور ’’یاقوت‘‘ بھی منسلک ہوتے ہیں۔ پکھراج کا شمار ایک اچھے نگینہ میں ہوتا ہے جو سفید اور کئی رنگوں میں دستیاب ہوتا ہے جب کہ یاقوت سُرخ رنگ میں پایا جاتا ہے۔ ان دونوں پتھروں کا شمار آج بھی بہت ہی نایاب اور قیمتی پتھروں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں اکثر پیگماٹائٹ سے کانکنی کے دوران ابرق (مسکوائٹ) کی بڑی قلمیں بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔

اس قسم کی قلموں کو کتاب (Books) کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی ترکیدگی (Cleavage) اوراق کی طرح ہوتے ہیں چونکہ مسکوائٹ ایک بہترین حاجز (Insulator) ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اسے بعض بجلی کے آلات مثلاً ٹوسٹر اور استری وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ غیرحاجز تار (Uninsulator) تار کو ایک دُوسرے سے جدا رکھا جا سکے۔ اس میں موجود فلپسار کو فن کوزہ گری میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

تحقیق اور تجزیے سے یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ ’’پیگماٹائٹ‘‘ ہی دُنیا کا واحد وسیلہ ہے ،جس سے کائنات میں موجود غیرمعمولی عناصر کی کانکنی بھی کی جا رہی ہے۔ یہ غیرمعدنی عناصر ان معدن کے ساتھ جذب نہیں ہوتے جو اصل چٹان ساز آتشی بلاک میں موجود ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کا ارتکاز باقیاتی محلول کے توسط سے پیگماٹائٹ میں ہو جاتا ہے۔ 

جہاں پر وہ ایک غیرمعمولی طور پر پائے جانے والے معدن کا جُز بن جاتے ہیں۔ مثلاً: معدن جس میں عنصر ’’لیتھیم‘‘ موجود ہوتا ہے اسے پیگماٹائٹ کے کانکنی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ لیتھیم شیٹ ساخت کا حصہ ہوتا ہے، جس کے توسط سے گلابی یا بنفشی قسم کا ابرق (Mica) تیار کیا جاتا ہے جسے ’’لیپی ڈولائٹ‘‘ (Lepidolite) کہتے ہیں۔ 

یورینیم (Uranium) جو ایک تابکار عنصر ہے باقیاتی میگما کا جُز ہوتا ہے، جس کا حصول بھی پیگماٹائٹ سے ہوتا ہے۔ تحقیق اور تجزیے سے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ زیرزمین بعض حالات میں ایسا میگمائی محلول جنم لیتا ہے، جس میں نہ تو چٹان ساز معادن اور نا ہی طیران پذیر اشیاء ہوتے ہیں بلکہ یہ مختلف دھاتی اجزاء پیدا ہوتےہیں جسےآب تپشی محلول (Hydrothermal Solution) کہتے ہیں۔ 

جس کا تعلق پیگماٹائٹ سے بہت قریبی ہوتا ہے ،کیوںکہ محلول ہمسایہ چٹان کے دراڑوں اور خلاء سے گزرتے ہوئےحل پذیر معادن کوارٹز کی نسوں (Veins) کو مرکوز کرتا جاتا ہے، کیوں کہ یہ گرم پانی میں حل پذیر ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے یہ سطح زمین کی طرف سفر کرتا ہوا ترسیبی عمل سے گزرتا ہے۔ بعض اوقات کوارٹز کی ان نسوں میں گراں قدر دھات کی تہہ نشینی ہوتی ہے۔ مثلاً سونا، چاندی، زنک اور کاپر شامل ہوتے ہیں جو تقریباً 300-500 ڈگری سینٹی گریڈ پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جنوبی مشرقی ایشیا کے کئی ممالک سائنس و ٹیکنالوجی میں پسماندگی کی وجہ سے اب تک پیگماٹائٹ سے اس قیمتی اثاثے کے حصول میں ناکام نظر آتے ہیں۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید